مجھے شوق میںپارسائی کا ڈر ہے
اسے عشق میں بے وفائی کا ڈر ہے
نہ جانے کہاںآمنا سامنا ہو
شناسائوں کو آشنائی کا ڈر ہے
جڑی ہے عبادت مری مصلحت سے
گنہ کا نہیں پارسائی کا ڈر ہے
فریب قفس کا ہوں مانوس اتنا
وہ مجرم ہوںجس کو رہائی کا ڈر ہے
خوشی وصل کی کھیل ہے ساعتوںکا
ازاں بعد لمبی جدائی کا ڈر ہے
نہیںہوں عدو کی عداوت سے خائف
کسی دوست کی دلربائی کا ڈر ہے
یہ شجر و عجر بولنے لگ نہ جائیں
عدو کو مری لب کشائی کا ڈر ہے
لڑا ہوںرقیبوں سے جم کر لیکن
رفیق اپنے گھر اپنے بھائی کا ڈر ہے
(پروفیسر محمد رفیق بھٹی)