عراق کے بعد اب لبنان میں بھی ہنگامے

October 23, 2019

عراق کے بعد گزشتہ ہفتے لبنان بھی شدید ہنگاموں کی زد میں رہا ۔ مظاہرین نے لبنان کی حکومت پر بدعنوانی اور بدانتظامی کے الزامات عائد کئے۔ عراق پر نظر ڈالنے سے پہلے کچھ لبنان کی بات کرتے ہیں۔ویسے تو مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک اس برس چھوٹے بڑے مظاہروں کا شکار رہے لیکن لبنان میں گزشتہ ہفتے تقریباً ہر روز لاکھوں مظاہرین سڑک پر آتے رہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اس احتجاج کی ایک وجہ صرف یہ تھی کہ حکومت نے واٹس ایپ اور پیغام رسانی کی دیگر خدمات پر نہ صرف محصول عائد کردیئے تھے، بل کہ اس منصوبے کا اعلان کیاتھا۔

لبنان کی مخلوط حکومت نے مظاہروں کے بعد اقتصادی اصلاحات کا اعلان بھی کیا، مگر اب مظاہرین وسیع سے وسیع تر اصلاحات کے مطالبے کررہے ہیں۔ لبنان کی یہ صورت حال پاکستان جیسے دیگر ممالک کے لئے بھی لمحہ فکریہ ہے، کیوں کہ لبنان میں بھی پاکستان کی طرح معیشت میں بڑھوتری کی سطح کم ہوتی گئی اور اب شرح نمو بہت سست ہے، پھر پاکستان ہی کی طرح لبنان بھی بے تحاشہ قرضوں کے چنگل میں پھنسا ہوا ہے۔

عراق میں 2003کے امریکی قبضے کے بعدجو سیاسی نظام متعارف کرایا گیا اس میں مذہبی و نسلی بنیادوں پر اعلیٰ عہدے تقسیم کرنے کی روایت شروع کی گئی

لبنان میں بھی پاکستان کی طرح اخراجات میں کمی کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ،جس سے ترقیاتی کام متاثر ہورہے ہیں، اس طرح جب کسی بھی ملک میں اخراجات کم کرکے ترقی کا عمل روکا جاتا ہے تو عوام میں اشتعال پھیلتا ہے اور لوگ سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ لبنان میں بھی بجلی بار بار معطل ہورہی ہے اور سڑکوں پر کچرے کے ڈھیر لگے ہیں، بل کہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اب تو یہ روزمرہ کا معمول بن چکا ہے۔اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے لبنان کے وزیراعظم سعد حریری اقتصادی اصلاحات کی کوششیں کررہے ہیں۔

پچاس سالہ سعد حریری پچھلے تین سال سے لبنان کے وزیراعظم ہیں۔ اس سے قبل وہ دس سال پہلے 2009سے 2011تک بھی برسراقتدار رہ چکے ہیں۔ یاد رہے کہ ان کے والد رفیق حریری کو 2005میں حملہ کرکے قتل کردیا گیا تھا۔ وہ ایک کاروباری آدمی تھے جو خود مجموعی طور پر دس سال لبنان کے وزیراعظم رہ چکے تھے۔ یعنی پچھلے چھ سال 1992سے 1998تک اور پھر چار سال 2000 سے 2004 تک۔

رفیق حریری ہی وہ رہ نما تھے جنہوں نے لبنان میں 15سالہ خانہ جنگی کے خاتمے کے لئے ہونے والے طائف معاہدے میں اہم کردار ادا کیا تھا، اس طرح 1975میں شروع ہونے والی خانہ جنگی 1990 میں اختتام کو پہنچی تھی، جس میں اندازاً ایک لاکھ لوگ مارے گئے تھے اور دس لاکھ سے زیادہ بے گھر ہوئے تھے۔اب سعد حریری کی جماعت کا نام تیار المستقبل یا فیوچر موومنٹ ہے، جو انہوں نے 2007میں قائم کی تھی۔ اب یہ ایک مخلوط حکومت میں شامل ہے اور سعد حریری نے اپنے اتحادیوں سے کہا ہے کہ وہ اقتصادی اصلاحات کی حمایت کریں۔

یہ اصلاحات ہیں کیا؟ وہی معمول کی باتیں جو بین الاقوامی مالیاتی ادارے غریب ممالک پر تھوپتے ہیں۔ مثلاً سرکاری اداروں کی نج کاری اور اخراجات میں کٹوتی وغیرہ۔ اس کے علاوہ بجٹ میں خسارے کی کمی بھی شامل ہوتی ہے۔ویسے تو لبنان ایک پارلیمانی جمہوریت ہے، مگر اس میں اعلیٰ ترین عہدے مختلف مذاہب کے نمائندوں کے لئے مخصوص ہیں۔ مثلاً صدر کا عہدہ ہمیشہ مارونی مسیحی یا مہرونائٹ کرسچن کے پاس ہوتا ہے۔ مارونی مسیحی لبنان کی مجموعی ساٹھ لاکھ کی آبادی میں چوتھائی ہیں یعنی تقریباً پندرہ لاکھ۔ لبنان میں وزیراعظم کا عہدہ ہمیشہ ایک سنی مسلمان کو ملتا ہے اور اسپیکر کا عہدہ شیعہ مسلم کو۔

لبنان میں سنی اور شیعہ دونوں ملا کر آبادی کا تقریباً پچپن فی صد ہیں، جن میں سنی اور شیعہ کی تعداد تقریباً برابر ہے۔مجموعی مسیحی آبادی کا تناسب چالیس فیصد ہے۔ جن میں اکثریت مارونی مسیحیوں کی ہے۔ اب حکومت مخالف مظاہروں میں ہر مذہب کے لوگ شامل ہیں۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اب مظاہرے بیروت کے علاوہ دیگر شہروں میں بھی پھیل رہے ہیں۔

معاشی بدحالی سے بچنے کے لئے لبنانی حکومت ادھر ادھر ہاتھ پھیلا رہی ہے اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے تقریباً گیارہ ارب ڈالر کے حصول کے لئے کوشاں ہے۔ اگر معاشی اصلاحات نہ کی گئیں تو اس برس کے آخر تک لبنان کا قرضہ مجموعی قومی پیداوار کا ڈیڑھ سو فی صد ہونے کا امکان ہے۔

اب ایک نظر عراق پر ڈالتے ہیں جہاں اکتوبر کے شروع میں مظاہروں کا آغاز ہوا،بعدازاںبغداد میں کرفیو بھی نافذ کرنا پڑا تھا ، ساتھ ہی سوشل میڈیا پر بھی پابندی لگادی گئی تھی، ان مظاہروں میں کوئی درجن بھر شہری ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوگئے تھے، وہاں بھی عراق کے وزیراعظم عبدالمہدی نے قابو پانے کی کوشش کی۔

عراق میں بھی 2003کے امریکی قبضے کے بعدجو سیاسی نظام متعارف کرایا گیا اس میں مذہبی و نسلی بنیادوں پر اعلیٰ عہدے تقسیم کرنے کی روایت شروع کی گئی۔ اس طرح شیعہ عرب ،سنی عرب اور کردوں میں اعلیٰ عہدے بانٹ دیئے گئے۔ وہاں بھی پارلیمانی نظام ہے۔ اس وقت عراق کی آبادی تقریباً چار کروڑ ہے جس میں پچانوے فی صد مسلمان ہیں یعنی پچپن فی صد شیعہ اور چالیس فیصد سنی، جن میں آدھے یعنی تقریباً بیس فی صد کرد ہیں جو شافعی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔

اب روایتی طور پر عراق کا صدر کوئی کرد رہ نما ہوتاہے جب کہ وزیراعظم شیعہ مسلم، جب کہ اسپیکر سنی عرب ہوتاہے۔ گزشتہ انتخابات مئی 2018میں ہوئے تھے۔ ان انتخابات میں شیعہ رہ نما مقتدی الصدر اور عراقی کمیونسٹ پارٹی کے اتحاد ’’سائروں ‘‘ نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی تھیں، جس نے بالا آخر وزیراعظم نوری المالکی کے آٹھ سالہ اقتدار کے بعد برسراقتدار آنے والے حیدر العبادی کے چار سالہ اقتدار کا خاتمہ کردیا۔

عبدالمہدی ایک سال سے وزیراعظم ہیں، مگر عوام میں شدید نامقبول ہیں ۔مظاہروں اور احتجاج کی بڑی وجہ بے روزگاری اور عام بنیادی سہولتوں کی عدم موجودگی ہے، ساتھ ہی بدعنوانی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے جس کا مقابلہ کرنے کے لئے حکومت نے انٹرنیٹ بند کردیا، جس سے معیشت مزید متاثر ہوئی۔ اکتوبر کے وسط تک مظاہروں اور فسادات میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد پچاس تک پہنچ گئی۔

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق یہ تعداد سو سے اوپر جاچکی ہے۔ اب عراقی حکومت مظاہرین کو دبانے کے لئے وہی روایتی ’’قومی سلامتی‘‘ کا بیانیہ سامنے لارہی ہے کہ احتجاج کی آڑ میں قومی سلامتی کو نقصان نہ پہنچایا جائے۔

پاکستان، عراق اور لبنان میں کئی باتیں مشترک نظر آتی ہیں۔ تینوں ممالک کے عوام بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں اور حکومت وقت ان کو طفل تسلیاں دے رہی ہے۔ تینوں ممالک میں مخلوط حکومتیں ہیں جو قومی سلامتی کا راگ الاپ کر عوام کو سلانے کی کوشش کررہی ہیں۔ پاکستان اور عراق دونوں کے وزیراعظم پچھلے سال ہی اقتدار میں آئے ہیں مگر کوئی واضح معاشی پالیسی اپنانے سے قاصر رہے ہیں۔

عراق اور لبنان دونوں احتجاج اور مظاہروں کی زد میں آچکے ہیں۔ اب ان کو روکنے کے لئے حکومتوں کو واضح اقتصادی منصوبے بنانے ہیں جو موجودہ حالات میں نظر نہیں آرہے ۔اصل میں جو ممالک بھی قومی سلامتی کے نام پر بے تحاشہ اخراجات غیرپیداواری مد میں خرچ کرتے ہیں، وہاں ترقیاتی کام متاثر ہوتے ہیں اور عوام میں بدحالی پھیلتی ہے۔

عراق اور لبنان کے حالات پاکستانی حکومت کے لئے ایک طرح کا اشارہ ہیں اس سے پہلے کہ عوام کا پیمانہ صبر لبریز ہوجائے عوام کو روزگار اور بنیادی سہولتیں فراہم کی جائیں ورنہ عوام کا مزاج بگڑتے دیر نہیں لگے گی۔