’’پاکستان ۔ بنے گا پاکستان‘‘ مگر کب؟

September 12, 2019

یوں تو ہم 72برس سے ہی یہ دُعا مانگ رہے ہیں لیکن 5اگست سے زیادہ شد و مد سے یہ نعرہ لگارہے ہیں۔ ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘۔ مگر حقیقت تو یہ ہے کہ ہم 72سال میں پاکستان کو بھی پاکستان نہیں بناسکے۔ وہ تو ہماری آرزو بھی ہے۔ تمنّا بھی اور دلی دُعا بھی کہ کشمیر بنے گا پاکستان۔ لیکن پاکستان بھی پاکستان بن جائے، ہم میں سے اکثر کی نہ خواہش ہے نہ کوشش۔ مقبوضہ کشمیر تو ہمارے دائرۂ کار میں نہیں ہے۔ اسے تو ہم پاکستان بنانے پر قادر نہیں ہیں۔ لیکن جو ہمارے اختیار و انتظام میں ہیں پاکستان۔ چاروں صوبے۔ آزاد جموں و کشمیر۔ گلگت۔ فاٹا تو اب کے پی میں ضم ہوگیا ہے۔ ان سب کو بھی پاکستان ہم کہاں بنا پائے ہیں۔ یہ آرزو اپنی جگہ قابل قدر ہے کہ کشمیر بنے گا پاکستان لیکن پہلے ہم پاکستان کو تو پاکستان بنالیں۔

پاکستان وہی ہے۔ جس کا تصور بانیٔ پاکستان نے دیا تھا۔ بہت ہی واضح ۔قطعی۔اس کے خد و خال وہ اپنی ہر تقریر میں نقش کرتے رہے۔ 11اگست 1947کی دستور ساز اسمبلی سے خطاب میں تو انہوں نے کوئی گوشہ کوئی پہلو مبہم نہیں رہنے دیا۔ وہ صاحب بصیرت تھے۔ جھوٹ نہیں بولتے تھے۔ عوام کو خوش کرنے کےلئے جذبات سے نہیں کھیلتے تھے۔ مذہبی لیڈروں کی طرح مذہب کا استحصال نہیں کرتے تھے۔ اس لئے انہوں نے اس خطاب میں جس پاکستان کا روڈ میپ تشکیل دیا، جو شیڈول بتایا وہ ایک جدید ریاست کا تھا۔ جسے نہ صرف بیسویں صدی کی آخری دہائیوں میں اقوام عالم میں اپنا مقام بنانا تھا بلکہ اکیسویں صدی اور آتی صدیوں میں بھی اپنے اور شہریوں کے درمیان ایک تعلق خاص کو برقرار رکھنا تھا۔ لیکن جاگیرداروں۔ زمینداروں۔ سرمایہ داروں۔ طالع آزما افسروں نے قائد اعظم کی زندگی میں بھی اس پاکستان کی طرف سفر شروع نہیں کیا۔ جس کے خطوط بانیٔ پاکستان نے اُجاگر کئے تھے۔ بعد میں ہم کبھی لیاقت علی خان کے پاکستان میں تھے۔ کبھی ناظم الدین۔ کبھی گورمانی۔ کبھی دولتانہ۔ کبھی غلام محمد۔ کبھی اسکندر مرزا۔ کبھی ایوب خان ۔کبھی یحییٰ خان ۔ لیکن قائد اعظم کا پاکستان کبھی بھی ہمیں نہیں ملا۔ پھر 1971میں قائد اعظم کا پاکستان دو لخت ہوگیا۔ جغرافیائی طور پر بھی پاکستان قائداعظم کا پاکستان نہیں رہا۔ اس کے بعد ہم نے بھٹو کا پاکستان دیکھا۔ ضیاء کا ۔ بے نظیر کا۔ میاں نواز شریف کا ۔ غلام اسحٰق کا۔ پرویز مشرف کا ۔ آصف زرداری کا۔ اب ہم عمران خان کا پاکستان دیکھ رہے ہیں۔ جسے اکثر عمران خان کا بھی نہیں کسی اور کا پاکستان کہتے ہیں:

ہیں کوا کب کچھ نظر آتے ہیں کچھ

دھوکا دیتے ہیں یہ بازی گر کھلا

یہ سارے کہتے رہے ہیں۔ ہم قائد اعظم کا پاکستان بنانے آئے ہیں۔ مگر وہ اپنا اپنا پاکستان بنا کر جاتے رہے ۔ قائد اعظم کا پاکستان ہی حقیقی پاکستان ہے۔ جہاں امن و امان ہو۔ جہاں افسر آئین کے مطابق فرائض انجام دیتے ہوں۔ جہاں سول اور ملٹری بیورو کریسی صرف رائج الوقت قوانین کی پابندی کرتی ہو۔ کوئی ادارہ کسی دوسرے کے امور میں مداخلت نہ کرتا ہو۔ جہاں ہر شہری کو اپنی اپنی عبادت گاہوں میں جانے کی آزادی ہو۔ جہاں فرقہ پرستی کی آگ نہ بھڑکائی جاتی ہو۔ جہاں قانون امیروں کے لئے الگ غریبوں کے لئے الگ نہ ہو۔ جہاں ایک دوسرے پر کفر کے فتوے نہ لگتے ہوں۔ جہاں کارکنوں کو بغیر کسی قانونی جواز کے ملازمت سے نہ نکالا جاتا ہو۔ جہاں کلیدی عہدے صرف اہل افراد کو ملتے ہوں۔ جہاں پارلیمنٹ کے ارکان صرف اپنی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ نہ کرتے ہوں۔ جہاں روٹی کپڑا مکان صرف ان کو نہ ملتا ہو جو پہلے سے ہی خوشحال ہیں۔

قائد اعظم کے پاکستان میں مملکت ایک ماں کی طرح مامتا کا اظہار کرتی ہے۔ وہ اپنے بیٹوں کو لاپتا نہیں کرتی بلکہ انہیں سینے سے لگاتی ہے۔ یہ ممتا صرف اسلام آباد کیلئے نہیں ہے۔ صرف لاہور کیلئے نہیں۔ کراچی ، پشاور، کوئٹہ، مظفر آباد، گلگت کیلئے بھی اسی طرح ہو جیسے اسلام آباد اور لاہور کیلئے ہے۔ یہ ممتا چھوٹے شہروں روجھان، کندھکوٹ، دالبندین، لورالائی، پشین، چاغی، شب قدر، وانا، میر علی، کوہاٹ، دادو، کمالیہ، چیچہ وطنی، میرپور خاص، میر پور آزاد کشمیر، وزیر آباد اور گوجر خان کے لئے بھی اسی طرح تڑپے ۔ ایسی مملکت جو اکیسویں صدی میں اپنے شہریوں کو زندگی کی وہی آسانیاں فراہم کرے جو دوسرے ملکوں میں فراہم کی جارہی ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ چند گھرانوں میں تو امریکہ یورپ سے بھی زیادہ سہولتیں میسر ہوں۔ اپنے ہوائی جہاز ہوں۔ کروڑوں کی گاڑیاں ہوں۔ اکثریت کچی آبادی میں زندگی کی گاڑی کھینچنے پر مجبور ہو۔ جہاں تعلیم کا ایک ہی نظام ہو۔ جہاں ایک سے دوسرے شہر میں جانے کے لیے آرام دہ ٹرینیں۔ بسیں ہوں۔ جہاں ریلوے نظام کو ٹرکوں۔ ٹرالروں اور بسوں کے ذریعے مفلوج نہ کیا جارہا ہو۔ جہاں اشرافیہ ایک دوسرے کی قومی خزانہ لوٹنے میں مدد نہ کرے۔ جہاں نیب کا خوف صرف اپوزیشن اور معزول حکمرانوں کو نہ ہو۔ جہاں ہر فرد کی عزت ہو۔ جہاں لوگ بجلی پانی کو نہ ترسیں۔

یہ سب ہماری ذمہ داری ہے۔ ہمارا فرض ہے۔ اور ہمارے دائرۂ اختیار میں ہے۔ مقبوضہ کشمیر ہمارے دائرۂ اختیار میں نہیں ہے۔ آزاد جموں و کشمیر ہماری عملداری میں ہے۔ کیا وہاں ہم 21ویں صدی کی آسانیاں فراہم کررہے ہیں۔ کیا اسلام آباد جو ہمارا واشنگٹن ہے۔ لندن ہے۔ وہاں واشنگٹن لندن کی سہولتیں میسر ہیں۔ کیا پنجاب کے سارے لوگ ہم سے خوش ہیں۔ جنوبی پنجاب میں اکثریت کو حقوق حاصل ہیں؟ سندھ والوں کو ہم زندگی کی خوشیاں دے رہے ہیں؟ بلوچستان کے سارے علاقوں میں وہ سہولتیں ہیں جو ان کا حق ہے۔ کے پی کا نام بدل کر ہم خوش ہیں۔ وہاں لوگوں کو سب کچھ میسر ہے۔ جو آج کے انسان کو ملنا چاہئے؟

یہ نعرہ ،یہ دُعا بجا کہ ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘۔ لیکن آئیے پہلے پاکستان کو بھی پاکستان بنائیں تاکہ جب کشمیر ہماری عملداری میں آئے تو انہیں وہ ساری آزادیاں،ساری آسانیاں از خود حاصل ہوجائیں۔ جس کیلئے وہ ان دنوں بھارت کے خلاف جہاد کررہے ہیں۔