’’فہمیدہ ریاض‘‘ شاعری میں نیا آہنگ اور لب و لہجہ متعارف کیا

July 28, 2019

’’فنکار کو اپنے فن کے ساتھ مکمل طور پر مخلص اور معیار پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے۔ میرے لیے فن مقدس ہے‘‘۔ یہ الفاظ فہمیدہ ریاض نے 10سال قبل ایک انٹرویو کے دوران کہے تھے۔ آج جب ادب کمرشل ہوکر شاہوں کا ستائش گر بن گیا ہے،ایسے میں یہ الفاظ سچے لکھاریوں کے لیے راہ نمائی و سند کا درجہ رکھتے ہیں۔

نقشِ حیات

فہمیدہ ریاض 28جولائی 1945ء کو میرٹھ، برٹش انڈیا کے علمی و ادبی گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد ریاض الدین احمد ماہرِ تعلیم تھے۔بعداز تقسیم ہند کے بعد ان کا خاندان حیدر آباد سندھ میں رہائش پذیر ہوا۔ انھوں نے زمانہ طالب علمی میں پندرہ سال کی عمرمیں پہلی نظم لکھی، جو احمد ندیم قاسمی کے رسالے میں شائع ہوئی۔ دورانِ تعلیم انھوں نے طلبہ کی سیاسی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ 60کی دہائی میں طلبہ یونین پر پابندی کے خلاف لکھتی رہیں جبکہ ضیاء دور حکومت میں حکومتی پالیسیوں پر تنقید کے جرم میں ان پر 10سے زائد مقدمات قائم ہوئے۔ انھیں جبری جلاوطن کیا گیا تو وہ بھارت چلی گئیں اور پھر تقریباً سات سال بعد وطن واپس آئیں۔

22سال کی عمر میں فہمیدہ ریاض کا پہلا شعری مجموعہ ’پتھر کی زبان‘1967ء میں شائع ہوا، ان کا دوسرا مجموعہ ’بدن دریدہ‘ 1973ء میں شادی کے بعد انگلینڈ میں قیام کے دوران شائع ہوا جبکہ تیسرا مجموعہ ’کلام دھوپ‘ تھا۔ فہمیدہ ریاض نیشنل بک فاؤنڈیشن اسلام آباد کی سربراہ بھی رہیں۔ معروف سندھی شاعر شیخ ایاز کے کلام اور مثنوی مولانا روم کااردو میں ترجمہ کیا ۔ 1998ء میں ہیومن رائٹس واچ کی جانب سے ہیلمن/ہیمٹ گرانٹ ایوارڈ برائے ادب جبکہ2005ء میں المفتاح ایوارڈ برائے ادب و شاعری اور شیخ ایاز ایوارڈ دیا گیا۔ 2010ء میں انھیں حکوت پاکستان کی جانب سے تمغہ حسن کارکردگی برائے ادب اور 2014ء میں کمالِ فن ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ 21نومبر 2018ء کو72سال کی عمر میں انھوں نے وفات پائی اور لاہور میں آسودۂ خاک ہوئیں۔

شاعرانہ محاسن

فہمیدہ ریاض کا پہلا مجموعۂ کلام ’پتھر کی زبان‘ خواب اور شکستِ خواب کی دنیا ہے۔ اس میں مثنوی کی طرز کی ایک نظم میں محبت میں ناکامی کا سانحہ جلوہ گر ہے۔ وہ کتاب کے پیش لفظ میں لکھتی ہیں،’’کارگاہِ ہستی میں کسی حساس ذی رُوح پر وہ مقام نہیں آیا ہوگا جب اس نے خود کو مقتل کے دروازے پر نہ پایا ہو۔ جب اُسے اپنے وجود کی قیمت نقدِ جاں سے نہ چکانی پڑی ہو لیکن جب جان سے گزرنا ہی ٹھہرا تو سر جُھکا کر کیوں جائیں۔ کیوں نہ اس مقتل کو رزم گاہ بنا دیں۔ آخری سانس تک جنگ کریں۔ سو میں نے بھی اپنی گردن جھکی ہوئی نہیں پائی۔ میری نظمیں جو آپ کے سامنے ہیں، ایک رجز ہیں، جنھیں بلند آواز سے پڑھتی ہوئی میں اپنے مقتل سے گزری۔ اس لحاظ سے ’بدن دریدہ‘ ایک رزمیہ ہے‘‘۔

یہ رزمیہ فہمیدہ ریاض کے آخری مجموعۂ کلام ’’تم کبیر…‘‘ تک مختلف اور متنوع انداز میں پھیلتا چلا آیا ہے۔ اُن کی زندگی میں نسائی ادب کا بہت چرچا رہا۔ فاطمہ حسن نے اپنی کتاب ’فیمنزم اور ہم‘ میں اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے،’’نسائی ادب کے حوالے سے فہمیدہ ریاض کی شاعری ایک نئے طرزِ احساس کی جانب سفر کرتی نظر آتی ہے، جس میں عورت کے اپنے وجود کا بھرپور احساس نمایاں ہے۔ فہمیدہ کی عورت دوسروں کے وجود کا سایہ نہیں بلکہ مکمل شخصیت کے طور پر اُبھرتی ہے۔ اُنھوں نے روایتی رویوں سے کنارہ کشی کی اور ایک نئی فضا میں سانس لینے کی کوشش کی۔ نظم ’اقلیما‘ میں ایسی سوچ کا اظہار بڑی شدت سے کیا گیا ہے۔ ’مقابلۂ حسن‘ فہمیدہ کی ایسی نظم ہے، جس پر کافی لے دے مچی مگر یہ حقیقت ہے کہ یہ نظم ایک ایسے رویے کے خلاف بھرپور احتجاج ہے، جو صدیوں سے عام رہا ہے۔ عورت کا جسم ادیب، شاعر، مصور، اور مجسمہ ساز سب کا موضوع رہا ہے، اس طرح عورت صرف تفریح اور تزئین آرائش کی شے بن کر رہ گئی ہے ‘‘۔

خالدہ حسین نے ان کے متعلق کہا تھا،’’فہمیدہ ریاض وہ پہلی شاعرہ ہیں، جنھوں نے عورت کا اصل(Archetypal)تشخص اُجاگر کیا ہے۔ وہ عورت کے منصب اور مسائل کو جسمانی اور روحانی سرشاری کے ساتھ منسلک دیکھتی ہیں۔ زندگی کے تسلسل کے لیے عورت کا کردار صرف جبلتی نہیں بلکہ ایک ماورائی جہت بھی رکھتا ہے۔ فرید الدین عطار کی سات سو برس قدیم فارسی کلاسِک’منطق الطیر‘پر مبنی ایک خوبصورت تمثیلی کہانی ’قافلے پرندوں کے‘ لکھنا روحانی واردات سے گزرے بغیر ممکن نہیں۔ رومی کی غزلیات کی سرمستی اور روحانی کیفیت کو اردو کا پیرایہ دینا خود اس سرخوشی میں گلے گلے ڈوبنے کا اشاریہ ہے۔ ان کے نزدیک تخلیقی فن میں اس کا اظہار پانا ایک فطری عمل بلکہ فن کا فریضہ ہے۔ ان کی شاعری کا رنگ انقلابی ہے مگر وہ نعرہ باز ہر گز نہیں۔ تحریر میں جمالیات کا ایک پورا نظام ہے اور الفاظ میں حسیت کی شدت ہے۔‘‘ معروف انقلابی شاعر حبیب جالب نے کہا تھا،’’ جب تک غربت ہے، فہمیدہ ریاض کی شاعری زندہ رہے گی‘‘۔ جیسے وہ خود جاتے جاتے کہہ گئیں:

میں بندہ و ناچار کہ سیراب نہ ہو پاؤں

اے ظاہر و موجود، مرا جسم دُعا ہے