عالمی حرارت، آلودگی اور بچوں کی صدائے احتجاج

September 22, 2019

سویڈن کی پیاری بچی گزیٹا تھون برگ تیرا شکریہ کہ تم نے آب و ہوا کی آلودگی کے زہریلے پھیلائو اور ارضی حرارت کے خلاف جمعہ برائے مستقبل کی تحریک شروع کی اور گزشتہ جمعۃ المبارک نے یہ مبارک منظر دیکھا جب دُنیا بھر کے بچے اور جوان ہزارہا شہروںمیںہمارے جہان کو عالمی حرارت سے بچانے کیلئے سڑکوںپہ نکل آئے۔ لاہور میں بچوں جوانوںکے صاف و شفاف ماحول کے لیے مظاہرے میںایک بچی نے نئی نسل کے کرئہ ارضاور فضا کو آلودگی سے محفوظ بنانے کی تشویش اور عزم کو اپنے پوسٹر کی تحریر میں یوںرقم کیا:’’جہان ہے تو جان ہے‘‘۔ جان ہے تو جہان ہے کی اس جدلیاتی توضیح پر میں سر دھنتا رہ گیا۔ اور یاد آیا کہ جب ہم نے طالب علمی کے زمانے میںنظامِ تعلیم کی اصلاح کیلئے ’’شاگردوں (بچوں) کو اُستاد کر‘‘ کی ترکیب گھڑی تھی۔ ایک تو سویڈن اور لاہور کی یہ بچیاں ہیںجو اپنے کرئہ ارضاور اس کی آب و ہوا کو بچانے نکلی ہیں اور ایک امریکہ کے صدر ٹرمپ ہیں جو اِسی روز آسٹریلیا کے وزیراعظم کے ساتھ اپنی گفتگو میںکوئلے سے پیدا ہونیوالی توانائی (ہجریہ ایندھن) کی آلودگی کے گُن گا رہے تھے۔ یہ وہی صدارتی اُمیدوار ٹرمپ تھا جس نے فضا کی آلودگی کے خلاف کیے جانیوالے معاہدئہ پیرس کو حقارت سے ٹھکرانے کا اعلان کیا تھا جو کیوٹو کے معاہدے کا تسلسل تھا۔ یہ جاہلانہ اعلان بڑی بڑی کوئلے، تیل اور گیس کمپنیوں اور ٹرانسپورٹ، انرجی اور کیمیائی کارپوریشنوںکے ارضدشمن، فضا مخالف اور انسان کُش منافعوں کے دفاع میںکیا گیا تھا۔ یہ اُن تمام سائنسدانوںکی ماحولیاتی تحقیقات اور تقاضوں کی ضد میںتھا جو کہہ رہے تھے کہ فضا میںکاربن کی شرح کو 1.5 فیصد تک رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ زیادہ اور کم آلودگی پیدا کرنے والے اسکی سطح کو 2010 کی شرحسے نصف کرتے ہوئے 2050 تک اس کی زہریلی بڑھوتری صفر کر دیں۔ یقیناََ بڑی ذمہ داری تو اُن پر ہے جو دھواںدار ایندھنوںکو صنعتی انقلاب کی ابتدا سے اندھا دھند استعمال کیے جا رہے ہیں۔ کاربن کے اسی پھیلائو میںامریکہ کا حصہ 14.6 فیصد، چین کا 27.2 فیصد، بھارت کا 6.8 فیصد، باقی یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کا ہے یا پھر دُنیا کے دیگر ممالک کا جو 16فیصد ہے۔ ہمارے ضعیف الاعتقاد دوست اسے ہمارے اعمالوں کی سزا قرار دیتے ہیں یا پھر گناہوںکا اجر! مگر وہ یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ وہ کیا اعمال و گناہ ہیںجن کا خمیازہ وہ بھی بھگت رہے ہیں جو اِن گناہوںمیں شامل نہیںجیسے وہ چرواہے جن کی چراگاہیں موسمیاتی تبدیلیوںسے اُجڑ گئیں۔ یا وہ شہر اور جزیرے جو اتھلتے سمندروںکی طغیانیوںکے ہاتھوںناپید ہو جائیں گے۔ وہ بھی جو پیدا ہوتے ہی آلودگی کی گھٹی پینے پہ مجبور ہیں۔ پھر وہ بھی ہیں جو خم ٹھونک کر کہتے ہیںکہ پاکستان میںکاربن کی افزائش تو پہلے ہی ایک فیصد سے کم ہے تو یہ ہمارا سر درد نہیں، لیکن یہ بھولتے ہوئے کہ پاکستان ان سات بدقسمت ملکوںمیں شامل ہے جو ماحولیاتی تباہ حالی کا شکار ہو سکتا ہے اور ہو رہا ہے۔ ہمارے ماحولیاتی نظام کا اپنا ایک قدرتی توازن تھا جو خود انسانوں نے قدرت کی تسخیر کرتے ہوئے اسے دوام بخشنے کی بجائے بگاڑا ہے۔ کیا کچھ ہے جو انسان اور اس کا بڑھتا ہوا ہجوم کھا پی نہیں گیا۔ درخت، پودے، زیرِ زمین پانی، گلیشیرز، معدنیات، دریا، سمندر اور سمندری پیداوار، پرند چرند، جانور، ہر طرح کے ایندھن، جنگلات، گیس، پیٹرول، کوئلہ اور جو کچھ ہاتھ لگا سب ہڑپ کر گیا۔ دھات کے زمانوں سے صنعتی انقلاب اور سرمایہ داری کی بے انت منافع خوریوںاور قدرتی و انسانی ذرائع کے لامحدود استعمال کے ہاتھوںانسان نے دُنیا کو خود پہ تنگ کر لیا ہے۔ اس سے پہلے کہ اشتراکیوںکا خواب پورا ہو کہیںیہ نہ ہو کہ کرئہ ارضہی اپنی تپش میںبھسم ہو جائے۔ وہ کیسے؟ ذرا سائنس دانوںکو سُن لیں۔ ہمارے ماحولیاتی نظام میںنباتاتی عمل میںپودے اور درخت سورج کی روشنی یا شعاعوںکے زیرِاثر کاربن ڈائی آکسائیڈ اور پانی کی مدد سے خوراک، پھل پھول، طبی جڑی بوٹیاں، خوشبو اور ذائقے پیدا کرتے ہیں اور تمام جاندار ان سے نشوونما اور آسودگی پاتے ہیں۔ لیکن جب ان گرین ہائوس گیسوںکی پیداوار جو کہ ضروری ہے حد سے بڑھ جاتی ہے تو یہ ارضی حرارت یا گلوبل وارمنگ کا سبب بن جاتی ہے جو ارضی تپش کے خلا میں تحلیل ہونے میںرکاوٹ بن جاتی ہے۔ اس میں سرعت سے اضافہ زیادہ تر ہجریہ ایندھنوںیعنی تیل، گیس اور کوئلہ کے توانائی، گھروں، صنعتوں، آمد و رفت کے وسائل میں زیادہ اور غیرمحفوظ استعمال سے ہوتا ہے۔ صنعتی دور میںسرمایہ داروں کا زائد قدر اور نفع کے حصول کے لیے، نہ صرف محنت کشوں کے زائد وقت کا بلامعاوضہ استحصال، قدرتی ذرائع کا تباہ کُن استعمال اور آلودگی کا فروغ سرمایہ داری نظام کا طرئہ امتیاز ٹھہرا۔ نتیجتاً آج کرئہ ارضقدرت کے ساتھ اِس کھلواڑ کے باعث ماحولیاتی قیامت کے قریب تر ہو چلا ہے۔ نتیجتاً درجۂ حرارت بڑھ جاتا ہے، گلیشیرز پگھلتے جاتے ہیں، سمندروںکی سطح بلند اور ساحلی علاقے ڈوبتے جاتے ہیں، موسموں کی تبدیلیاں سیلاب و طوفان بپا کرتی ہیں یا پھر قحط سالی۔ زرعی پیداوار اور طرزِ زندگی میںناقابلِتلافی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ اوپر سے جنگل کٹتے یا جلتے جاتے ہیں جو کاربن ڈائی آکسائیڈ کھینچتے ہیں اور آکسیجن خارج کرتے ہیں۔ مزید برآں یہ کہ عالمی استعماری نظام دُنیا کے اکثریتی ملکوں اور اُن کی آبادیوںکو نہ صرف اُن کے ذرائع سے محروم کرتا جاتا ہے بلکہ اُنہیںپسماندگی و غربت کے ساتھ ساتھ آلودگی کی نذر بھی کرتا جاتا ہے۔ اندریںحالات اپنے کرئہ ارض، اپنی دھرتی، اپنی ہوا، اپنے پانی اور اپنی فضا اور ماحول کو آلودگی سے بچانے، حقِ زندگی کی حفاظت کرنے، اچھے ماحول کے حق کو منوانے، گلوبل وارمنگ سے بچنے، سیلابوں اور قحطوںسے محفوظ رہنے، خوراک میںزہرآلود ملاوٹوں، اجناس و دیگر غذائوں میں خطرناک کیمیائی ملاوٹوںسے خلاصی، ساحلی علاقوں کو سمندروںمیںغرق ہونے سے بچانے اور ایک پُرفضا، پُرسکون، پُرامن دُنیا جس میں لوگ ہر طرح کے ظلم و استحصال سے پاک سماج اور پائیدار نظامِزندگی سے بہرہ ور ہو سکیں۔