سخت سردی اور ستار کی محفل

February 15, 2013

ہرچند کہ فروری شروع ہو چکی ہے۔ اسلام آباد ابھی تک ٹھنڈی ہواؤں اور گہرے سیاہ بادلوں کی لذت کو محسوس کر رہا ہے۔ اس موسم میں برصغیر کے سب سے سینئر اور عالمی شہرت یافتہ ستار نواز پنڈت روی شنکر کے لئے تقریب ایک انوکھے انداز اور ایک نامعلوم سی جگہ پر منعقد کی جا رہی تھی مگر میں یہ کیوں کہہ رہی ہوں کہ نامعلوم سا مقام جب کہ سیکڑوں لوگ فرشی نشست پر سکڑ سکڑ کر بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے نامعلوم اس لئے کہا کہ کلچر کے حوالے سے اسلام آباد میں کئی سرکاری ادارے ہیں۔ لوک ورثہ، پی این سی اے جن کی عمارات تو بہت شاندار ہیں (سنا ہے آج کل دیمک لگی ہوئی ہے) ان سے پوچھا، دوسری ثقافتی انجمنوں سے پوچھا ”آپ تیار ہیں، روی شنکر کا ریفرنس کرنے کے لئے؟“ سرکاریوں نے تو کہا کہ وہ تو ہندوستان کے فنکار تھے، ہم نہیں کر سکتے۔ انہیں بتایا کہ وہ تو عالمی انعام یافتہ تھے، آپ انہیں محض ہندوستان کا کیوں کہہ رہے ہیں؟ بولے مان جائیے، آخر تو وہ ہندو تھے۔ پوچھا رانا بھگوان داس ہمارے اتنے بڑے جج ہیں، ان کی بھی کوئی تقریب اس لئے نہیں کرو گے کہ وہ ہندو ہیں۔ جواب ملا ”یہ ہماری پالیسی میں فٹ نہیں بیٹھتا کہ کسی ہندو فنکار کے لئے کوئی تقریب منعقد کریں“۔ پوچھا ”کیا آپ نے مہناز کے لئے کوئی فنکشن کیا تھا؟“ بولے ”سوچ رہے ہیں“۔ خیر سب جگہ سے مایوس ہو کر کچھ خاص گیلری میں گئے۔ انہوں نے کہا کر لیں مگر ہمارے پاس فنکاروں کو دینے کے لئے پیسے نہیں ہیں، اب پھر سب سوچ میں پڑ گئے۔ فیصلہ ہوا کہ ٹکٹ رکھ دو، جو پیسے آئیں ان کو دے دیئے جائیں۔ اندومٹھا نے یہ مشکل کام اپنے ذمہ لیا اور گھر گھر پھیرا لگایا۔ وہ خاتون 83سال کی عمر میں بھی اتنی پھرتی سے چلتی اور کام کرتی ہیں کہ رشک آتا ہے اور فنکشن والے دن تو یہ رشک، حسد میں بدل گیا۔ سیکڑوں غیر ملکی اور چند ایک پاکستانی وقت سے پہلے ہی ہال بھر چکے تھے جو بعد میں آئے کچھ زمین پر بیٹھے اور بہت سے کھڑے رہے۔
مشہور ستار نواز فرید نظامی کے دو بھتیجے اور ایک سینئر ستار نواز نے پہلے تو الگ الگ اپنے فن کا مظاہرہ کر کے روی شنکر کو تحسین اور خراج عقیدت پیش کیا پھر تینوں نے مل کر انوکھا منظر پیش کیا۔ کھماج کے سروں کو تینوں ستار نوازوں نے مل کر اور پھر جگل بندی کر کے ایسا سماں باندھا کہ سامعین نے کھڑے ہو کر داد دی۔ اب آپ پوچھیں گے کہ آخر اتنے سارے غیر ملکی اپنے بچّوں سمیت کیوں آئے اور اتنے کم پاکستانیوں نے توجّہ کیوں کی۔ حضور والا! یہ جتنے غیرملکی ہیں وہ اپنے بچّوں کو پاکستان کی ثقافت سے روشناس کرانا چاہتے ہیں، وہ اس لئے چار، پانچ سال کے بچّوں کو لے کر بھی آئے تھے۔ چند پاکستانی موسیقی کے رسیا اور روی شنکر کے شیدائی تھے، اس لئے آئے تھے، باقی افسران کا تو یہ کہنا ہے کہ ہم نے کبھی کوئی ثقافتی تقریب پیسے دے کر نہیں دیکھی، نہ شامل ہوئے۔ ہماری بیگمات بچّوں کو لاڈ میں چینی کھانا کھلانے، برگر سے تواضع کرنے، نہیں تو چاکلیٹ کھلا دینے کو حقیقی محبت سمجھتی ہیں۔ کتاب خرید کر دینا یا کسی ثقافتی تقریب کی جانب توجّہ دینا وقت کا زیاں معلوم ہوتا ہے۔
اب آپ پوچھیں گے کہ دیگر ثقافتی ادارے بھی تو ہیں، ان سے کیوں نہیں پوچھا۔ جناب پوچھا تھا۔ ایک میں تو جب سے اشفاق سلیم مرزا گئے ہیں، جھاڑو ہی پھر گئی ہے نہ کوئی بندہ آتا ہے نہ جاتا ہے، سب چین لکھتے ہیں۔ ایک اور ادارہ ہے، وہ کہتا ہے تین ہزار روپے دیں اور تقریب کرنے سے پہلے مدعوئین کی فہرست جمع کرا دیں۔ وہ بھلا کیسے۔ ہم تو اخبار میں دے دیتے ہیں۔ لوگ تلاش کرتے ہیں کہ کہیں کوئی اچھی تقریب ہو تو چلے جائیں۔ کوئی ادارہ نظر ہی نہیں آتا۔ ارے وہ جو سرکاری اکیڈمیاں ہیں، ان کا احوال مت پوچھیں۔ وہ ادبی تقریبات کے لئے یوں تو مخصوص ہیں مگر وہ بھی کہاں کہ خاک اڑتی نظر آتی ہے، یہی حال لائبریریوں کا ہے۔ پہلے برٹش کونسل لائبریری اور امریکن سینٹر لائبریریز ہوتی تھیں۔ وہاں ہم لوگ شاعری پڑھنے، ڈرامہ ریڈنگ، میوزک اور ڈانس کی تقاریب بھی کرتے تھے، اب تو وہاں کلاشنکوف والے کھڑے نظر آتے ہیں، اندر سنّاٹا راج کرتا ہے۔
آخر کس دن ہم فنکاروں کو قومیتوں اور ذاتوں میں تقسیم کرنے سے باز آئیں گے۔ مارٹن لوتھر کنگ ہو کہ نیلسن منڈیلا ہم ان کی انسانیت پرستی کے لئے قدر کرتے ہیں۔ لتا منگیشکر ہو کہ نورجہاں ہم ان کے فن کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ واں گوف ہو کہ شاکر علی ان کی مصوری کو قابل قدر سمجھتے ہیں۔ کیا سبب ہے کہ اگر پاکستانیوں نے جے پور فیسٹول میں حصّہ لینا ہو تو بی جے پی بول اٹھتی ہے اور اگر روی شنکر کو خراج عقیدت پیش کرنا ہو تو ہمارے اندر بیٹھا ہوا ضیاء الحق بول اٹھتا ہے۔ یہی رویّہ تھا غالب اور میر کے ساتھ جب پاکستان قائم ہوا تھا۔ کہا گیا تھا کہ وہ تو ہندوستانی شاعر ہیں۔ حتیٰ کہ بھیرویں اور ایمن راگوں کے نام بدلنے اور امیر خسرو کی بندشوں میں پیوند لگا کر مسلمان کرنے کی تیاریاں بھی کی جا رہی تھیں۔ ان لوگوں میں ہمارے زیڈ اے بخاری بھی شامل تھے۔ کچھ عقل مندوں نے ثقافت کو یوں تقسیم کرنے کے خلاف علم اٹھایا۔ یہ فاصلے ہرچند اب بھی قائم ہیں مگر بھلا ہو ملکہ سارا بائی، مہدی حسن، فیض صاحب اور احمد فراز کا کہ انہوں نے دونوں ملکوں کو قریب لانے کی کوشش کی ہے۔ ان کوششوں کے علاوہ ہمارے نوجوان کہیں ”رنگ“ کے نام سے، کہیں بسنتی چولا کے نام سے اور کہیں کلاسیکی موسیقی کو بچانے کے لئے کوششیں کر رہے ہیں کہ ٹی وی اور ریڈیو نے بھی ان فنون کو دیس نکالا دے دیا ہے۔ ان کے خیال میں ان کو کوئی سنتا نہیں ہے۔ کاش وہ اس محفل میں موجود ہوتے اور دیکھتے کہ روی شنکر کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے کتنے لوگ جمع تھے۔