ذہنی صحت کی بدترین کیفیت کا نام خودکُشی ہے، جس کی روک تھام ناگزیر ہے

October 06, 2019

بات چیت: عالیہ کاشف عظیمی

عکاسی: اسرائیل انصاری

عالمی ادارۂ صحت کے زیرِ اہتمام دُنیا بَھر میں ہر سال 10اکتوبر کو ’’ذہنی صحت کا عالمی یوم‘‘ منایا جاتا ہے۔امسال اس دِن کے لیے جس تھیم کا انتخاب کیا گیا ہے، وہ ہے، "Focus on suicide prevention"۔اس ضمن میں عالمی ادارۂ صحت نے جو اعداد وشمار جاری کیے ہیں، اُن کے مطابق ہر سال لگ بھگ آٹھ لاکھ افراد خودکُشی کا ارتکاب کرتے ہیں، تو یقیناً کچھ تو ایسے محرّکات ہیں، جن کے باعث اتنی بڑی تعداد موت کا غیر طبعی، غیر فطری طریقہ اختیار کررہی ہے۔ وہ عوامل کیا ہوسکتےہیں، ایسے کون سے رویّے ہیں، جن سے اندازہ ہوسکے کہ کوئی فرد ایک ایسا انتہائی قدم اُٹھانے والا ہے؟ اسی طرح کے کئی سوالات کے جوابات جاننے کے لیے ہم نےڈاکٹر نرگس اسد سے خصوصی بات چیت کی۔

ڈاکٹر نرگس اسد نے کلینکل سائیکالوجی میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی اور پہلی ملازمت کا آغاز کراچی یونی ورسٹی کے شعبۂ نفسیات سے بطور اسسٹنٹ پروفیسر کیا۔2004ء میں آغا خان یونی ورسٹی اسپتال،کراچی کے سائیکائٹری ڈیپارٹمنٹ سےمنسلک ہوئیںاور فی الوقت ایسوسی ایٹ پروفیسر کے فرائض انجام دے رہی ہیں۔ خواتین اور نوجوانوں کے ذہنی مسائل اُن کے خاص موضوعات ہیں۔ بیرونِ مُمالک سے اپنی فیلڈ سے متعلق کئی کورسز کیے اور متعدد بین الاقوامی کانفرنسز میں بھی شرکت کر چُکی ہیں۔

نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے

س:ذہنی صحت کی مکمل تعریف کیا ہوگی؟

ج:دیکھیں، ایک صحت مند فرد اُسے تصوّر کیا جاتا ہے، جو کسی معمولی مرض یا معذوری میں مبتلا نہ ہو اور کسی بھی وجہ سے اس کے روزمرّہ کے معمولات متاثر نہ ہو رہے ہوں،لیکن جب ذہنی صحت کی بات کی جاتی ہے ،تو ذہنی صحت صرف بیماری کی عدم موجودگی کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک ایسی کیفیت ہے، جس میں نہ صرف فرد کی اپنے، بلکہ دوسروں کے بارے میں بھی سوچ مثبت ہو۔ وہ معاشرے میں فعال کردار ادا کررہا ہو اور روزمرّہ مسائل سے نبردآزما ہونے کی صلاحیت بھی رکھتا ہو۔

س:ذہنی و نفسیاتی صحت کی برقراری کے لیے کیا اقدامات ضروری ہیں؟

ج:سب سے پہلے تو زندگی میں ترتیب کا ہونا ضروری ہے۔یعنی اپنے معمولات ترتیب کے ساتھ خوش اسلوبی سےانجام دئیے جائیں۔وہ اس طرح کہ زندگی گزارنے کا کوئی مقصد ہو،پھراپنے اندر کی دُنیا کو بھی وقت دیا جائے،جس کے لیےایسی مثبت جسمانی سرگرمیاں اختیار کی جاسکتی ہیں، جن میں جسم اور ذہن دونوں متحرک رہیں۔

مثلاً چہل قدمی، ورزش وغیرہ۔ اس طرح ہمارے جسم میں ایسے ہارمونز پیدا ہوتے ہیں، جوتناؤ کم کرنے کا سبب بنتے ہیں۔مذہب سے رغبت بھی ضروری ہے،تواہلِ خانہ، رشتے داروں اور دوستوں کے ساتھ وقت گزارنا بھی۔ کوئی مثبت مشغلہ، وقت پر سونے، جاگنے اور کھانے کی عادت ، متوازن غذا کا استعمال۔

علاوہ ازیں، اگر کسی ایسی عادت میں مبتلا ہیں، جو ایڈکشن میں شمار ہو، تو اس سے اجتناب برتیں، بچّوں کو کہانیاں سُنائیں، اُن کے ساتھ وقت گزاریں۔ مشاہدے میں ہے کہ آج کل کی گھریلو خواتین مطالعہ نہیں کرتیں،جس کی وجہ سے غیر ضروری دباؤ اور خواہشات کا شکاررہتی ہیں، لہٰذا فرصت کے اوقات میں موبائل فون استعمال کرنے کی بجائے کوئی اچھا معیاری لٹریچر پڑھیں۔

پھر اس پر بات چیت بھی کریں، بجائے اس کے کہ لوگوں کے بارے میں غیر ضروری باتیں کی جائیں۔دیکھیں، زندگی میں ترتیب کے لیے ہر چیز کا متوازن ہونا ضروری ہے۔ایک سادہ سی مثال ہے جب کوئی ڈش بنائی جاتی ہے، تو اس میں مختلف اجزاء شامل ہوتے ہیں، مگر ذائقہ متوازن رہتا ہے،توبس ایسا ہی کچھ معاملہ زندگی کا بھی ہے۔

س:ہمارے یہاں کون کون سے ذہنی و نفسیاتی عوارض عام ہیں؟

ج:سرِفہرست تو ڈیپریشن اور اینزائٹی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ہمارے یہاں30فی صد سے زائد افراد ڈیپریشن کا شکار ہیں۔ نوّے کی دہائی میں عالمی ادارۂ صحت نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ2020ء تک ڈیپریشن موت کی بڑی وجہ بن سکتا ہے، جو اب بالکل درست ثابت ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ ذہنی دباؤ اور تناؤ وغیرہ بھی عام ہیں۔

بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میںان ذہنی عوارض کو ڈیپریشن ہی سے موسوم کردیا جاتا ہے، حالاں کہ ایسا نہیں ہے۔ طبّی اصطلاح میں ڈیپریشن، موڈ ڈس آرڈر (Mood Disorder)کہلاتا ہے۔ یہ ایک ایسا عارضہ ہے، جو انسان کو اُداسی اور مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیتا ہے۔

اس کی علامات میں معمولی معمولی باتوں پر رونا، تعلیم، ملازمت، کاروبار، نجی، عوامی زندگی اور صفائی ستھرائی پر توجّہ نہ دینا، بنیادی ضروریات نظرانداز کرنا، نیند اُڑ جانا، نااُمیدی، بے چینی، خوشیاں محسوس نہ کرنا، خود کو کم تر سمجھنا، ملنے جُلنے سے کترانا، اپنی ہر دِل چسپی سے کنارہ کشی اختیار کرلینا اور خودکُشی کے بارے میں سوچنا یا مَر جانے کی باتیں کرنا وغیرہ شامل ہیں۔

جب کہ ذہنی دباؤ کے دو رُخ ہیں۔ جیسے امتحانات کا دباؤ، بعض طلبہ میں پازیٹو انرجی کا سبب بنتا ہے۔ وہ یہ سوچ کر خُوب دِل لگا کر پڑھتے ہیں کہ مجھے کام یاب ہونا ہے، لیکن اسی کا دوسرا رُخ ڈیپریشن ہے۔ کیوں کہ جب اسٹریس، ذمّے داریوں پر اثرانداز ہونے لگے اورطویل عرصے تک یہی کیفیت برقرار رہے، تووہ ڈیپریشن میں بدل جاتا ہے۔ رہی بات اینزائٹی کی، تو یہ بلاوجہ کی پریشانیوں، خوف، گھبراہٹ ، ہر وقت فکر مند رہنے اور اندیشوں میں گِھرے رہنے کا عارضہ ہے۔ واضح رہے کہ اگر کوئی فرد اسٹریس یا اینزائٹی کا شکار ہے، تو ضروری نہیں کہ وہ ڈیپریسڈ بھی ہو۔

س: عالمی ادارۂ صحت نے اِمسال ’’ورلڈ مینٹل ہیلتھ ڈے ‘‘کے موقعے پر خودکُشی سے متعلق جس تھیم کا اجرا کیا ہے، اُس کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

ج:عالمی ادارۂ صحت ہی کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق دُنیابَھر میں ہر40سیکنڈ میں ایک فرد خودکُشی کررہا ہے،جب کہ نوجوانوں میں موت کی دوسری بڑی وجہ خودکُشی ہی ہے،تو اس کے اثرات صرف ان کے خاندان، دوست احباب، عزیز و اقارب ہی پر نہیں، پورے معاشرے پر مرتّب ہوتے ہیں۔ مذکورہ تھیم کا اجراء اسی لیے کیا گیا ہے، تاکہ سب مل بیٹھ کر کچھ ایسے اقدامات کریں کہ جو خودکُشی کی روک تھام میں معاون ثابت ہوں۔

س:وہ کیا ذہنی کیفیات اور عوامل ہوتے ہیں کہ جن کے سبب کوئی شخص خودکُشی تک کے متعلق سوچتا یا کرگزرتا ہے؟

ج: دُنیا بھر میں خودکُشی کے عوامل مختلف ہیں، جیسے مغربی مُمالک میں زیادہ تر کوئی ذہنی بیماری(Mental Illness)وجہ بنتی ہے، جب کہ ہمارے یہاں کئی سوشل فیکٹرز بھی خودکُشی کی جانب مائل کردیتےہیں۔ مثلاً گھریلو پریشانیاں، مالی مشکلات، محبّت میں ناکامی، خاندانی جھگڑے، والدین سے خراب تعلقات، پسند کے خلاف شادی، میاں بیوی کے تعلقات میں خرابی، اسکول، کالج، یونی ورسٹی یا کام کی جگہوں پر ہراسانی، سائبربُلنگ، کوئی جسمانی یا ذہنی معذوری وغیرہ۔

س:اقدامِ خودکُشی کے نفسیاتی عوامل کون کون سے ہوسکتے ہیں؟

ج: ڈیپریشن، شیزوفرینیا،پرسنالٹی ڈِس آرڈر اور بائی پولر ڈِس آرڈروغیرہ اقدامِ خودکُشی کے نفسیاتی عوامل ہیں۔ تاہم، ڈیپریشن کی نسبت شیزوفرینیا اور بائی پولر ڈِس آرڈرکے نتیجے میں کم افراد خودکُشی کرتے ہیں۔

س:کیا خودکُشی سے متعلق سوچنے والے شخص میں کچھ ایسی علامات ظاہر ہوجاتی ہیں کہ جن سے اندازہ ہوسکے کہ وہ ایک انتہائی قدم اُٹھانے والا ہے؟

ج:ہر فرد اپنی زندگی میں مختلف طرح کے مسائل سے نبردآزما ہے، مگر بعض افراد اس حد تک مایوس اور نااُمید ہوجاتے ہیں کہ انہیں اپنی ہر پریشانی، مسئلے کا حل صرف موت ہی نظر آتا ہے،جس کا اظہار وہ اپنی گفتگو میں بھی کرنے لگتے ہیں۔ مثلاً ’’میری زندگی کا کوئی مقصد نہیں ، مَیں کیوں زندہ ہوں، مجھے زندہ ہی نہیں رہنا ہے، ایسی زندگی سے تو مَرجانا ہی بہتر ہے، مَیں گھر اور دُنیا پر بوجھ ہوں‘‘ وغیرہ وغیرہ۔

تو جب کوئی اس طرح کی باتیں کرے، جن سے شدید بےزاری، مایوسی کا عُنصر جھلکے،توہرگز نظرانداز نہ کریں، کیوں کہ خودکُشی ایک شدید اور خطرناک عمل ہے ،لہٰذاکسی کی ایسی کوئی بھی حرکات و سکنات، جو روٹین سے ہٹ کرہوں، چاہے کتنی معمولی ہی کیوں نہ ہوں، نظرانداز نہ کی جائیں۔ مثلاً پسندیدہ مشاغل اور باتوں سے دِل چسپی ختم ہوجانا، صحت گرنا، بہت زیادہ یا کم سونا ، اسکول، کالج، یونی ورسٹی یا دفتر نہ جانا، اپنا خیال نہ رکھنا، لوگوں سے کترانا، غصّہ کرنا اور کھانے سے رغبت ختم ہوجانا ۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بعض افراد جو یہ طے کر چُکے ہوں کہ اب انہیں زندہ نہیں رہنا، تو وہ خاموشی سےاپنے نامکمل کام ،مکمل کرنے لگتے ہیں،جیسے کسی کاادھار ادا کرنا، زمین، جائیداد سمیت دیگر مسائل حل کرنا وغیرہ۔

بدقسمتی سے اگر کوئی فرد نااُمیدی کی باتیں کررہا ہو یا اس کی حرکات معمول سےسے ہٹ کر ہوں، تو اس سے کچھ پوچھنے سے گریز کیا جاتا ہے،مبادا اس کے دِل میں خودکُشی کا خیال پیدا نہ ہو جائے۔ تو ایسابالکل نہ کریں۔ آپ جتنا اُسے کریدیں گے، اتنا ہی اُس فرد کے احساسات سمجھ پائیں گے اورپھر ہی اس کی مدد کرسکیں گے۔ اگر کسی فرد نے ایک بار خودکُشی کی کوشش کی، مگربچ گیا، تو اس پر زیادہ دھیان دیا جائے، کیوں کہ عام افراد کی نسبت ان لوگوں میں اقدامِ خودکُشی کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

س:خودکُشی کرنے والے افراد کی شرح کے اعتبار سےپاکستان کا نمبر کون سا ہے؟

ج: ہمارے یہاں خودکُشی سے متعلق اعدادوشمار یک جا کرنے کا کوئی مستندنظام نہیں، البتہ مختلف تحقیقات کے مطابق غیر مسلم مُمالک کی نسبت مسلم مُمالک میں خودکُشی کی شرح کم ہے اور اس کی بنیادی وجہ دینِ اسلام ہے،جس میں شدّت کے ساتھ خودکُشی کی ممانعت کی گئی ہے۔

س:کس عُمر کے افراد میں خودکُشی کرنے کی شرح بُلند ہے،نیزخواتین اور مَردوں کے تناسب میں کتنا فرق ہے؟

ج:مجموعی طور پرنوجوان خصوصاً30سال سے کم عُمر افراد میں یہ شرح بُلند ہے،مگر بیرونِ مُمالک میں عُمر رسیدہ افراد میں بھی خودکُشی کا رجحان پایا جاتا۔البتہ ہمارے یہاں بزرگ خودکُشی کی جانب مائل نظر نہیں آتے۔رہی بات تناسب کی تو مَردوں کی نسبت خواتین کی تعداد زیادہ ہے،مگر مَرد زیادہ خطرناک طریقوں سے خودکُشی کرتے ہیں۔

س:کیا سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال بھی ذہنی صحت پر اثر اندازہورہاہے؟

ج:جی بالکل، سوشل میڈیا کا استعمال ذہنی و نفسیاتی صحت پر بہت زیادہ اثرانداز ہو رہا ہے،جس کا اندازہ اس سے لگائیے کہ محض پوسٹ شئیر کرنے پر مطلوبہ لائیکس نہ ملنا شدیدذہنی دباؤ کا سبب بن جاتا ہے، تو بعض افرادکسی کی خوش گوار ماحول میں کھانے پینے یا گھومنے پھرنے کی تصاویر دیکھ کر ہی شدید احساسِ کم تری میں مبتلاہوجاتے ہیں۔

س:بعض ویڈیوگیمز بھی خودکُشی کی انتہا تک لے جاتے ہیں،تو اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟

ج: اس طرح کی گیمز کھیلنے ولاہر بچّہ خودکُشی نہیںکرتا۔ اس کے بھی کئی عوامل ہوتے ہیں، جو اس انتہائی اقدام کی وجہ بن سکتے ہیں۔جیسے کچھ بچّے ایڈوینچر پسند ہوتے ہیں، تو یہ مہم جوئی انہیں اس جانب راغب کردیتی ہے، تو کسی کی تنہائی پسندی محرّک بن جاتی ہے۔

س:خودکُشی کا رجحان کم کرنے میںوالدین کیا کردار ادا کرسکتے ہیں؟

ج: چوں کہ ہمارے یہاں30سال سے کم عُمر کے افراد میں خودکُشی کا رجحان زیادہ پایا جارہا ہے، تو اس ضمن میں والدین کے ساتھ اچھے تعلقات زیادہ اہم گردانے جاتے ہیں۔والدین کو چاہیے کہ بچپن ہی سے اپنے بچّوں پر بَھرپور توجّہ دیں۔گھر کا ماحول خوش گوار رکھیں، اپنی مصروفیات میں سے ان کے لیےخاص طور پر وقت نکالیں۔

اُنہیں صحیح، غلط کی تمیز سکھائیں۔مذہبی، اخلاقی قدروں کی پاس داری کی تلقین اورفلاحی امور کی جانب بھی راغب کیا جائے۔تمام بچّوں کی صلاحیتیں، خوبیاں ایک دوسرے سےمختلف ہوتی ہیں،لہٰذا موازنہ کرنے کی بجائے ان کی اپنی خُوبیوں،صلاحیتوں اور کام یابیوں کو سراہا جائےاوران کے ہر سوال کا تسلّی بخش جواب دیں۔نیز، موبائل فونز ہاتھ میں تھمانے کی بجائے جسمانی سرگرمیوں کی جانب راغب کریں، تاکہ ان کی ذہنی استعداد بہتر ہو۔

س:خودکُش بم باروں، فدائین کے مائنڈ سیٹ سے متعلق بھی کچھ بتائیں؟

ج:زیادہ تر خودکُش بم بار20سال سے کم عُمر ہوتے ہیں، جن کی مختلف طریقوں سے ذہن سازی کی جاتی ہے۔ جو اعداد وشمار ہمارے پاس موجود ہیں، ان کے مطابق خودکُش حملوں میں وہی بچّے استعمال ہوئے،جن کے گھر کا ماحول اچھا نہیں تھا، والدین سے تعلقات خراب تھے، وسائل کم تھے یا وہ مختلف قسم کے مسائل سے دوچار تھے۔

س:پاکستان میں ذہنی صحت ایک متنازع اور نظر انداز کیا جانے والا مسئلہ ہے، اس کے حل کے لیے کیا اقدامات ہوسکتے ہیں؟

ج:اس وقت تو سب سے اہم، ہر سطح تک شعور اُجاگر کرنا ہے، جس کے لیے خاص طور پر الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا بہترین کردار ادا کر سکتا ہے۔علاوہ ازیں،حکومت دیگر مسائل سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ ذہنی صحت کی طرف بھی خصوصی توجّہ دے،خودکُشی کی روک تھام کے لیے مؤثر حکمتِ عملی تشکیل دی جائے۔ نیز، اسکولز، کالجزکی سطح پر بھی ماہرینِ نفسیات کی خدمات حاصل کی جائیں۔

س:’’ورلڈ مینٹل ہیلتھ ڈے‘‘ کی مناسبت سے کوئی پیغام دینا چاہیں گی؟

ج:صرف یہی پیغام دینا چاہوں گی کہ سوشل میڈیا سے ہٹ کر اپنی سوشل لائف پر بھی توجّہ دیں۔ ترتیب کے ساتھ متوازن زندگی گزاریں، اپنے مسائل پر بات کریں، انہیں چُھپائیں نہیں۔ایک دوسرے کے لیے آسانیاں پیدا کریں ، ایک دوسرے کو سُنیں اوریہ بات گرہ سے باندھ لیں کہ انفرادی طور پر گھروں کا اچھا، پُرسکون ماحول ہی ایک صحت مند معاشرہ تشکیل دیتا ہے۔