برکتیں اٹھ گئیں۔ رحمتیں روٹھ گئیں

October 06, 2019

’’ہر طعن آمیز اشارتیں کرنے والے چغل خور کی خرابی ہے Oجو مال جمع کرتا ہے اور اس کو گن گن کر رکھتا ہےO اور خیال کرتا ہے کہ اس کا مال ہمیشہ کی زندگی کا موجب ہوگاO ہر گز نہیں وہ ضرور حُطَمہ میں ڈالا جائے گاO اور تم کیا سمجھے کہ حطمہ کیا ہےO وہ خدا کی بھڑکائی ہوئی آگ ہےO جو دلوں پر جا لپٹے گیO اور وہ اس میں بند کر دیے جائیں گےO یعنی (آگ کے) لمبے لمبے ستونوں میںO‘‘ (سورۃ الھمزہ)

آج اتوار ہے۔ میں تو بار بار یاد دلاتا ہوں۔ معلوم نہیں آپ کو یا آپ کے بیٹوں، بیٹیوں، پوتوں، پوتیوں، نواسوں، نواسیوں کو فرصت بھی ہوتی ہے ایک دوسرے سے باتیں کرنے کی۔ آپ نے تو ایک لمبی چپ سادھ رکھی ہے۔ بتاتے ہی نہیں کہ آپس میں کیا باتیں ہوئیں۔ ایک دو گھنٹے کے لئے مل بیٹھے۔ اسمارٹ فون کو ایک طرف رکھ دیا۔ ٹی وی کو بھی آف رکھا۔ ناشتے پر ملے یا دوپہر کے کھانے پر۔ کبھی فرصت ملے تو ضرور مطلع کیجئے گا۔

میں اس وقت سخت تشویش میں مبتلا ہوں۔ رشتے بکھر رہے ہیں۔ روایات خاک بسر ہیں۔ اقدار پامال ہو رہی ہیں۔ خود غرضی زوروں پر ہے۔ ہوسِ زر نے ہم سب کو نفسیاتی مریض بنا دیا ہے۔ ماں باپ جیسی مقدس ہستیوں کو بھی نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ سفاک بیٹے مائوں کو بھی گولیاں مار کر ہلاک کر رہے ہیں، چند روپوں کی خاطر، یا کسی کچے مکان کے لئے۔ غریب طبقوں میں بھی یہ بھیانک المیے دیکھنے اور سننے میں آرہے ہیں۔ امراء کی پُرشکوہ بستیوں میں بھی یہ ہو رہا ہے۔ بڑے بڑے محلات میں بوڑھے ماں باپ اکیلے اپنے ملازمین کے رحم و کرم پر ہیں۔ بیٹے ڈالر کی تلاش میں امریکہ جا بسے ہیں یا آسٹریلیا میں پُرسکون زندگی گزار رہے ہیں۔ سگے بھائیوں سے بدسلوکی کی جا رہی ہے۔ بہنوں کو اکیلا چھوڑ دیا گیا ہے۔ سب سے بڑا روپیہ ہے۔

بعض افراد بہت زیادہ دولت مند ہو گئے ہیں۔ مملکت قلاش ہو رہی ہے۔ ادارے اربوں روپے اپنی طرف کھینچ رہے ہیں۔ بہنوں بیٹیوں کے سروں سے چادریں اتر رہی ہیں۔ ہم سسٹم نہیں بنا سکے۔ انگریز جو سسٹم دے گئے تھے وہ ہم نے بتدریج مال کے لالچ میں ختم کر دیا ہے۔ سب نان سسٹم کو فروغ دے رہے ہیں کیونکہ ذاتی فائدہ اسی میں ہے۔ وہ روایتی خاندان جو روپے اور روایت کے درمیان توازن رکھتے تھے، جنہوں نے پاکستان کے قیام کے فوراً بعد افراد کو روزگار اور مملکت کو زرمبادلہ فراہم کیا اب خودرو جھاڑیوں کی طرح اگتے نئے ارب پتی خاندانوں کے پیچھے کہیں دب کر رہ گئے ہیں۔ رشوت خور انکم ٹیکس، کسٹم افسروں کی کوکھ سے جنم لینے والی نئی کمپنیاں صنعتی اُفق پر غالب آگئی ہیں۔ سرمایہ دار، زمیندار، جاگیردار پیچھے رہ گئے ہیں۔ ٹھیکیداروں نے صنعت و تجارت کی ساری گدیاں سنبھال لی ہیں۔ مذہبی ادارے، بیورو کریسی، ادب۔ ثقافت، ڈرامے۔ موسیقی، کھیل سب ٹھیکے پر دیے جا رہے ہیں۔ شارٹ کٹ عروج پر ہے۔ جگاڑ سکہ رائج الوقت ہے۔ پرانے رئوسا اپنے متعلقین، ملازمین کا خیال رکھتے تھے۔ انہیں انسان سمجھتے تھے۔ ان کی ضروریات پوری کرنا اپنی ذمہ داری خیال کرتے تھے۔ اب تو برسوں نمک خواری کرنے والے کو پلک جھپکتے میں ایک ایس ایم ایس سے فارغ کر دیا جاتا ہے۔ اب تمہاری خدمات کی ضرورت نہیں رہی۔ یہ نہیں سوچا جاتا کہ اس کی ایک فیملی ہے، بچے ہیں، ان کی ضروریات ہیں، یہ سہارا ٹوٹ جائے گا تو وہ کیسے سانس لے سکے گا۔

محنت کشوں اور غربا کے حقوق کے لئے آواز بلند کرنے والی ٹریڈ یونینیں ختم ہو گئی ہیں۔ کارکنوں کے مقدمات مفت لڑنے والے قانونی ماہرین منوں مٹی تلے سو رہے ہیں۔ قانون صرف کمزور پر لاگو ہوتا ہے۔ ناجائز طریقوں سے اشرفیوں اور ہیرے جواہرات میں کھیلنے والے قانون سے بالاتر ہیں۔ پولیس آفیسر انہیں سلام کرنے ان کے ڈیروں پر، حویلیوں پر حاضری دیتے ہیں۔

نیب، آمدنی سے زیادہ اثاثے رکھنے والوں کے خلاف ایکشن تو لے رہا ہے مگر اس کی کارروائیاں اقدار اور روایات واپس نہیں لا سکتی ہیں اور نہ ہی یہ اس کے مقاصد میں شامل ہے۔

ہم نے آزاد ہونے کے بعد روایات، اقدار، اصولوں اور انصاف سے بھی آزادی حاصل کرلی ہے۔ ایسا ماحول تشکیل دے دیا ہے کہ قانون کے دائرے میں رہ کر کاروبار کرنے والوں کے کام میں برکت نہیں ہوتی۔ غیر قانونی طریقِ کار اختیار کرنے والوں کا کاروبار خوب پھلتا پھولتا ہے۔ غیر دستاویزی معیشت باقاعدہ قانونی معیشت سے کہیں زیادہ بڑی ہے۔

کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ یہ افراتفری، طوائف الملوکی اس لئے تو نہیں ہے کہ بے گناہوں کو پھانسیاں دی گئیں۔ کمزوروں کو ہلاک کیا گیا۔ مائوں کی آنکھ کے تارے لاپتا کیے گئے۔ دہشت گردی سے مارے جانے والے بھائی بہنوں بزرگوں کے لواحقین کی خبر گیری نہیں کی گئی۔ پاکستان میں اس وقت اکثر ملکوں سے زیادہ بیوائیں، یتیم، معذور اور اپاہج موجود ہیں۔ مملکت ان کی دیکھ بھال نہیں کرتی۔ اٹھتے بیٹھتے ان کے دلوں سے بددُعائیں نکلتی ہیں۔

مجبوروں، بے کسوں کی سسکیاں، آہیں فلک پر جا رہی ہیں۔ ہمارے بازاروں سے برکت اٹھ گئی ہے۔ کھیتوں کھلیانوں سے رحمتیں روٹھ گئی ہیں۔ آفریں ہے ان افراد پر، خاندانوں پر، اداروں پر، جو اب بھی دل میں خوفِ خدا رکھتے ہیں۔ رزق حلال کے حصول کی کوشش کرتے ہیں۔ مملکت کے محصولات بھی ادا کرتے ہیں۔ اپنے متعلقین اور ملازمین کی ضروریات بھی پوری کرتے ہیں۔ ان کی بدولت ہی ہم آگے بڑھ رہے ہیں۔