اقتدار کا مک مکا

February 08, 2013

نواز شریف اور آصف زرداری کے درمیان مک مکا کی تاریخ کچھ زیادہ پرانی نہیں۔بس ایک ڈیڑھ دھائی پر محیط ہے۔اس کا آغاز جیل میں ہواجہاں نواز شریف نے آصف زرداری سے ماضی کی غلطیوں کی معافی مانگی اور آصف زرداری نے ایک بادشاہ کی طرح دوسرے بادشاہ کو فراخ دلی کے ساتھ معاف کردیا بلکہ سینے سے لگا لیا۔نواز شریف جب جیل سے جدہ پہنچے تو اس وقت بے نظیر بھٹو لندن میں تھیں انہوں نے آصف زرداری کے کہنے پر نواز شریف کے ساتھ مستقبل میں مک مکا کی گفت و شنید شروع کی ۔رفتہ رفتہ دونوں رہنما ایک دوسرے کے بہت قریب آگئے ۔دنیا بھر میں پیپلز پارٹی کے لوگوں نے نون لیگ کے لوگوں کو گلے لگانا شروع کردیا۔ایم آر ڈی نام کے اتحادمیں دونوں جماعتیں شامل ہوگئیں تقریباً ایک سال کے بعدمیثاق ِ جمہوریت کا دن آگیا یعنی مک مکا کا باقاعدہ اعلان کر دیا گیا۔پھر محترمہ بے نظیر بھٹو اور پرویز مشرف میں مذاکرات ہوئے اور این آر او وجود میں آیا ۔بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی جلاوطنی ختم ہوئی اور دونوں پاکستان پہنچنے میں کامیاب ہوگئے اورنواز شریف انتخابات سے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا مگر محترمہ بے نظیر بھٹو کے کہنے پر پھر الیکشن لڑنے پر آمادہ ہوگئے پھرمحترمہ بے نظیر بھٹو قتل کردی گئیں یہ خبر نواز شریف کیلئے بہت زیادہ تکلیف دہ ثابت ہوئی وہ اسی وقت اس ہسپتال میں پہنچے جہاں محترمہ بے نظیر بھٹو کی لاش پڑی ہوئی تھی اور نواز شریف نے دوبارہ انتخابات سے بائیکاٹ کا اعلان کر دیامگر آصف زرداری کے مجبور کرنے پرپھر انتخا بی عمل کا حصہ بن گئے ۔ مل کر حکومت بنائی حتیٰ کہ آصف زرداری کے کہنے پر پرویز مشرف سے نون لیگ کے وزراء نے بھی حلف اٹھا لئے ۔لیکن پھر یہ طے پا گیا کہ پنجاب کی حکومت نون لیگ کے پاس رہے گی اور وفاق میں نون لیگ اپوزیشن کا رول ادا کرے گی تاکہ کوئی پارٹی سامنے نہ آسکے اوریوں مک مکا کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگیا۔ہر معاملہ میں بظاہر پیپلز پارٹی اور نون لیگ ایک دوسرے کی مخالف پارٹیوں کے طور پر کام کرنے لگیں لیکن ہر معاملہ اپوزیشن کو ساتھ رکھ کر طے کیاگیاقومی اسمبلی میں پاس ہونے والے تمام بل دونوں پارٹیاں مل کر بناتی رہیں ۔پنجاب میں بھی پیپلز پارٹی اور نون لیگ میں کسی غلط فہمی کی بنیاد پر ایک مرتبہ گورنر راج لگا دیا گیا تھا مگر جلد وہ غلط فہمی دور ہوگئی تھی اور مک مکا کا سلسلہ جاری رہا تھا۔مک مکا سے ہی نواز شریف کو وزیر اعظم بنانے کیلئے یہ قانون پاس ہوا کہ کوئی شخص تیسری مرتبہ وزیر عظم بن سکتا ہے یہ الیکشن کمیشن بھی مک مکا ہی نتیجہ ہے جس کی حفاظت کیلئے نون نے دھرنا دیا۔نیب کا چیئرمین بھی مک مکا سے لگایا گیا تھا جو آج کل دونوں پارٹیوں کی کرپشن کا نگہبان بنا ہوا ہے ۔آئین میں جتنی ترامیم ہوئیں مک مکا سے ہی ہوئیں اور مک مکا کے مطابق اس مرتبہ حکومت کرنے کی باری نون لیگ کی ہے ۔ آنے والے انتخابات میں پیپلز پارٹی اچھی جانتی ہے کہ وعدہ کے مطابق وفاق میں نون لیگ نے ہی حکومت بنائی ہے۔لیکن مسئلہ وہاں خراب ہوگیا ہے کہ عوام کو آزاد میڈیا نے اس مک مکا کی خبر دے دی اور لوگ سوچنے لگے کہ اگلی مرتبہ یہی لوگ اقتدار میں آگئے تو ان کا کیا حشر ہوگا عوام پنجاب میں نون لیگ کی حکومت کو دیکھ چکے ہیں سو عوام نے عمران خان کی طرف دیکھنا شروع کر دیا اوپرسے ڈاکٹر طاہر القادری تشریف لائے ہیں اورنون لیگ پریشان حال ہوگئی کہ ہماری باری پر یہ کیا عذاب نازل ہونے لگے ہیں۔پیپلز پارٹی کو کچھ زیادہ پریشانی اس لئے نہیں ہے کیونکہ وہ لوگ جانتے ہیں کہ گذشتہ پانچ سالوں میں ہم نے جو کچھ کیا ہے اس کے بعدعزت کے ساتھ اپوزیشن میں بیٹھناہمارے لئے بہت بڑی بات ہوگی جیسا کہ مک مکا میں طے ہے ۔مگر پھر رضا ربانی نے مک مکا کا بھرم رکھتے ہوئے یہی کہا ہے کہ جمہوریت کے خلاف سازش ہورہی ہے ۔ طویل المیعااد نگران حکومت لانے کی کوشش کی جاری ہے اور نواز شریف بھی بار بار یہی کہہ رہے ہیں مگر دونوں رہنماؤں نے اس سلسلے میں کوئی وضاحت نہیں کی کہ وہ کون لوگ ہیں جو ان کے مک مکا کے درمیان رخنہ ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ دونوں پارٹیاں جو اقتدار میں ہیں وہ یہ الزام لگا رہی ہیں ۔ کس پر لگا رہی ہیں ۔ یقینا فوج پر یہ الزام لگایا جا رہا ہے ۔ میرا خیال ہے کہ چیف آف آرمی سٹاف کو فوری طور پر ان بیانات کی وضاحت کرنی چاہئے کہ یہ لوگ فوج کو پھر کیوں سیاست میں ملوث کر رہے ہیں۔
جہاں تک مک مکا کی روح کا تعلق ہے تو یہ مک مکا اپوزیشن اور حکومت کے درمیان طے پایا ہے کہ دونوں اپنی اپنی حیثیتیں برقرار رکھتے ہوئے اس مک مکا پر عمل پیرا رہیں گی۔ دراصل دونوں پارٹیاں یہ سمجھتی ہیں کہ پاکستان میں پچھلے تیس چالیس سے دو طرح کا ووٹ بینک وجود میں آچکا ہے ایک بھٹو کی سوچ سے وابستہ ووٹ بینک اور دوسرا اس کا مخالف ووٹ بینک۔نواز شریف مخالف ووٹ بینک پر قبضہ جمائے رکھنا چاہتا ہے اور آصف زرداری بھٹو کے نام کو کیش کراتے رہنا چاہتے ہیں ۔میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس حوالے سے دونوں پارٹیاں غلط فہمی کا شکار ہیں ۔ عوام بہت باشعور ہوچکے ہیں وہ جان گئے ہیں کہ پیپلز پارٹی اب بھٹو کی نہیں زرداری کی پارٹی ہے اور مسلم لیگ وہ مسلم لیگ نہیں جو قائداعظم محمد علی جناح کی مسلم لیگ تھی یہ نون لیگ ہے یعنی نواز شریف لیگ ۔سو اس مرتبہ دونوں پارٹیوں کی عوام چھٹی کرانے کا منصوبہ بنا چکی ہے صرف ایک مسئلہ ہے کہ کچھ علاقوں ایسے قانون شکن لوگ امیدوار بن کر سامنے آجاتے ہیں جن کے سامنے غریب عوام مجبور ہوجاتی ہے سو کوشش یہ کی جارہی ہے کہ قانون شکن لوگ امیدوار نہ بن سکیں ۔اور اس باب میں ٹیکس نادھندگان کو ہی الیکشن سے باہر نکال لینا بہت بڑی بات ہوگی کیونکہ اس عمل سے موجودہ اسمبیلوں میں ستر فیصد لوگ آوٴٹ ہوجائیں گے۔