پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا جرمانہ

September 09, 2019

ورلڈ بینک کے انٹرنیشنل سینٹر فار سیٹلمنٹ آف انویسٹمنٹ ڈسپیوٹس (ICSID)نے ریکوڈک (Reko Diq)معاہدہ منسوخ کرنے پر پاکستان کی تاریخ کا تقریباً 6ارب ڈالر کا سب سے بڑا جرمانہ عائد کیا ہے جس پر پاکستان میں حسب روایت ایک کمیشن بنادیا گیا ہے کہ وہ ذمہ داروں کا تعین کرنے کیساتھ ساتھ اس معاملے کی تحقیقات کرے کہ ملک کو کس وجہ سے اتنا بڑا نقصان ہوا؟ بین الاقوامی عدالت ICSIDسے پاکستان پر جرمانے کا یہ پہلا واقعہ نہیں بلکہ اس سے قبل 22اگست 2017ء کو ترکی کی ایک پاور کمپنی سے سے رینٹل پاور معاہدہ منسوخ کرنے پر پاکستان پر تقریباً 900ملین ڈالر کا جرمانہ عائد کیا جبکہ اس سے پہلے 1997ء میں ترکی کی ایک تعمیراتی کمپنی نے اسلام آباد پشاور موٹر وے معاہدہ منسوخ کرنے پر 756ملین ڈالر کا کلیم دائر کیا تھا لیکن ICSIDنے تکنیکی بنیادوں پر اسے مسترد کردیا۔ حال ہی میں لندن کی آربرٹیشن کورٹ نے برطانیہ کی اثاثے ریکوری کرنیوالی کمپنی جس سے جنرل پرویز مشرف کے دور میں پاکستانی سیاستدانوں کے بیرون ملک غیر قانونی اثاثے دریافت کرنے کیلئے نیب نے معاہدہ کیا تھا، کو یکطرفہ طور پر منسوخ کرنے پر پاکستان پر 33ملین ڈالر کا جرمانہ عائد کیا گیا۔ ان میں سے زیادہ تر معاہدوں کے منسوخ ہونے سے ملک کو نہ صرف ناقابل برداشت مالی نقصان پہنچا بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ شدید متاثر ہوئی جس سے پاکستان میں نئی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہوئی۔

قارئین! ریکوڈک کیس میں حکومت پاکستان پر عائد کئے جانے والے سب سے بڑے جرمانے کے پس منظر سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں سونے اور تانبے کی آسٹریلوی کان کن کمپنی نے اپنی فزیبلٹی رپورٹ میں بتایا تھا کہ ریکوڈک میں تانبے کے 22ارب پائونڈ اور 13ملین اونس سونے کے ذخائر پائے جاتے ہیں جن کی مجموعی مالیت 500ارب ڈالر ہے۔ کمپنی کے مطابق یہ منصوبہ پاکستان اور بلوچستان کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ مذکورہ کمپنی نے سونے اور تانبے کی کان کنی کے اس منصوبے کیلئے 3.3ارب ڈالر خرچ کرنے کا اعلان کیا تھا جس میں ایئر پورٹ، سڑکیں، رہائشی مکانات اور معدنیات کی منتقلی اور گوادر تک معدنیات کی بین الاقوامی مارکیٹ تک رسائی کیلئے 682کلومیٹر طویل ٹرانسپورٹیشن پائپ لائن کی تعمیر بھی شامل تھیں۔ معاہدے کے مطابق کمپنی آمدنی کا 25فیصد بلوچستان حکومت کو بغیر کسی سرمایہ کاری کے دینے کی پابند تھی کیونکہ معدنیات صوبوں کی ملکیت ہوتی ہیں مگر اگلے 10برسوں میں اس منصوبے کی ملکیت بدلتی چلی گئی۔ نواز شریف کے پہلے دور حکومت کے بعد نگراں حکومت نے مینڈیٹ نہ ہونے کے باوجود ریکوڈک میں سونے اور تانبے کے ذخائر کی تلاش کا ٹھیکہ آسٹریلوی کی ایک کان کن کمپنی کو دے دیا تاہم 2000ء میں بی ایچ پی نے ایک اور فرم کو اس منصوبے میں شامل کرلیا جس کے بعد اس منصوبے کو آسٹریلوی کمپنی جو پاکستان میں بھی رجسٹرڈ کروائی گئی تھی، کو منتقل کردیا گیا۔ 2009ء میں کمپنی نے ایک نئی فزیبلٹی اسٹڈی رپورٹ جمع کروائی اور فروری 2011ء میں کان کنی کی درخواست دی جس کے بعد اس منصوبے میں کرپشن کی کہانیوں اور معدنی ذخائر کی لوٹ مار کے اسکینڈلز سامنے آنے لگے۔ بعد ازاں اس وقت کے وزیراعلیٰ بلوچستان اسلم رئیسانی اور پی ٹی آئی کے سینیٹر اعظم سواتی نے منصوبے کو منسوخ کرنے کیلئے درخواست دائر کی۔ مئی 2011ء میں سپریم کورٹ نے صوبائی حکومت کو حکم دیا کہ ٹی ٹی سی پاکستان کی جانب سے دی گئی کان کنی کی درخواست پر منصفانہ اور شفاف کارروائی کی جائے۔ اس طرح عدالتی مداخلت کے بعد صوبائی حکومت نے ٹی ٹی سی پاکستان کا لائسنس منسوخ کردیا جس کے بعد سونے اور تانبے کی تلاش کیلئے دوسری کمپنیوں کو 11لائسنس جاری کئے گئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان 11لائسنسوں میں سے 5لائسنس ایسی پاکستانی اور چینی کمپنیوں کو دیئے گئے جنہیں اس سے پہلے سونے اور تانبے کی کان کنی کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ پاکستان کے سونے اور تانبے کے پہلے منصوبے سینڈک کو پاکستان سینڈک میٹل اور چائنا انجینئرنگ کمپنی کے تعاون سے شروع کیا گیا تھا لیکن مالی مشکلات کے پیش نظر چائنا کی ایک اور کمپنی کو 2002ء میں 10سال کیلئے بغیر کسی مانیٹرنگ نظام کے لیز پر دے دیا گیا۔ اس کمپنی نے 2004ء سے 2008ء تک 7.746ٹن سونا نکال کر پاکستان کو سونا پیدا کرنے والے ممالک میں شامل کردیا۔ اس کے علاوہ اس منصوبے کے تحت 86013ٹن تانبا، 11046ٹن چاندی، 14482ٹن میگنائٹ کی معدنی دولت بھی حاصل کی گئی۔ ایک سروے کے مطابق چائنیز کمپنی کی لیز ختم ہونے کے بعد اس کان سے صرف 9سال تک مزید معدنیات حاصل کی جاسکتی تھیں۔

میں خاص طور پر یہ بات کہنا چاہوں گا کہ ہمیں شاید ان حساس نوعیت کے معاہدوں کی بین الاقوامی اہمیت اور انہیں یکطرفہ طور پر منسوخ کرنے کے مالی نقصانات کا اندازہ نہیں تھا۔ عالمی عدالتیں ان جرمانوں پر عملدرآمد کی صورت میں پاکستان کے بیرونی اثاثوں کی ضبطی کا حکم بھی دے سکتی ہیں جو پاکستان کی ہتک کا باعث ہوگا۔ پی ٹی آئی حکومت نے قطر سے ایل این جی گیس امپورٹ کرنے کے معاہدے کی شفافیت پر سوالیہ نشان اٹھایا ہے اور اس سلسلے میں نیب سابق وزیراعظم سے تحقیقات بھی کررہی ہے۔ پاکستان میں بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیوں آئی پی پیز (IPPs)کو حکومت پاکستان کی گارنٹیاں حاصل ہیں جس کی بنیاد پر یہ کمپنیاں عالمی عدالتوں میں جانے کی مجاز ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ تمام سرکاری محکموں کو بڑے معاہدے کرنے کیلئے پروفیشنل اور قانونی مہارت فراہم کی جائے تاکہ معاہدے کرتے وقت شفافیت کے ساتھ تمام قانونی شقوں کو مدنظر رکھا جاسکے اور تنازع کی صورت میں ملک کا دفاع کرتے ہوئے خطیر جرمانوں سے بچا جا سکے۔