تاریخی شہر’’ڈگری‘‘ ملاح خاتون’’ مائی ڈگھی‘‘ کے نام سے منسوب ہے

September 10, 2019

ڈگری سب ڈویژن، ڈگری ضلع میرپورخاص کا دوسرا بڑا شہر اور سب ڈویژنل ہیڈ کوارٹر ہے، جس میں تعلقہ ڈگری اور تعلقہ کوٹ غلام محمد بھرگڑی شامل ہیں-یہ شہریہاں کی رہائشی ایک غریب اور بہادر خاتون’’ مائی ڈگھی مير بحر‘‘ کے نام پر ہے-مذکورہ خاتون اپنی طویل القامتی کی وجہ سے مائی ڈگھی کے نام سے مشہورہوئی ۔ مائی ڈگھی اس زمانے میں سندھ کےحکمران سرفراز کلہوڑو کے نام پر بنائے گئے سرفراز واہ کے گھاٹ پر مسافروں کو کشتی میں سوار کرکے ایک کنارے سے دوسرے کنارے پہچانے کا فریضہ انجام دیتی تھی-ایک روایت کے مطابق 1780ء کی دہائی میں ڈگری نام کے شہر یا قصبے کا کوئی وجود نہیں تھا، بلکہ یہ چند مچھیروں کے گھروں پر مشتمل ایک چھوٹی سی بستی تھی جس کے آس پاس کچھ کاشتکار رہائش پذیر تھے،جن کی روزی کا دارومدارباران رحمت پر تھا۔ اس بستی کے شمال میں سرفراز واہ کے دوسرے کنارے سے چند کلومیٹرکے فاصلے پر ایک قصبہ آباد تھا،جس کے بازار پر اس علاقے کی تجارتی و معاشی سرگرمیوں کاانحصار تھا-یہ بازار سونے کی تجارت کی وجہ سے معروف تھا اس وجہ سے قصبے کا نام "سنہری " پڑ گیا،جو آج بھی اسی نام سے جانا جاتا ہے-

اس زمانے میں جنوبی سندھ میں میر خان نامی ایک ڈاکو نے دہشت پھیلائی ہوئی تھی- ایک دن اس نے سنہری شہرکے سونے کے بازار کو لوٹ کر تاجروں کو قلاش کردیا- بعد ازاں یہ تاجر جنوبی افریقہ منتقل ہوگئےکیوں کہ وہاں برطانوی حکومت نے سونے کی تلاش شروع کی ہوئی تھی اور وہاں سونے کی کانیں دریافت ہوئی تھیں- ڈاکو میر محمد خان کے حملے کے بعد سنہری پر زوال آگیا اور اس کی تجارتی حیثیت ختم ہوتی چلی گئی- آج سونے کی خرید و فروخت کے بازار کا نام و نشان مٹ چکا ہے لیکن سنہری ایک گائوں کی صورت میں موجود ہے۔ اسی زمانے میں جب مائی ڈگھی اپنی کشتی میں مسافروں کو سرفراز واہ عبور کراکے دونوں کناروں کے گھاٹ پر پہنچاتی تھی، اسی دوران ایک دن سرفراز واہ کے شمالی کنارے پر سادہ لباس میں ملبوس، ایک نوجوان، ہاتھ میں کتابیں اٹھائے اس کے پاس آیا اور کہنے لگا، ’ میں سیّد زادہ ہوں، نہر کے دوسرے کنارے جانا چاہتا ہوں مگر میرے پاس تمہیں معاوضہ دینے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔ اگر تم مجھے واہ پار کرادو تومیں تمہارا ہمیشہ احسان مند رہوں گا"۔ مائی ڈِگھی کو اس نوجوان کی شخصیّت نے بہت متاثر کیا اور وہ اسے اپنی کشتی میں بٹھا کر دوسرے کنارے پرلے آئی- نوجوان نےگھاٹ پر اترنے کے بعد اس نیک دل خاتون کا شکریہ ادا کرنے کے بعداسے اپنا نام "محمد شاہ جیلانی" بتایا- یہ نوجوان بعد میں ایک روحانی بزرگ کے طور پرعلاقے کے عوام میں مقبول ہوا اور آج ڈَگری کے میر محل سے پہلے نظر آنے والا مزار اللہ کی اسی برگزیدہ ہستی سید محمد شاھ جیلانی کاہے-اسی مائی ڈِگھی نے بہادری اور دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈاکوؤں کے ایک گروہ کا خاتمہ کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔

1890 عیسوی میں خانانی خاندان کے تالپور یہاں آبادہوئے- اسی دوران انگریزوں نے جنوبی اور وسطی سندھ کے علاقوں کی غیر آباد زمینوں کو آباد کرنے کے لئے مشرقی پنجاب کے کاشتکاروں کویہاںبسانے کا منصوبہ بنایا۔اس دور میں انگریز سکھر بیراج کی تعمیر کامنصوبہ بنارہے تھے -سکھر بیراج کی تعمیر 1923 میں شروع ہوئی اور 1932 میں پایہ تکمیل کو پپہنچی۔ مشرقی پنجاب کے کاشت کاروں کی آبادکاری 1901 سے 1910 کے دوران ھوئی، ان آبادگاروں کو ڈگری کے گردو نواح میں بھی بسایا گیا۔ ان میں آرائیں ، جاٹ اور سکھوں کی اکثریت تھی، یہاں انہوں نے بڑے بڑے گاؤں بسائے۔ جن کی مثال دیھ نمبر 170 اور دیھ نمبر 190ه ہیں-ان دیہات کا شمار آج بھی سندھ کے بڑےدیہی علاقوں میں ہوتا ہے-پنجاب سے لائے گئے آبادگاروں کا شمار پیشہ ور کاشتکاروں میں ہوتا تھا۔ نہری نظام قائم ہونے کے بعد ان لوگوں نے سندھ کی زراعت کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا-پاکستان بننے کے بعد سکھ آبادگاردوبارہ مشرقی پنجاب چلےگئے-

انگریز سرکار کے دور میں ڈگری کا علاقہ تحصیل دیر محبت خان ضلع حیدرآباد میں شامل تھا۔ 1903 میں اسے حیدرآباد سے علیحدہ کرنے کے بعد تحصیل کا درجہ دے کر تھر پارکر ضلع میں شامل کیاگیا- سرکاری گزٹ کے مطابق اُس وقت ڈگری کی آبادی صرف 1100 افراد پر مشتمل تھی۔ اس وقت یہ شہر وسیع عریض رقبے پر پھیلا ہوا ہے اور 2017کی مردم شماری کے غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت تعلقہ ڈگری کی آبادی دو لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ قدیم دریائے "پران" ڈگری سب ڈویژن کےدرمیان سے گزرتا ہوا بحیرہ عرب میں گرتاہے- سلطان محمود غزنوی 1026ء میں سومنات فتح کرنے کے بعد اسی دریا کے کنارے سفر کرتے ہوئےواپس غزنی گئے تھے-اس کے قریب ٹنڈو جان محمدواقع ہے جس سے ایک میل کے فاصلے پر آمری کاتاریخی قبرستان ہے۔ اس قبرستان میں سلطان محمود غز نوی کے سپاہی مدفون ہیں جویہاں سے گزرتے ہوئے فوت ہوگئے تھے۔ - جھڈو سے کنری کے راستے پر چار ہزار سال قدیم بودھ اسٹوپا کے آثار آج بھی دیکھے جاسکتےہیں، جنہیں مقامی افراد ’’ڈیری ‘‘کہتےہیں- بالا کوٹ کے سید احمد شہید دہلوی اور سید اسماعیل شہید بھی سکھوں سے جہاد کرنے کے لیے اسی راستے سےگزر کر گئے تھے-

انگریزوں نے اپنے دور حکومت میں اس علاقے کو ترقی دینے کے لیئے میرپورخاص سے کھوکھرا پار ، موناباؤ کی طرف چھوٹی (میٹر گیج) ریلوے لائن بچھائی۔ جس سے لوپنگ کرتے ہوئے 1909میں جھڈو تک کا حصہ مکمل کرکے اسے علاقے کو ریلوے کے نظام سے ملا دیا- اس زمانے میں ذرائع آمدورفت محدود ہونے کی وجہ سے اس علاقے کی ترقی میں ریلوے نے کلیدی کردار ادا کیا-متبادل سفری ذرائع کے فروغ اور محکمہ ریلوے کی نااہلی کے باعث مصروف ترین ریلوے لائن آہستہ آہستہ تنزلی کا شکارہوتی گئی اور آج سے دس سال قبل مکمل طور پر بندکردی گئی۔

جب انگریزوں کے خلاف حروں نے آزادی کی جدوجہد شروع کی تو ڈگری سے چار میل کے فاصلے پر واقع حروں کے سب سے بڑے گاؤں، فقیر غلام علی لغاری اور اردگرد رہنے والے پیر صاحب پگارو کے مریدوں نے بھی اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ انگریز سرکار نے آزادی کی جدوجہد کو حروں کی بغاوت کا نام دے کر سندھ میں مارشل لا نافذ کرکے ’’حرایکٹ‘‘ کے تحت جب حروں کی گرفتاریوں اور سزاؤں کا سلسلہ شروع کیا تو ڈگری میں رہنے والے حر مجاہدین بھی برٹش سرکار کے مظالم کا نشانہ بنے۔ اسی سب ڈویژن کے علاقے ڈینگان سے تعلق رکھنے والےبیرسٹر، غلام محمد بھرگڑی نے بھی مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے تحریک آزادی میں بھرپورحصہ لیا-

اس شہر میں تحریک پاکستان میں نمایاں کردار ادا کرنے والی کئی نام ور شخصیات نے جنم لیا۔ انہی میں سے پہلا نام بیرسٹر غلام محمد بھرگڑی، کا ہے جو بیرسٹر جان محمد جونیجو کے بعد سندھ کے خطے سے تعلق رکھنے والے دوسرے قانون دان تھے، جنہوں نے لندن سے بار ایٹ لا کی ڈگری حاصل کی تھی۔ ـغلام محمد بھرگڑی کا شمار قائداعظم محمد علی جناح کے بااعتماد رفقاء میں ہوتا تھا۔انہوں نے سندھ کے عوام کو روزگار کی فراہمی کے لیے یہاں پہلا کپاس کا کارخانہ لگایا ،ان کی گراں قدر قومی خدمات کے صِلے میں’’ جیمس آباد‘‘ شہر کا نام تبدیل کرکےان کے نام پر ’’ کوٹ غلام محمد بھرگڑی ‘‘رکھا گیا -اس شہر سے تعلق رکھنے والے فاروق مصطفی مرحوم بھی تحریک آزادی کے سرگرم کارکن تھے۔۔ انہوں نے مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے تحریک آزادی میں خدمات انجام دیں-بھارت کے سابق وزیر خارجہ سردار سورن سنگھ کا تعلق بھی اسی شہر کی دیھ نمبر202سے تھا-

اس شہرسے قیام پاکستان کی جدوجہد کرنے والے اکابرین میںاحمد خان کھوسہ ، نمبردار افضل آرائیں ، میر اللہ بچایو تالپور ، میر حاجی غلام حیدر کے نام شامل ہیں۔ میر اللّہ بچایو تالپور کچھ عرصہ خاکسار تحریک کے قائم مقام مرکزی امیر بھی رہے- وہ رکن سندھ اسمبلی منختب ہونے کے علاوہ جنرل ضیا ء الحق میں بننے والی مجلس شوریٰ کےممبر بھی رہے۔- سندھ سے تعلق رکھنے والی وہ واحدشخصیت تھے جنہوں نے برطانیہ سےزرعی سائنس میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ 1964 کے اوائل میں ڈگری کے عوام کو بجلی کی سہولت حاصل ہوئیجب کہیہی سال ڈگری کی تاریخ کا ترین سال رہا جب ڈگری میں آنے والے طوفان کی وجہ سےڈھائی درجن سے زیادہ لوگ لقمہ اجل بنے، ہزاروں مویشی سیلابی ریلے میں بہہ گئے، کچے مکانات مٹی کا ڈھیربن گئے جب کہ کروڑوں روپے مالیت کی فصلیں تباہ ہوئیں ۔ ـ

ڈگری کی معیشت کی بنیاد زراعت پر ہے۔ یہاں گنا ، مرچ اور کپاس جیسی نقد آور فصلیں کاشتہوتی ہیں۔ گندم ،سرسوں ، کیلا ، سورج مکھی ، جوار ،مکئی اور سبزیاں بھی بڑے پیمانے پراگتی ھیں- پھلوں میںپپیتا ، چیکو ،امرود ،بیرکے علاروہ یہاں کا "آم" مشہو ہےاور سندھ کا آموں کا سب سے بڑا باغ "کاچھیلو فارم" اسی علاقے میں واقع ہے۔ ایشیا کی مرچوں کی دوسری سب سے بڑی منڈی نزدیکی شہر جھڈو میں ہے- یاد رہے کہ ایشیا میں مرچ کی سب سے بڑی منڈی کنری میں ہے۔ یہ علاقہ مٹی سے ظروف سازی کے حوالے سے بھی معروف ہے اور ٹنڈوجان محمد کی کمہاربرادری اس کے لیےخاص طور پر مشہورہے-