’بایو گیس‘ ایک خزانہ ہے

October 28, 2019

عزیر احمد

بایو گیس دراصل جانوروں کے فضلے یا کوڑے کرکٹ سے توانائی کا حصول ہے۔ میتھین گیس کاربن ڈائی آکسائیڈ اور ہائیڈروجن اور دوسری گیسوں کا مرکب ہے، جس کا اہم جزو میتھین ہے۔ اس گیس کی کوئی بو نہیں، اور دھواں پیدا کئے بغیر جلتی ہے۔بائیو گیس پیدا کرنے کے لئے کسی بہت بڑی ٹیکنالوجی یا قیمتی خام مال کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ نامیانی کچرے سے پیدا ہوتی ہے، جو عام طور پر ضائع کر دیا جاتا ہے۔

نامیاتی کچرے سے مراد ایسی فالتو اور غیر ضروری اشیاء ہیں جو جلد گل سڑ جاتی ہیں۔ جانوروں کا گوبر، بچی کھچی غذا، غذائی کچرا اور ایسی ہی بے کار اور فالتو چیزیں جنہیں ہم روزانہ کچرے میں پھینک دیتے ہیں، قیمتی توانائی حاصل کرنےکے لئے استعمال کی جا سکتی ہیں۔

بایو گیس پلانٹ میں عام طور پر جانوروں کا گوبر، گلے سڑے پودے، گھاس، پتے، سبزی منڈی کی گلی سڑی اور ضائع شدہ سبزیاں اور پھل، قصابوں اور ذبیحہ خانوں سے حاصل کردہ ضائع شدہ گوشت اور باقیات، ہوٹلوں اور شادی ہالوں میں بچ جانے والا کھانا، مرغی خانوں کی ضائع شدہ خوراک، مرغیوں کی بیٹ وغیرہ بطور خام مال استعمال کیا جاتا ہے۔

گھر کے ضائع ہونے والے سالن، دودھ، سبزی اور پھلوں کے چھلکوں وغیرہ کو استعمال کر کےبھی گیس تیار کی جا سکتی ہے۔ اس پر زیادہ لاگت نہیں آتی اور استعمال میں بھی کم خرچ ہوتی ہے۔ بائیو گیس پلانٹ لگانے کے لئے 16 اسکوائر فٹ جگہ اور 10 سے 12 دن درکار ہوتے ہیں، جبکہ ایک پلانٹ کی تکمیل پر تقریباً 80,000 سے ایک لاکھ روپے خرچ ہوتےہے۔

بایو گیس کا پروجیکٹ ان علاقوں میں شروع کیا جاتا ہے جہاں گیس کی قلت ہو۔گزشتہ سال پہلے اس بایوگیس کا ایک تجربہ پنجاب میںایک شخص نے اپنی مدد آپ کے تحت بجلی اور گیس پیدا کرنے کی کوشش کی تھی، جس میں وہ کامیاب بھی ہوا تھا۔

اس نے بایو گیس کے ذریعے ناصرف اپنے گھر کا چولہا جلایا، بلکہ اس کے ذریعے گیس سے چلنے والے جنریٹر سے بجلی بھی پیدا کی۔ اس کے لیے انہوں نے ایک مِنی بائیو گیس پلانٹ تیار کیا تھا۔جو ایک بڑا کارنامہ تھا۔بائیو گیس، نامیاتی مرکبات سے آکسیجن کی غیر موجودگی میں پیدا ہونے والی گیس ہے، جو استعمال میں معدنی گیس کی خصوصیات رکھتی ہے۔

یہ گیس کئی دہائیوں سے پاکستان سمیت دنیا بھر میں زیرِ استعمال ہورہی ہے۔ وقت کے ساتھ باقی دنیا میں اس کی پیداوار کو فوقیت ملی اور اس کے طریقوں میں بھی جدت آئی۔

پاکستان میں بجلی کا زیادہ تر حصول ایسے بجلی گھروں سے کیا جا رہا ہے، جو تیل پر چلتے ہیں اور ملکی آمدن کا بڑا حصہ تیل کی درآمد پر خرچ کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ منگلا اور تربیلا جیسے سستی بجلی کے ڈیم تو ہیں، لیکن اس بجلی کو دور دراز کے علاقوں میں گرڈ کے ذریعے پہنچانا اس طریقے کو مہنگا کر دیتا ہے۔

اسی طرح بلوچستان اور سندھ میں موجود کوئلے کے وسیع ذخائر کو بجلی کی ممکنہ پیداوار کا اہم ذریعہ تصور کیا جاتا ہے۔ پاکستان کی طرف سے بجلی پیدا کرنے کے لیے کوئلہ جلانا ایک ماحول دوست رویہ ثابت نہیں ہو گا۔

ہینز فضلے کو کھاد میں بدلنے کے کام کا آغاز پہلے ہی کرچکے تھے اور عنقریب اس سے بجلی کی پیداوار بھی شروع کریں گے۔ اگلے پانچ سالوں میں فضلے سے بجلی بنانے کی صنعت چار گناپھیل چکی ہوگی۔ ، لیکن امریکی سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ یہ تو ایک خزانہ ہے، جس سے سالانہ اربوں ڈالر کمائے جاسکتے ہیں۔

یو ایس جیولوجیکل سروے کے لئے کام کرنے والی کیتھلین سمتھ اور ان کی ٹیم نے اس سے پلاٹینیم، چاندی اور سونا دریافت کیا ۔ سونے اور چاندی جیسی دھاتوں کے علاوہ موبائل فونز اور کمپیوٹرز کی صنعت میں استعمال ہونے والا تانبا اور ونیڈیم بھی فضلے سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔

کیتھلین سمتھ اور ان کی ٹیم کی یہ تحقیق امریکن کیمیکل سوسائٹی کی 249ویں سالانہ میٹنگ میں پیش کی گئی تھی اور اس نے دنیا بھر کے سائنسدانوں کی توجہ حاصل کی تھی۔ برطانیہ کی پہلی فضلے اور غذائی کچرے سے چلنے والی 'بایو بس بھی سڑکوں پر چلیں۔

ماہرین کے مطابق بایو بس پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے ایک پائیدار ایندھن ثابت ہو سکتی ہے۔ اس سے چلنے والی بایو بس متعارف کروانے والی توانائی کی فرم جینیکو ویسیکس واٹر اینڈ سیوریج کا ایک ادارہ ہے، جو گزشتہ چندسالوں سے ایک ایسا نظام تشکیل دینے پر کام کر رہا ہے،جس کے ذریعےبچے کچے کھانوں کو صاف اور قابل استعمال توانائی میں تبدیل کیا جاسکے۔

اگرچہ بایو گیس کوئی نئی چیز نہیں ہے،اس کا استعمال دنیا بھر میں صدیوں پہلے بھی کیا جاتا رہا ہے، بالخصوص برطانیہ میں بجلی آنے سے پہلے اس کو زیر زمین نکاسی کے پائپوں سے نکال کر توانائی کی ضرورت پوری کی جاتی تھی۔