”جھرلو“ گھمانے والی سرکار

February 08, 2013

چاچا پھتو کا خیال ہے کہ سیاست کا کھیل بلیک مارکیٹ سے بھی زیادہ منافع بخش ہے اس لئے انتخابات کا ناقوس بجنے سے پہلے وہ کسی نہ کسی جماعت سے ایم پی اے یا ایم این اے کا ٹکٹ لینا چاہتا ہے مگر میرا خیال ہے منڈی سیاست کی ہو‘ مچھلی منڈی ہو‘ غلہ منڈی یا سبزی منڈی‘ اصول تجارت ہر جگہ ایک جیسے ہوتے ہیں اور کامیاب سرمایہ کاری کیلئے انہیں سمجھنا ضروری ہے۔ ہماری مروجہ سیاست کا بنیادی اصول یہ ہے کہ کوئی شخص تن تنہا کامیاب سیاستدان نہیں بن سکتا کیونکہ یہ خاندانی پیشہ ہے بھائی‘ بہن اولاد تو شریکِ سیاست ہوتے ہی ہیں۔ چاچے‘ مامے‘ تائے‘ ہم زلف‘ سمدھی‘ داماد‘ ایرے غیرے سب عوام کی خدمت کا بیڑہ اٹھائیں تو آپ ایوان اقتدار تک پہنچ پاتے ہیں مثلاً چار بھائی ہیں تو ایک الیکشن لڑے‘ دوسرا کاروبار سنبھالے اور سرمایہ فراہم کرے‘ تیسرا سول سرونٹ ہو تاکہ انتظامی اختیارات گھر میں رہیں اور چوتھے کو وکیل یا جج بنا دیا جائے تاکہ تھانے کچہری کے معاملات سلجھانے میں آسانی ہو۔ تینوں بھائی ایڑی چوٹی کا زور لگا کر چوتھے بھائی کو ایم پی اے یا ایم این اے بنواتے ہیں اور پھر وہ برسراقتدار آتے ہی کاروباری بھائی کو ٹینڈر دلواتا ہے‘ سول سرونٹ کی پروموشن کراتا ہے اور قانون دان کو جج‘ پراسیکیوٹر یا اٹارنی لگواتا ہے۔ چاچا پھتو میری تشویش کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے خشونت بھرے لہجے میں کہتا ہے ”بس کر علمو‘ اب زمانہ بدل گیا ہے یہ سوشل میڈیا کا دور ہے‘ میڈیا نے لوگوں کو باشعور کر دیا ہے تم کس زمانے کی بات کرتے ہو…“۔
مگر میں تو جدھر دیکھتا ہوں یہی آفاقی اصول کارفرما دکھائی دیتا ہے مثلاً جسٹس (ر) افضل چیمہ جو مولوی تمیز الدین کے ساتھ قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر رہے بعد ازاں ہائیکورٹ کے جج بنے ان کے صاحبزادے جسٹس (ر) افتخار علی چیمہ جو گوجرانوالہ سے مسلم لیگ کے ایم این اے ہیں ان کے ایک بھائی ذوالفقار علی چیمہ پنجاب پولیس میں اعلیٰ عہدیدار ہیں جبکہ ان کے دوسرے بھائی ڈاکٹر نثار احمد چیمہ پنجاب میں ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ کے عہدے پر تعینات ہیں۔ گوجرانوالہ کی ایک معروف سیاسی شخصیت ابراہیم انصاری ہوا کرتے تھے ان کے ایک صاحبزادے صوبائی سیکرٹری ایجوکیشن تھے ان کی صاحبزادی مسلم لیگ (ق) کے دور حکومت میں صوبائی وزیر تھیں جنہیں گوجرانوالہ میں کھلی کچہری کے دوران قتل کر دیا گیاتھا جب کہ ان کے ایک فرزند بیرسٹر عثمان ابراہیم اب بھی رکن قومی اسمبلی ہیں۔ بیرسٹر عثمان ابراہیم کے دو بھانجے یعنی ابراہیم انصاری کے نواسے نذیر سعید انصاری اور عابد سعید انصاری صوبائی سیکرٹری اور ممبر بورڈ آف ریونیو ہیں۔ ابراہیم انصاری کے داماد قاضی خالد سعید بھی سینئر بیوروکریٹ ہیں۔ گوجرانوالہ سے ہی ایم این اے ہیں بشیر محمود ورک‘ ان کے بھانجے نوید اکرم چیمہ جو سابق صوبائی وزیر شاہ نواز چیمہ کے بھتیجے ہیں پنجاب میں سیکرٹری ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن رہے اور اب پی سی بی کے منیجر ہیں۔ چیئرمین پی سی بی ذکاء اشرف کا خاندان بھی نسل در نسل عوام کی خدمت کرتا چلا آ رہا ہے۔ ان کے والد چوہدری اشرف ،چچا چوہدری اقبال جو چیلیاں والا ضلع گجرات کے رہنے والے تھے انہوں نے سیاست میں قدم رکھا تو چوہدری اشرف منسٹر بنے اور چوہدری اقبال نے شوگر مل لگائی بعد میں وہ خود بھی ایم پی اے اور ایم این اے منتخب ہوئے۔ چوہدری جعفر اقبال جو چوہدری اقبال کے صاحبزادے ہیں، چند ہفتے قبل وہ خود مسلم لیگ (ن) کی جانب سے بلامقابلہ سینیٹر منتخب ہوئے ان کی اہلیہ عشرف اشرف یا عشرت جعفر پہلے ہی ایم این اے ہیں ان کی صاحبزادی زینب جعفر بھی ایم پی اے ہیں۔ شفقت محمود جو تحریک انصاف کے ترجمان ہیں یہ چوہدری اقبال اور چوہدری اشرف کے بھانجے ہیں گوجرانوالہ سے ہی 70ء کی دہائی میں چوہدری محمد حسین بھنڈر کا طوطی بولتا تھا ان کے صاحبزادے چوہدری انور بھنڈر جو سابق اسپیکر اور منسٹر کی حیثیت سے معروف ہیں ان کے ایک صاحبزادے خورشید انور بھنڈر ڈی جی نیب پنجاب ہیں‘ دوسرے فرزند وسیم انور بھنڈر ڈپٹی ڈائریکٹر کی حیثیت سے ایف آئی اے لاہور تعینات ہیں۔ سابق وزیر شاہد اکرم بھنڈر بھی اسی خاندان سے ہیں۔ فیصل آباد سے سلطان احمد ایم این اے تھے جنہوں نے مینار پاکستان سے کود کر خودکشی کر لی تھی ان کے صاحبزادے آفتاب سلطان ڈائریکٹر انٹیلی جنس بیورو کے طور پر کام کرتے رہے ہیں اور اب پولیس اکیڈمی کے کمانڈنٹ ہیں ان کی صاحبزادی سروش سلطان سیکرٹری کوآپریٹو تھیں کرپشن کے مقدمات بنے تو لندن چلی گئیں سروش سلطان نصر اللہ دریشک کی اہلیہ ہیں جو سابق صوبائی وزیر ہیں۔ ننکانہ صاحب سے سابق صوبائی وزیر رائے منصب علی کے داماد اسحاق جہانگیر ایس ایس پی ہیں سرگودھا سے سابق ایم این اے ملک نعیم اعوان کے بھائی اور لیفٹننٹ جنرل (ر) محمد سلیم ملک کے داماد محمد علی نیکو کار جو لاہور میں بھی تعینات رہے محکمہ پولیس میں ایس ایس پی ہیں۔ ملک نعیم اعوان جن کا اوپر تذکرہ آیا ہے ان کے بھانجے کیپٹن (ر) طاہر سرفراز اعوان جو صوبائی سیکرٹری سوشل ویلفیئر ہیں یہ عائلہ ملک کے بہنوئی یعنی سمیرا ملک کے شوہر ہیں۔ طاہر سرفراز اعوان کی بہن فرحانہ افضل بھی پنجاب اسمبلی کی رکن ہیں۔ مسلم لیگ کے رہنما خواجہ آصف کے کزن خواجہ صدیق اکبر وفاقی سیکرٹری داخلہ ہیں انہیں گجرات کے چوہدریوں کی سفارش پر لایا گیا تھا تاکہ مونس الٰہی کی خلاصی ہو سکے۔ گجرات سے چوہدریوں کے عزیز رانا تجمل حسین جو ایم این اے ہیں ان کے داماد اور سابق ایم این اے چوہدری مبشر حسین کے بہنوئی ظفر عباس لک ڈی جی ایف آئی اے رہے ہیں اور اب آئی جی موٹروے پولیس ہیں۔ ظفر عباس لک رکن قومی اسمبلی تنزیلہ عامر چیمہ کے بہنوئی اور سابق صوبائی وزیر عامر سلطان چیمہ کے ہم زلف بھی ہیں عامر سلطان چیمہ کے والد انور چیمہ خود بھی وفاقی وزیر مملکت ہیں۔ جھنگ کے سابق صوبائی وزیر مہر اختر عباس بھروانہ کی صاحبزادی صائمہ اختر بھروانہ ایم این اے ہیں اور ان کے بیٹے سعید اختر بھروانہ پنجاب پولیس میں ایس ایس پی ہیں۔ جھنگ سے ہی سلطان باہو خاندان کے چشم و چراغ سابق وفاقی وزیر نذیر سلطان اور ایم این اے محبوب سلطان کے بھتیجے جبکہ سابق ضلع ناظم اور ریٹائرڈ وفاقی سیکرٹری صاحبزادہ حمید سلطان کے دو برخوردار بیوروکریٹ ہیں۔ شہریار سلطان ڈائریکٹر جنرل لوکل گورنمنٹ ہیں جبکہ شہزادہ سلطان پنجاب پولیس میں ایس ایس پی ہیں۔ یہ سول سرونٹ انتخابات کے دوران کیسے ممدو معاون ثابت ہوتے ہیں‘ یہ بیوروکریسی کے بے تاج بادشاہ قدرت اللہ شہاب کی زبانی پڑھئے۔شہاب نامہ میں لکھتے ہیں:
”عام زندگی میں ”جھرلو“ گھمانا مداریوں کا کسب ہے جادو کی چھڑی گھما کر مداری خالی تھیلے سے زندہ کبوتر برآمد کرتے ہیں لیکن جب یہ ”جھرلو“ الیکشن کے موقع پر ڈپٹی کمشنر کے اشارے پر گھومتا ہے تو عوام کی ہتھیلیوں پر سرسوں کے کھیت کے کھیت جم جاتے ہیں۔ پولیس کی حفاظت میں مقفل تہہ خانوں کے کواڑ کھل جا سم سم کے جادو سے وا ہو جاتے ہیں۔ لوہے کی سربمہر صندوقچیاں ٹوٹ جاتی ہیں اور نااہل امیدواروں کے نام پڑے ہوئے ووٹ تناسخ ارواح کے اصول پر لائق و فائق امیدواروں کے بکسوں میں منتقل ہو جاتے ہیں۔ یہی جھرلو ووٹوں کی جعلی پرچیاں بنوا دیتا ہے۔ اسی ”جھرلو“ کے فیض سے ووٹوں کی تعداد ووٹروں کی تعداد سے کئی گنا بڑھ جاتی ہے اور یہ اسی ”جھرلو“کی برکات کا نزول ہے کہ افسروں کی ترقیاں ہوتی ہیں‘ ان کے تبادلے رکتے ہیں اور ان کے عزیزوں‘ رشتہ داروں اور طفیلیوں کو نوکریاں اور امپورٹ پرمٹ ملتے ہیں…“۔
جب تک ”جھرلو“ گھمانے والی یہ سرکار آپ کے ہاتھ کی چھڑی اور کلائی کی گھڑی نہ بنے‘ چاچا پھتو کی طرح الیکشن لڑنے کا خیالی پلاوٴ پکانے سے پرہیز ہی کریں تو اچھا ہے۔