بزمِ بزم و نجم

September 08, 2019

’’آفندی ‘‘ تُرکی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی’’سردار‘‘ کے ہیں۔ مرزا جعفر علی فصیحؔ اُردو شاعری کا ایک معتبر اور مستند نام ہے۔ ہندوستان چھوڑ کر مکّہ مکرّمہ چلے اگئے اور پھر وہیں کے ہو رہے۔ اپنا گھر چھوڑ کر جانے والے فصیحؔ کو اللہ کے گھر سے کچھ ایسی قُربت ہوئی کہ خانۂ کعبہ کی زیارت کے لیے آنے والوں کے لیے ایک مکان تعمیر کر کے اُسے گویا زائرین کے لیے وقف کر دیا۔ سلطنتِ تُرکی نے مکّۂ معظّمہ میں انجام دی جانے والی خدمات سے خوش ہو کر اُنھیں’’آفندی‘‘ کے خطاب سے نوازا۔ زوجۂ رسولﷺ، اُمّ المومنین، حضرت خدیجہؓ اور نبی کریمﷺ کے چچا، حضرت ابوطالب کے روضے کی تزئین و آرائش میں بھی بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا۔ اُنہوں نے مکّے ہی میں وفات پائی۔ فصیحؔ لکھنؤ کے نام وَر اور مسلمّ الثبوت استاد، شیخ امام بخش ناسخؔ کے تلامذہ میں سے تھے۔ شبیہ الحسن نے’’ناسخ:تجزیہ و تقدیر‘‘ میں جہاں ناسخؔ کے شاگردوں کے نام تحریر کیے، وہاں مرزا جعفر علی(فصیحؔ)کے نام کے ساتھ(مرثیہ گو)کا اضافہ بھی کیا۔ اُن کا رنگِ سُخن کچھ یوں تھا؎’’ رُخِ حُسینؓ پہ پڑتی تھی جب نبیؐ کی نگاہ…ادب سے کہتے تھے اے مومنو رہو آگاہ…حُسینؓ مجھ سے ہے اور مَیں حُسین سے واللہ…مودّت اس کی ہے واجب ہر اِک پہ حق ہے گواہ۔‘‘ یہی مرزا جعفر علی فصیحؔ، بزم آفندی کے رشتے کے دادا اور نجم ؔ آفندی کے پَردادا تھے۔ بزم ؔ آفندی کے دادا، مرزا نجف علی بلیغؔ،جب کہ والد، مرزا ملیحؔ تھے۔ شعر و سُخن کا چرچا خاندان میں روزمرّہ اُمور کی طرح انجام دیے جانے والے کاموں میں سے ایک تھا۔ دادا، چچا، والد، سب شعر و سخن کے دِل دادہ۔

مرزا عاشق حسین بزم آفندی 1860ء میں آگرہ میں پیدا ہوئے۔ اکبر آباد، یوپی کے مشہور مقامات میں شمار کیا جاتا، اس حد تک مشہور کہ شعراء نے اُسے موضوعِ سُخن بھی قرار دیا۔ کوکب شاداب ایک مشہور شاعر تھے۔ اُنہوں نے اپنی نظم’’اکبر آباد سے قائد آباد تک‘‘ کے ایک بند میں یوں کلام کیا ہے؎’’ اکبر آباد کہ تھا اہلِ محبّت کا وطن…تادمِ مرگ نہ بھولے جسے اربابِ چمن…غالبؔ و میرؔ کا تادیر رہا جو مسکن…مدّتوں اس میں رہیں عشق کی شمعیں روشن…ہو گیا تھا مگر اب ظلمتِ پیہم کا شکار…نہ وہ پہلی سی فضا تھی، نہ وہ پہلی سی بہار۔‘‘ سو، اُسی غالب ؔ و میرؔ کا تادیر مسکن رہنے والے آگرہ کے ایک مذہبی و ادبی خاندان میں شعر و شاعری کا چرچا یوں ہوا کہ کئی نسلیں مذاقِ شعر و سُخن سے اچھی طرح واقف تھیں۔ بزمؔ کے دادا، مرزا نجف علی بلیغؔ اور والد مرزا ملیحؔ دلدادگانِ شعر و ادب تھے۔ یوں تو اصنافِ شعری کی بہت سی اقسام کو برتا، تاہم ملیحؔ کو مرثیہ دِل کے قریب محسوس ہوتا۔ سو، ایسے ادبی پس منظر کے ساتھ بزم ؔکی زندگی کو ادبی رزم گاہ میں یقینی طور پر ڈھل جانا تھا اور ایسا ہی ہوا۔ نوعُمری ہی سے مصرعے اور اشعار دِل کو بھانے لگے۔ ساتھ ہی کچھ کہنے کی سعی بھی شروع کر دی۔ باپ نے یہ شوق دیکھا، تو مُنیر شکوہ آبادی کے حوالے کر دیا۔ سیّد اسماعیل حسین منیرؔ شکوہ آبادی ایک نام وَر شاعر ہونے کے علاوہ، بزمؔ آفندی کے ماموں بھی تھے۔’’تذکرۃ الشعراء‘‘ میں حسرتؔ موہانی نے مُنیر شکوہ آبادی کے بارے میں تحریر کیا ہے’’غرض کہ جن جن باتوں پر استادی کا دارو مدار ہوتا ہے، وہ سب منشی منیرؔ میں بدرجۂ کمال موجود تھیں۔ لیاقتِ شاعری کا اندازہ قصائد و قطعات سے زیادہ تر ہوتا ہے اور اس میں منشی منیرؔ کے مقابلے میں بہت کم شاعر نظر آئیں گے۔‘‘منیرؔ کا رنگِ سُخن کچھ یوں تھا؎’’ اکثر وہ دیکھتے ہیں تماشائے بے خودی…اپنا مزاج پوچھیں گے اُن کی نظر سے ہم۔‘‘؎’’راہ و رسمِ خانۂ زنجیر کس سے پوچھتے…کوئی اگلے وقت کا دیوانہ زنداں میں نہ تھا۔‘‘بہر حال، ایسے پس منظر میں بزمؔ کی تربیت کا آغاز ہوا۔ اوّل اوّل والد کی سرپرستی اور تربیت تھی،مگر بزمؔ محض نو یا دس برس ہی کی عُمر کو پہنچے ہوں گے کہ باپ نے انتقال کیا اور بزمؔ چچا کی تربیت میں چلے آئے۔ شعر و سُخن سے یک گونہ نسبت تو تھی ہی، اندازِ تحریر یا خط بھی اس حد تک عُمدہ تھا کہ خطّاطی کا گمان ہوتا۔ چچا،میرزا علی حسین قیصرؔ بھی شعر و سُخن سے پوری طرح آشنا اور مسلّم الثبوت استاد، خواجہ حیدر علی آتشؔ کے شاگرد تھے۔ خُسر، آغا حسین آغاؔ بھی صاحبِ دیوان شاعر تھے۔ اُن کا رنگِ سُخن کچھ یوں تھا؎’’ کیوں دِل جَلوں کے لب پہ ہمیشہ فغاں نہ ہو…ممکن نہیں کہ آگ لگے اور دھواں نہ ہو…تشنہ کامانِ شہادت کو تُو کر دے سیراب…اتنا پانی بھی تِرے خنجرِ بُرّاں میں نہیں۔‘‘عُمدہ تربیت اور ذہانت کے باعث بزمؔ جلد ہی شاعری کے اسرار و رُموز اور عروض سے پوری طرح واقف ہو چلے۔ اساتذۂ فن کا زمانہ تھا اور ایک سے بڑھ کر ایک سُخن وَر موجود تھا، تاہم جلد ہی بزمِ شعر و سُخن میں بزمؔ کے چرچے ہونے لگے۔ پھر تو معاملہ یوں ہو چلا؎’’عندلیبوں کی زباں لال ہوئی ہے اے بزم…بولتا خُوب ہے طوطی تِری گویائی کا۔‘‘ دہلی میں خواجہ نظام الدّین اولیاءؒ کے مزار پر’’واقعۂ معراج‘‘ پر محافل کا سلسلہ جاری تھا، جس کے روحِ رواں، خواجہ حسن نظامی تھے۔ برّصغیر سے چُنیدہ ادیب، شاعر اور خطیب زینتِ محفل بنے۔ بزمؔ نہ صرف مدعو تھے، بلکہ خواجہ حسن نظامی کی فرمائش پر ایک مسدّس بھی لکھ کر لائے۔ یہ مسدّس’’مولودِ معراج‘‘شاید اُردو شاعری کی اُس معراج پر تھا کہ میرِ محفل، خواجہ حسن نظامی نے اُنہیں’’ معراج الشعراء‘‘ قرار دے دیا۔ اسی مسدّس کے ایک بند میں بزمؔ نے اپنے آبا و اجداد کا تعارف اور تعریف کچھ یوں بیان کی؎’’ ہے تخلّص سے یہ ظاہر کہ مرے جد ہیں فصیحؔ…کیوں سُخن میں نہ مزا ہووے کہ بابا ہیں ملیحؔ…کیوں نہ روشن ہو مرا نام کہ عمّو ہیں صبیحؔ…موجدِ بیتِ سُخن میرے برادر ہیں ذبیحؔ…اس گھرانے سے ہے ایجاد ثنا خوانی کا…اب مگر خاتمہ ہے مجھ پہ سُخن دانی کا۔‘‘بیت میں بزمؔ نے تعلّی سے کام لیا، مگر سُخن دانی نے بزمؔ سے آگے بھی سفر جاری رکھا اور اُن کے بیٹے نجمؔ اور اُس کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔

بزمؔ نے بہت چھوٹی عُمر میں شعر کہنا شروع کردیے، دادا مرزا نجف علی بلیغؔ اور والد مرزا ملیح ؔ بھی دلدادگانِ شعر و ادب تھے، تو بیٹے، نجمؔ آفندی نے بھی شعر و سُخن کی دنیا میں اپنی سُخن وَری کا کمال دِکھایا اور وہ بھی اِس طرح کہ ’’نوحہ‘‘ ایک باقاعدہ صنف کی شکل اختیار کر گیا

بزمؔ آفندی نے لگ بھگ تین سو مرثیے کہے۔ غزلوں کے دیوان پانچ رہے۔ اُن کی غزلوں کا اوّل دیوان’’چراغِ بزمؔ‘‘ تھا، جو1901 ء میں ترتیب پایا۔ اُس کے بعد، 1926 ء میں’’ ایاغِ بزم‘‘ کی اشاعت ہوئی۔1910 ء میں بھوپال میں’’ یادگارِ غالبؔ مشاعرہ‘‘ منعقد ہوا، جس میں غالبؔ کے مشہور مصرعے’’جو تِری بزم سے نکلا، سو پریشاں نکلا‘‘کو’’ مصرعۂ طرح‘‘ قرار دیا گیا۔ ذکیؔتال گانوی نے اپنی کتاب’’چند یادگار مشاعرے‘‘میں اس مشاعرے کا ذکر کرتے ہوئے جن مشہور شعراء کے بے انتہا پسند کیے جانے والے اشعار کا ذکر کیا ہے، اُس میں بزمؔ آفندی (بزمؔ اکبر آبادی)کا یہ شعر بھی شامل ہے؎ ’’ اشک آنکھوں سے، جگر سینے سے،نالے منہ سے…یہ تو سب ہجر میں نکلے، پہ نہ ارماں نکلا۔‘‘’’بزمِ سُخن‘‘ اور ’’تصویرِ سُخن (مثنوی)‘‘ اُن کی بعد میں منظرِ عام پر آنے والی تخلیقات تھیں۔ اُردو شاعری، اقبالؔ کی فکر اور اُسلوب دونوں سے متاثّر رہی۔ اقبالؔ کی نَوا صرف’’ نوائے امروز‘‘ ہی نہ رہی، بلکہ گزرتے وقت کے ساتھ’’ نوائے فردا‘‘ میں ڈھل گئی۔ اقبالؔ کی مشہورِ زمانہ’’شکوہ‘‘ اور’’جوابِ شکوہ‘‘ کے سلسلے میں جن شعراء نے اپنی فکر کے دیپ جلائے، اُن میں بزمؔ آفندی بھی شامل تھے۔ اُنہوں نے’’شکایت‘‘ کے عنوان سے پچیس بند پر مشتمل نظم پیش کی۔ اس نظم کا صرف وہ بند تحریر کیا جا رہا ہے کہ جس میں بزمؔ نے لفظ ’’شکایت‘‘ کا استعمال کیا ہے؎ ’’ اپنے خالق سے شکایت کا ہمیں کیا حق تھا…ہم تو بندے ہیں، جو حکم اُس کا ہو، وہ لائیں بجا…ڈالا آلام و مصیبت میں کہ اچھا رکھا…مصلحت اُس کی، جو کچھ اُس نے کیا، خُوب کیا…وہ رضا مند رہے، بس یہی اِک مطلب ہے…دخل دیں اُس کی خدائی میں یہ منصب کب ہے۔‘‘

بزمؔ آفندی نے بھرپور زندگی بسر کی۔ دکن اور رام پور کے درباروں سے خُوب وابستگی رہی۔ رام پور کے دربار اور وہاں کی نوازشات کو تو اُنہوں نے اپنے دیوان بہ موسوم’’ایاغِ بزم‘‘میں کہی گئی ایک غزل کے مقطع میں بھی ذکر کیا ہے؎ ’’ آتی ہیں یاد کلبِ علی خاں کی شفقتیں…اے بزمؔ کیا زمانہ تھا وہ رام پور کا۔‘‘ اُنہوں نے دو شادیاں کیں۔ پہلی بیوی، ہرمزی سے چار بیٹے تھے۔ مرزا اعجاز حسین، جو ریاست گوالیار میں سب انسپکٹر تھے، نوجوانی ہی میں چل بسے۔گوہر سلطان بھی زیادہ نہ جی سکے اور دورِ شباب ہی میں انتقال کر گئے۔ نجمؔ آفندی اور مرزا سلیمان کوکبؔ آفندی نے باپ کی علم و آگہی کی جلائی ہوئی مشعل اپنے ہاتھ میں لے لی اور وہ بھی یوں کہ مشعل کی روشنی کبھی ماند نہ پڑنے پائی۔ بزمؔ آفندی نے دوسری شادی ایک انگریز خاتون سے کی، جن سے ایک بیٹی، پروین ؔ کجکلاہ تھیں۔ وہ بھی اچھی شاعرہ تھیں۔ بزمؔ نے تخلیق سے معیار اور مقدار دونوں صُورتوں میں رشتہ برقرار رکھا۔ کبھی شعر گوئی، تو کبھی کسی محفل کے لیے کلام کہنا۔ کبھی کسی مجلس میں شرکت کر کے کلام سُنانا، تو کبھی کسی’’ مقاصدے‘‘ میں شرکت کرنا۔ کبھی تو یوں بھی ہوتا کہ بزمؔ ساری ساری رات محفل میں موجود ہوتے اور تااختتامِ محفل پورے جوش و خروش کے ساتھ اپنا کلام سُناتے نظر آتے۔ بزمؔ آفندی کے مرثیوں کا مجموعہ’’بزمِ رِثا‘‘ کے عنوان سے موجود ہے، جسے باقرؔ زیدی نے مرتّب کیا، جو اسی خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں۔بزمؔ آفندی کا انتقال 23 مارچ 1953 ء کو ہوا۔اُن ہی بزم ؔ کے بیٹے، نجمؔ نے شعر و سُخن کی دنیا میں اپنی سُخن وَری کا کمال دِکھایا اور وہ بھی اِس طرح کہ ’’نوحہ‘‘ ایک باقاعدہ صنف کی شکل اختیار کر گیا۔

1893 ء میں آگرہ میں جنم لینے والے، نجمؔ کا نام، تجمّل حسین تھا۔ بچپن وہیں بسر ہوا۔’’مفیدِ عام‘‘ اسکول سے تعلیم حاصل کی۔ اُردو اور فارسی کی تعلیم کے لیے گھر پر بھی اساتذہ آتے رہے۔اُس زمانے میں انگریز حکومت کے خلاف غم و غصّہ ہر سطح پر محسوس کیا جا رہا تھا، لہٰذا اُسی جذبے کے زیرِ اثر نجمؔ نے بھی اسکول میں ایک انجمن بنائی، تاہم تھوڑے ہی عرصے میں چند طلبہ کی طرف سے مزاحمت کے بعد یہ انجمن بند کر دی گئی۔ تاہم، نجمؔ کا انگریز اقتدار کے خلاف غصّہ کم نہ ہوا۔ اردگرد کی پوری فضا عالمانہ، ادیبانہ اور شاعرانہ تھی۔ خود اُن کے گھر میں بھی پُشت ہا پُشت سے ادب و شعر کے چرچے تھے، لہٰذا نجمؔ کے لیے ساری فضا بے حد پُرکشش تھی۔ طبیعت کم سنی ہی میں رواں ہو چلی۔1913ء میں محکمۂ ریلوے سے وابستہ ہو گئے۔1920 ء کے آس پاس فیض آباد میں ایک ’’محفلِ مقاصدہ‘‘ منعقد ہوئی۔ ہندوستان کے نام وَر شعراء، صفیؔ لکھنوی اور عزیز لکھنوی جیسے اساتذہِ سُخن محفل میں موجود تھے۔ نجم ؔ آفندی کا یہ اوّلین قصیدہ بھی تھا۔ مطلع پڑھا؎ ’’نمودِ عالمِ ہُو تھی فضائے تیرہ و تار…نہاں تھے کتمِ عدم میں چراغ و شمع و شرار…سنور رہی تھی یہاں جب کہ عُنصری دنیا…میں اپنی نُور کی دنیا سے دیکھتا تھا بہار۔‘‘ صفیؔ لکھنوی سے رہا نہ گیا اور دیر تک داد دی۔ نوجوانی ہی کا زمانہ تھا، مگر سُخن وَری کا اعجاز ایسا تھا کہ نواب سراج الدّین خاں سائل دہلویؔ نے ایک ایسے مشاعرے کی صدارت پر بٹھایا کہ جس میں سِن رسیدہ اساتذۂ شعر و سُخن موجود تھے۔1925 ء میں نجمؔ دکن آ گئے۔تخلیق کا ایک سلسلہ تھا، جو ختم ہونے ہی میں نہ آتا تھا۔1928-29 ء میں صبا ؔ اکبر آبادی نے آگرہ سے’’آزاد‘‘ کا اجراء کیا۔ اُس کے مارچ کے شمارے میں’’ایڈیٹر‘‘ نے ’’ضروری باتیں‘‘ کے عنوان سے جو اہم باتیں بیان کی ہیں، اُن میں سے ایک یہ بھی ہے’’اس نمبر میں حضرت نجمؔ کا ایک زبردست افسانہ شائع ہو رہا ہے، جو صاحبِ موصوف نے خاص’’ آزاد‘‘ کے لیے لکھا ہے اور ادبی اعتبار سے بے مثل ہے۔‘‘مذکورہ پرچے میں’’ایک شاعر کا وصیّت نامہ‘‘ کے عنوان سے نجمؔ آفندی کا عُمدہ افسانہ شائع ہوا۔1930 ء کے عشرے سے نجمؔ آفندی نے افکارِ مُرتضوی اور کردارِ حُسینی اُجاگر کرنے والے نوحے تحریر کرنا شروع کیے، ورنہ اس سے پیش تر نوحے بُکا و بین کے بیان پر مبنی ہوا کرتے تھے۔ نجمؔ کی نوحوں کے سلسلے میں کی جانے والی جدّت کو جلد ہی پورے ہندوستان میں قبولیت حاصل ہو گئی۔ اُنہوں نے نوحوں کے سلسلے میں ایک التزام یہ بھی برتا کہ اُن کے عنوان مقرّر کیے۔ تقسیم سے قبل الٰہ آباد میں اُن کے بہت سے نوحے بے حد مشہور تھے۔نجمؔ آفندی کو ہندی زبان پر بھی عبور حاصل تھا، تو ہندی میں بھی سلام اور نوحے تحریر کیے۔ اُن کے مذکورہ قسم کے کلام میں سے ایک’’ کربل نگری‘‘ کو اس قدر مقبولیت حاصل ہوئی کہ اُس کی پیروی میں بہت سے ہندو شعراء نے بھی کلام کہا۔ جب کہ ہندو شاعرہ، روپ کماری نے بالکل اُسی طرز پر ایک مرثیہ بھی تحریر کیا۔ نجمؔ کا ایک اور نوحہ’’زینب دُکھیا رو رو بن ما اُمّت کا یہ سناوت ہے‘‘ ہندوؤں میں بہت مقبول تھا۔ ایک اور نوحے کے بول تھے’’کربل میں پیاسے سیّد پر جب تیروں کی بوچھار بھئی۔‘‘ تحصیل فتح پور، ضلع بارہ بنکی، یوپی میں ہندو، شیعہ، سُنّی جس نوحے کو بہت عقیدت سے سُنتے اُس کے بول کچھ یوں تھے؎ ’’ اندھیارا پاپ کے بادل کا سنسار پہ جب چھا جاتا ہے…اِک چاند سروپی سورج روپی مکھڑا درس دِکھاتا ہے…جب مایا جگ کو کھاتی ہے، جب ایسی بپتا آتی ہے…جب مالک آنکھ بدلتے ہیں اِک بندہ آڑے آتا ہے۔‘‘ایک اور نوحہ لشکرِ حُسینؓ کے جانباز سپاہیوں کے شوقِ شہادت کی عُمدہ عکّاسی ہے۔ساتھ ہی امام حُسینؓ کے نوجوان بیٹے، علی اکبر کا ذکر کہ جو فخرِ کائنات، حضرت محمّد مصطفیٰﷺ کی چلتی پِھرتی تصویر ہیں۔ ماں کو یقین ہے کہ اگلی صُبح بیٹے کو جامِ شہادت نوش کرنا ہے۔ اب کیفیت یہ ہے کہ وہ اپنے جگر گوشے کو تا اختتامِ شب دیکھنا چاہتی ہے اور یہ بھی تمنّا ہے کہ اس شب کا سِرا صُبحِ قیامت سے جا ملے؎

’’چاند کملایا ہوا نکلا شبِ عاشور کو …کس قدر غم کا اندھیرا تھا شبِ عاشور کو…اللہ اللہ چاہتے ہیں تجھ کو انصارحُسینؓ…زندگی نے موت سے پوچھا شبِ عاشور کو…سرفروشانِ وفا کی تھیں نگاہیں دیدنی…اُٹھ گیا تھا کون سا پردا شبِ عاشور کو…ایسے بے پروا کہ جیسے سر ہی شانوں پہ نہیں…جنگ پر جب فیصلہ ٹھہرا شبِ عاشور کو…شمع لے کر رُوئے اکبر دیکھنے بیٹھی تھی ماں…صُبحِ محشر تک ٹھہرنا تھا شبِ عاشور کو۔‘‘اُنہوں نے ایک نوحے کا عنوان ’’پروردگارِ غم‘‘ رکھا۔ اس نوحے کا مطلع یوں ہے ؎’’شہیدِ ظلمِ غریب الدّیار کیا کہنا…حُسین درد کے پروردگار کیا کہنا۔‘‘اسی طرح اُن کی نظم’’نہرِ علقمہ‘‘ کربلا کی پوری داستان سُناتی ہے۔

عصرِ حاضر میں نسائی لہجے کی سب سے بڑی شاعرہ، پروین شاکر نے رسالہ’’النجم‘‘ میں اپنے مضمون’’نجمؔ آفندی کے نوحوں کا تجزیہ‘‘ میں تحریر کیا’’نہرِ علقمہ اپنے لہجے کی گمبھیرتا، زبان کی سادگی اور موضوع کی سنجیدگی کے لحاظ سے اُردو کی چند ممتاز ترین نظموں میں شمار کی جا سکتی ہے۔ تخاطب میں جس طرح نہر کی تجسیم کی گئی ہے، اُس سے نہرِ علقمہ محض ایک ندی نہیں رہتی، بلکہ ایک کردار بن کر سامنے آتی ہے۔‘‘ عبدالرؤف عروجؔ کی کتاب’’اُردو مرثیے کے پانچ سو سال‘‘ اپنے متن کے اعتبار سے بہت اہمیت کی حامل ہے۔ اس میں بھی نجمؔ آفندی کے کئی سلام اور نوحے شامل کیے گئے ہیں۔ڈاکٹر انور سدید نے ’’اُردو ادب کی مختصر تاریخ‘‘ میں نجم آفندی کے بارے میں تحریر کیا ہے’’اُنہوں نے مرثیے میں عہدِ جدید کی بعض سائنسی فتوحات کا عکس اُتارنے کی سعی بھی کی ہے۔‘‘مفتی انتظام اللہ الشہابی عربی و فارسی کے عالم ہونے کے علاوہ ،ادب و شعر سے گہرا شغف رکھتے تھے۔ ایک کثیر التصانیف مصنّف کی حیثیت میں اُنہوں نے ادب کے بہت سے معاملات پر عالمانہ انداز میں اظہار کیا ہے۔ ماہ نامہ’’شاعر‘‘آگرہ کے جون، جولائی1936 ء کے مشترکہ شمارے میں وہ بزمؔ اور نجمؔ کے بارے میں یوں اظہارِ خیال کرتے ہیں’’ایک گھر میں دو شاعر۔ باپ بھی اور بیٹا بھی۔ بیٹا جدید تغزّل میں باپ کے رنگ سے جدا ایک رنگ اختیار کر لیتا ہے اور کام یاب ہو جاتا ہے، مگر باپ اپنے رنگ کو بگڑنے نہیں دیتا۔ مرزا بزمؔ اور مرزا نجمؔ کے کلام میں جو چیز مابہ الامتیاز ہے، وہ یہی ہے۔ مرزا بزمؔ ابتدائی نجمؔ صاحب کی تربیت خود کرتے ہیں، مگر اس رنگ میں کہ اُن کا اسلوبِ شاعری بدستور رہتا ہے اور نجمؔ صاحب نئے میدانِ سخن میں اُتر آتے ہیں۔ کیا یہ کمالِ تربیت نہیں ہے؟اس وقت آگرہ میں سب سے بزرگ اور مُعمّر شاعر، مرزا بزمؔ اکبر آبادی ہیں، جن کے دَم سے آج فصیحؔ و بلیغؔ مرحوم کا نام زندہ ہے۔ وضع داری، انکسار و اخلاق میں بھی آپ اپنے اسلاف کی بہترین یادگار ہیں۔ آج کل حیدرآباد میں مقیم ہیں۔ جہاں اُن کے فرزندِ رشید، حضرت نجمؔ اکبر آبادی شہہ زادہ، معظّم جاہ کے درباری شاعر ہیں۔ تاریخ میں غالباً یہ پہلا موقع ہے کہ اکبر آباد کا ایک نغزگو شاعر حیدرآباد کی مجلسِ سخن میں شریک ہے۔ مرزا نجمؔ کی اس ترقّی پر معراج الشعراء، حضرت بزمؔ اکبر آبادی کو جس قدر مسرّت ہو، کم ہے۔‘‘ نجمؔ کی تین درجن سے زیادہ تصانیف میں غالب حصّہ مذہبی نوعیت کا ہے۔اُنہوں نے1932 ء میں’’مشورہ‘‘کے نام سے ایک رسالہ بھی جاری کیا۔

نجمؔ آفندی کا انتقال 21 دسمبر 1975 ء کو ہوا۔ ڈاکٹر ذاکر حُسین فاروقی، جنھیں ’’دبستانِ دبیرؔ‘‘ پر بمبئی یونی ورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی سند ملی، اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں’’شاعرِ اہلِ بیت، مرزا تجمّل حُسین نجمؔ آفندی دورِ حاضر کے وہ ممتاز مدّاحِ اہلِ بیت ہیں، جن کانام فنِ مدّاحی کی تاریخ میں ہمیشہ آبِ زر سے لکھا جائے گا۔‘‘ نجمؔ آفندی کے چھوٹے بھائی، سلیمان مرزا کوکبؔ آفندی بھی کُہنہ مشق شاعر تھے۔ مختلف اصناف میں سُخن وَری کے جوہر دِکھائے۔ یوں نجم ؔ آفندی کا خانوادہ کئی پُشتوں سے مدّاحیِ اہلِ بیت کی سعادت سمیٹنے میں مصروف ہے۔ نجمؔ آفندی کا یہ پیغام ہمیشہ یاد رہے گا’’ دنیا یہ نہ ہو گی، مگر اسلام رہے گا…شبّیرؓ بہرحال تِرا نام رہے گا۔‘‘