وزیراعظم سلامتی کونسل اجلاس میں کشمیر کا مضبوط مقدمہ پیش کریں گے

August 29, 2019

وزیراعظم عمران خان23 ستمبر کو نیو یارک روانہ ہوں گے رواں سال میں ان کا یہ دوسرا دورہ امریکہ ہوگا۔ گزشتہ ماہ وہ اپنے اولین سرکاری دورے پر واشنگٹن گئے تھے جہاں ان کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات ہوئی تھی اور اسی ملاقات کے تناظر میں مسئلہ کشمیر آج بین الاقوامی سطح پر مختلف حوالوں سے زیر بحث ہے اس ملاقات میں امریکی صدر نے مسئلہ کشمیر کو حل کرانے کیلئے اپنا کردار ادا کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی تھی لیکن یہ الگ بات ہے کہ اس کردار کی نوعیت کیا ہوگی یہ بات منظر عام پر نہیں آسکی ظاہر ہے۔ سردست منظر عام پر جو حقائق ہیں وہ یہ ہیں کہ بھارت کی جانب سے آرٹیکل370 کے خاتمے کے بعد مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے سے ایک انتہائی غیر معمولی اور اہم اقدام سے مقبوضہ وادی میں جو نہتے اور سراپا احتجاج کشمیریوں پر ظلم و ستم ہوا ہے اس پر پاکستان عالمی ضمیر کو جھنجوڑنے میں اپنی پوری سفارتی توانائیاں بروئے کار لا رہا ہے اور دوسری طرف مودی حکومت مقبوضہ کشمیر کو بین الاقوامی مدد سے خوشحال خطہ اراضی بنانے کیلئے کشمیریوں کو ترغیبات کے سنہری جال میں پھنسانے کیلئے مختلف حربوں میں مصروف ہے۔ ہر چند کہ پاکستان سفارتی سطح پر اس صورتحال میں خاصا کامیاب نظر بھی آتا ہے لیکن’’ بعض قابل اعتماد اور مسلم امہ کے اہم دوست ممالک نے‘‘ اپنے بعض فیصلوں یا پھر غیر جانبدارانہ طرز عمل سے پاکستان کو مایوس بھی بہت کیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان اپنے چار روزہ دورہ امریکہ میں27 ستمبر کو نیو یارک جائیں گے۔ جہاں وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرینگے ظاہر ہے کہ ان کے خطاب کا مرکزی موضوع مقبوضہ کشمیر کی صورتحال اور بھارتی حکومت کا کردار ہی ہوگا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزیراعظم کے اس اہم خطاب کے مسودے پر کام شروع ہوچکا ہے لیکن ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ وزیراعظم وہاں لکھی ہوئی تقریر کرینگے یا یہاں بھی فی البدیہہ خطاب کرینگے جسے وہ ترجیح دیتے ہیں جبکہ وزارت خارجہ کے حکام کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ خارجہ امور پر ہونیوالی تقریر انتہائی نپی تلی اور سفارتی تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہونی چاہئے کیونکہ ایسے موقعوں پر تقریر کے ہر جملے بلکہ لفظ کا پس منظر یا پیش منظر ہوتا ہے اور نقاد اور مخالفین اس کی اپنی مرضی سے توجہیات پیش کرتے ہیں۔ وزیراعظم کا خطاب تحریری ہو یا فی البدیہہ لیکن مقبوضہ کشمیر کی صورتحال اور پاک بھارت تعلقات جنہیں موجودہ کشیدگی اور تنائو کے نچلی سطح بھی قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ دونوں ملکوں کے سفیروں کو ان کی حکومتوں نے واپس بلا لیا ہے، عالمی سطح پر اس صورتحال کو دو جوہری طاقتوں کے تنازعے میں دیکھا جارہا ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ وزیراعظم عمران خان کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے یہ پہلا خطاب ہوگا۔ اس سے قبل ان کی جگہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے جنرل اسمبلی سے خطاب کیا تھا اور بھارت کی طرف سے ان کی ہم منصب سشما سوراج نے جواب اس دنیا میں نہیں۔ یقیناً اس مرتبہ بھارت کی جانب سے پاکستان کے ہم منصب کا ہی خطاب بنتا ہے۔ پھر وزیر اعظم کی اس موقع پر دنیا بھر سے آئے ہوئے عالمی رہنمائوں سربراہان مملکت کے علاوہ بین الاقوامی چنیدہ شخصیات سے بھی رابطے ہونگے جس کے امریکہ میں پاکستان کے سفیر اسد مجید خان اور اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل اور متحرک مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی دونوں پوری طرح فعال ہیں اور سائیڈ لائن ملاقاتوں کیلئے رابطوں میں مصروف ہیں جبکہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی وزیراعظم کی روانگی سے قبل امریکہ پہنچ جائیں گے اور تمام متعلقہ امور کا جائزہ لیں گے۔ امریکہ میں قیام کے دوران وزیراعظم نیو یارک میں پاکستانی کمیونٹی سے بھی خطاب کرینگے جو ایک اہم ایونٹ ہوگا اور اگر اسے گزشتہ ماہ وزیراعظم کے دورہ امریکہ میں واشنگٹن میں ہونیوالے ہزاروں کی تعداد میں پاکستانیوں کے اجتماع کے حوالے سے دیکھا جائے تو یقیناً یہ بھی ایک تاریخ ساز اجتماع ہوگا۔ مولانا فضل الرحمان نے اکتوبر میں اسلام آباد لاک ڈائون اور آزادی مارچ کا اعلان کیا ہے اس سے قبل وہ اسلا م آباد کا گھیرائو اور ڈی چوک میں دھرنے کی بات کرتے تھے تاہم مقاصد اب بھی ویسی ہیں محض اصطلاحتیں بدلی ہیں۔ ان کا کہنا ہے یا پھر ان کا گمان ہے کہ اکتوبر میں جب وہ حکومت کے خلاف آزادی مارچ کرینگے تو پورا ملک حکومت کے خاتمے کیلئے ان کے ساتھ اسلام آباد جانے کیلئے تیار ہوگا۔ تاہم اپنے اس دعوے کے ساتھ وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ اپوزیشن جماعتوں کے اشتراک عمل کیلئے وہ رابطوں میں مصروف ہیں اور اسلام آباد میں یکجا ہونے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اطلاعات ہیں انہی دنوں میں اسلام آباد میں آل پارٹیز کانفرنس یا مسلم لیگ(ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی کے الگ الگ اجلاس ہوسکتے ہیں۔ جن میں اکتوبر کے لاک ڈائون کی حکمت عملی وضع ہوسکتی ہے۔ بادی النظر میں ایسا ہی محسوس ہوتاہے کہ موجودہ صورتحال میں مولانا فضل الرحمان ہی حکومت بلکہ حکومت سے زیادہ وزیر اعظم عمران خان کی اپوزیشن کی شکل میں ایک ایسے لیڈر ہیں جو عملی طور پر ان میں ڈٹے ہوئے ہیں حالانکہ کم و بیش بڑی جماعتوں کے سب سربراہوں اور رہنمائوں جن میں تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والے میاں نواز شریف، سابق صدر مملکت، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی جو اس وقت یا تو جیل میں ہیں یا پھر اداروں کی تحویل میں ہیں جن میں مریم نواز بھی شامل ہیں۔ سیاسی حلقوں کا خیال تھا کہ مولانا فضل الرحمان کیا چیز ہیں وہ قومی اسمبلی کے رکن بھی نہیں ہیں جن کی گرفتاری سے قبل اسپیکر کو آگاہ کرنا ضروری ہوتا ہے۔ پھر حکومت کی جانب سے مولانا فضل الرحمان پر بھی الزامات اور کردار کشی کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ ان کے معتمد خاص اکرم درانی کے خلاف نیب میں معاملات کی خبریں بھی ہیں لیکن مولانا بدستور پوری استقامت کے ساتھ حکومت کے خلاف اپنے موقف پر قائم ہیں اور اب انہوں نے اکتوبر میں اسلام آباد’’ لاک ڈائون‘‘ اور آزادی مارچ کا اعلان کردیا ہے تاہم بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ مولانا حکومت کے ملین مارچ اور اسلام آباد لاک ڈائون کی دھمکیوں اور تاریخوں سے حکومت کو پیش رفت کا وقت دے رہے ہیں تاکہ ان سے بات چیت کی جائے۔