جنرل اسمبلی:کیا کہا جائے؟ چند تجاویز

September 18, 2019

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس تو ہر سال کے ستمبر میں ہوتا ہی ہے، لیکن اب جو ہونے والا ہے، وہ فقط پاکستان اور بھارت ہی کے لئے نہیں پوری دنیا کے لئے انتہائی حساس اور تاریخ ساز ہو گا۔

یہ حقیقت اب پورے عالمی معاشرے پر روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اقوام متحدہ کے قیام کے مقاصد، اقوام کے حق خود ارادیت کے حصول اس ہی کے ذریعے آزاد ممالک (نیشن اسٹیٹس) کی آزادی کا تحفظ اور سرحدوں کے جغرافیائی احترام سے عالمی امن و استحکام کو یقینی بنانا تو بحیثیت مجموعی حاصل نہیں ہوا۔

ایک طرف مسئلہ کشمیر پر عالمی ادارہ اپنی ہی منظور قرارداد پر عملدرآمد کرنے میں بھارتی مزاحمت کے مقابلے میں اپنی بے بسی کو خود ثابت کر چکا ہے، دوسری جانب فلسطین پر عظیم ادارے کی کتنی ہی قراردادوں کو اسرائیل تکبر اور حقارت سے رد ہی نہیں کرتا۔

وہ ہوس ملک گیری میں مبتلا ہوا، ان منظور قراردادوں پر عملدرآمد کے خلاف مزاحمت میں تیزی آ رہی ہے جیسے مودی نے اپنی انتہا پسندی اور مہم جوئی سے اپنے ہی ملکی آئین کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کرنے کی (اپنے تئیں) جسارت کی اِسی طرح نیتن یاہو، امریکی اشیر باد سے اقوام متحدہ کی قراردادوں سے متضاد، اقوام متحدہ کی پابندیوں کی پروا کئے بغیر یروشلم (بیت المقدس) کو اسرائیل کا نیا دارالحکومت بنا چکا ہے۔

اس پر عالمی ادارے اور معاشرے دونوں کی مایوس کن بے بسی نے اس کی دیدہ دلیری میں اضافہ کیا اس نے 1967کی عرب اسرائیل جنگ میں شام کے پہاڑی علاقے پر جو قبضہ کیا تھا، اسے بھی ہونے والے الیکشن سے پہلے اسرائیل میں شامل کرنے کا اعلان کیا اور اب وہ مقبوضہ وادی اردن میں اسرائیلی بستیوں کا اعلان پولنگ سے فقط ایک ہفتہ قبل کر چکا ہے۔ گویا بھارت اور اسرائیل کے انتخابات میں سیاسی جماعتیں اور ان کے بنیاد پرست رہنما اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خطرناک خلاف ورزیوں کے حکومتی اقدامات کو اپنے منشور کا حصہ بنا کر اپنے عوام کو موبلائز کرنے کی مہم جوئی کر رہے ہیں۔

گویا اقوام متحدہ کی عالمی امن کے تحفظ کی سکت ٹیسٹ ہو گئی، جو مایوس کن ہی نہیں اب تشویشناک ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی گمبھیر سے گمبھیر تر ہوتی صورتحال اور اس کے نتیجے میں دونوں ملکوں میں کسی تباہ کن ہولناک جنگ کے خطرات منڈلاتے پوری دنیا خاموشی سے دیکھ رہی ہے۔

وزیراعظم عمران خاں 27ستمبر کو جنرل اسمبلی کے اجلاس سے جو تاریخی خطاب کرنے والے ہیں، اسے نتیجہ خیز بنانے کے لئے دستیاب ابلاغی معاونین ذہن نشین کر لیں کہ سارا زور مسئلہ کشمیر کی بین الاقوامی حیثیت اور مقبوضہ کشمیر کی گمبھیر صورتحال پر ہی نہ لگائیں، بلاشبہ تقریر میں حوالوں سے تو یہ ثابت کرنا ہو گا کہ مسئلہ کشمیر کس طرح دنیا کے امن کے لئے کتنی اہمیت کا حامل ہے، نیز یہ کہ مقبوضہ کشمیر میں خود اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس کمیشن کی رپورٹس اور بھارت سے مطالبوں کے مطابق بنیادی انسانی حقوق کی سنگین اور تشویش بڑھاتی خلاف ورزیاں، پاکستان اور بھارت کو سرحدی جھڑپوں اور محدود فضائی جنگ کے بعد کسی بڑی جنگ کی طرف لے جا رہی ہیں۔

اس سے بھی بڑھ کر وزیراعظم عمران خاں نے دنیا کو اس پر قائل کرنا ہے کہ تشویشناک صورتحال کو قائم رکھنے اور مسلسل بڑھانے میں بھارتی بنیاد پرست قیادت کا جارحانہ اور حد درجہ غیر ذمہ دارانہ رویے سے فقط جنوبی ایشیا کی ڈیڑھ ارب سے زائد آبادی متاثر نہیں ہو گی بلکہ بھارتی وزیراعظم خصوصاً وزیر دفاع نے جو بیانات دیئے ہیں اس نے امکانی جنگ کے خطے سے باہر چلے جانے کی تشویش پیدا کر دی ہے۔ لگتا ہے کہ پورے ایشیا کو کسی بڑی جنگ سے دوچار کرنے کے ارادے کسی ایک جگہ نہیں دور دور تک پل کر پختہ ہو چکے ہیں۔

وزیراعظم عمران کی تقریر میں انتباہ اور عالمی امن کے مکمل بگڑ جانے کی تشویش کے پہلو کو نمایاں ہونا چاہئے۔ پاکستانی وزیراعظم کی تقریروں کا رنگ واضح طور پر سوالیہ ہونا چاہئے، جس کا مخاطب عالمی عسکری طاقتیں، امیر ممالک اقوام متحدہ، بنیادی انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں، تحفظ حقوق نسواں اور بچوں اور صحت عامہ کے عالمی اداروں کو بنایا جائے۔

oاقوام متحدہ کی اپنی قراردادوں پر عملدرآمد میں رکاوٹوں کی نشاندہی ادارے کے ہی طرف سے کرنے اور اس نشاندہی کی صورت میں ہوئے متفقہ فیصلوں پر عملدرآمد کے لئے عالمی ادارے کے نظام میں تبدیلی لا کر اس کی سکت کو اس حد تک بڑھانے کی تجویز پیش کی جانی چاہئے کہ اقوام متحدہ اپنے کئے گئے فیصلوں (قراردادوں) پر یقینی عملدرآمد کی اہلیت کی حامل ہونے کے لئے اپنی کپیسٹی بلڈنگ پر فوری توجہ دے اور اِس پر عالمی مباحثے کا انتظام کرے۔

oیہ واضح کرنا ضروری ہے کہ دنیا کے مختلف خطوں میں اقتصادی اور سماجی ترقی کے بڑے گیپس سے تنازعات، سیاسی عدم استحکام، جنگوں اور جنگوں کا ماحول اور امکانات بڑھ رہے ہیں، لہٰذا اسلحے اور دفاعی تیاریوں پر بڑے سرمایے کا رخ انسانی ترقی و سلامتی کی طرف موڑنا ضروری ہے جس کے لئے تنازعات کے حل ناگزیر ہو گئے ہیں جن کا آغاز، اقوام متحدہ کی تنازعات پر منظور قراردادوں پر عملدرآمد سے ہی ہو سکتا ہے۔

oوزیراعظم عمران خود اور ان کے ابلاغی معاونین تو پاکستانیوں اور بھارتی عوام پر اپنا (وزیراعظم کا) یہ نیک ارادہ واضح نہ کر سکے کہ میں نے جو یہ بیان دیا تھا کہ ’’مودی انتخاب جیت جائینگے اور وہ جیت گئے تو کشمیر کا مسئلہ حل ہو جائیگا‘‘ اصل میں ایک بہتر امید کے اظہار کے ساتھ تنازع کے حل کیلئے مودی صاحب کے حلف اٹھانے سے بھی پہلے ان پر ایک ’’امن حملہ‘‘ (پیس اوفینس) تھا، جس پرمیں نے پاکستانی اپوزیشن کی جائز تنقید کا خطرہ تک مول لیا، لیکن مودی نے میرے پیس اوفینس کے برعکس اپنے آئین کی خلاف ورزی کر کے مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کر کے پاکستانی امن کے ارادوں اور کوششوں پر بم چلایا۔

oعمران خاں، بھارت اور دوسری جنوبی ایشیائی اقوام کو بھی اپنا مخاطب بنائیں اور پورے ایشیا کو بھی کہ وہ براعظم ایشیا کو کسی بڑی ہلاکت خیز اور تباہ کن جنگ کا بیٹل فیلڈ بننے سے بچانے کے لئے ہوشیار اور کمر بستہ ہو جائے، جس کیلئے مودی حکومت ایجنٹ کا کردار ادا کر رہی ہے۔