تو نسہ انڈسٹریل اسٹیٹ

November 01, 2019

ایک سمجھدار دوست نے کہا: لوگوں کا ٹارگٹ وزیراعظم ہوا کرتا تھا، وزیراعلیٰ نہیں۔ وہ نواز شریف کے خلاف لکھتے تھے، شہباز شریف کو کچھ نہیں کہتے تھے۔ اب معاملہ الٹ گیا ہے۔ توپوں کا رخ عمران خان کے بجائے عثمان بزدار کی طرف ہے۔ یہ کیا معاملہ ہے؟ غور کیا تو بات درست لگی۔ سوچا کہ آخر لاہور کا میڈیا عثمان بزدار کے خلاف یک زبان کیوں ہے۔

کچھ لوگ کہتے ہیں، وہ نا اہل ہیں۔ واہ واہ۔ کیا باقی اہل ہیں؟ چلیے یہ دیکھتے ہیں عثمان بزدار کے بعد کس کے کاندھے کے پاس ہما کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ سنائی دے سکتی ہے۔

پہلا نام جس نوجوان کا ہے وہ دو بھائی ہیں، ایک مرکز اور ایک صوبے میں ہے۔ ان کی کئی شوگر ملیں ہیں جو کچھ زیادہ پرانی نہیں۔ سنا ہے نیب اُس سرمائے کی منی ٹریل پوچھتی پھرتی ہے جس سے وہ ملیں لگائی گئیں۔ دو امیدوار اور بھی تھے، بزعمِ خویش تو ابھی تک ہیں۔

دونوں نیب کے کیسز میں نوے دن سے زیادہ جیل میں گزار آئے ہیں۔ چوہدری پرویز الٰہی کا نامِ نامی بھی گونج رہا ہے۔ (ق)لیگ ترجمان کامل علی آغا انہیں وقت کی ضرورت قرار دے کر پیش کر رہے ہیں۔ اُدھر عمران خان ہیں کہ اہلِ گجرات کی آہ و فغاں سے پریشان ہیں۔ وہ پورا پنجاب چوہدریوں کے حوالے کیسے کر سکتے ہیں۔

سالہا سال کے بعد شہر میں کوئی مضافات سے آیا ہے یعنی رورل پنجاب سے کوئی وزیراعلیٰ بنایا گیا ہے۔ سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہوا ہے کہ پہلے پنجاب کے ترقیاتی بجٹ کا تیس فیصد حصہ صرف لاہور پر خرچ ہوتا تھا اب پورے پنجاب پر ہو رہا ہے۔

شہباز شریف کے زمانے میں عام آدمی کی وزیراعلیٰ تک رسائی مشکل نہیں بلکہ ناممکن تھی۔ ایم پی ایز مہینوں خواہش کرتے تھے مگر پوری نہیں ہو پاتی تھی۔ مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہے کہ پیر کرم شاہ ؒکے صاحبزادے پیر امین الحسنات شاہ ایک دنیا جن کے جوتے جوڑتی ہے، اس وقت مذہبی امور کے وزیر مملکت تھے۔ وہ شہباز شریف سے ملاقات کے لئے اسلام آباد سے لاہور پہنچے۔ طےشدہ وقت سے دس منٹ لیٹ ہو گئے۔

انہیں بٹھا دیا گیا جب دو گھنٹے گزر گئے تو اُن کے ساتھ موجود علامہ مسعود عالم الازہری نے مجھے فون کیا کہ شعیب بن عزیز تمہارے دوست ہیں، اُن کی وساطت سے یہ تو پتا کردو کہ شہباز شریف پیر صاحب سے کتنے بجے ملیں گے۔ پتا کرایا تو معلوم ہوا کہ شہباز پرواز کر چکا ہے۔

یعنی وزیراعلیٰ اب کل واپس دفتر آئیں گے۔ یہ تو شہباز شریف کا وفاقی وزیروں کے ساتھ رویہ تھا۔ دوسروں کے ساتھ کیسا ہوگا۔ اس کے برعکس عثمان بزدار تک ہر ایم پی اے کی رسائی ہے۔ وہ سب سے ملتے ہیں، توجہ سے مسائل سنتے ہیں اور حل تلاش کرتے ہیں۔

کرپشن کے معاملہ میں بھی عثمان بزدار کا دامن صاف ہے۔ الزام تو کئی لگائے گئے مگر کوئی ایک روپے کی کرپشن بھی ثابت نہیں کر سکا۔ انہوں نے کسی رشتہ دار کو دوسو گز کا پلاٹ بھی نہیں دیا۔

دوسری طرف شہباز شریف کے دور میں رمضان شوگر مل کے اردگرد اٹھائیس سو ایکڑ زمین خریدی گئی۔ جاتی امرا بھی بتیس سو ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے۔ بہادر شاہ ظفر کا ایک مصرع یاد آگیا ہے، انتہائی معذرت کے ساتھ۔ ’’دوگز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں‘‘۔

یہ جھوٹ بھی مسلسل بولا جارہا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب کو نہ ہٹانے پر مرکزی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ میں دراڑ پڑ گئی ہے۔ یہاں تک پروپیگنڈا کیا گیا ہے کہ حکومت پر عثمان بزدار کے معاملے میں دبائو بڑھانے کے لئے اسٹیبلشمنٹ کسی حد تک مولانا فضل الرحمٰن کا ساتھ دے رہی ہے۔

میں خود اِس پروپیگنڈے کا شکار ہوا مگر زیادہ دیر نہیں۔ گہرائی میں دیکھا تو معاملہ لاہور تک محدود تھا۔ کچھ لوگوں کے ذاتی معاملات تھے۔

حقیقت کچھ اور تھی۔ بھلا اسٹیبلشمنٹ کو عثمان بزدار کے ساتھ کیا مسئلہ ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کبھی کسی کی اچھی تجویز کو رد نہیں کیا پھر وہ بہت سارے معاملات میں ڈائریکٹ عمران خان سے ہدایات لیتے ہیں۔

اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ پنجاب کی بیورو کریسی کا ایک بڑا حصہ عثمان بزدار کے خلاف ہے مگر ان کی مخالفت ذاتی طور پر عثمان بزدار سے نہیں، عمران خان اور پی ٹی آئی کے ساتھ ہے۔

وہ لوگ سمجھتے ہیں کہ عمران خان کامیاب ہو گیا تو انہیں زندگی صرف تنخواہ پر گزارنا پڑے گی۔ وہ اِس تصور سے بھی کانپ اٹھتے ہیں (وزیراعلیٰ نے تنخواہیں ڈبل کردی ہیں مگر پھر بھی)۔ اسی بات سے اندازہ لگائیے کہ عثمان بزدار تونسہ میں انڈسٹریل زون بنانا چاہتے ہیں۔ کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں مگر بیوروکریسی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔

تونسہ جیسے پسماندہ علاقے میں انڈسٹریل زون بن گیا تو کہیں اور تبدیلی آئے نہ آئے وہاں ضرور آ جائے گی۔ معاشی ترقی کا دور شروع ہو جائے گا۔

ویرانے روشنیوں سے بھر جائیں گے مگر بیورو کریسی ہے کہ سو بہانے تراش لیتی ہے۔ کبھی کہتی ہے کہ اس کے قرب و جوار میں کوئی کاروباری شہر نہیں۔ کبھی کہتی ہے وہاں ہنر مند لیبر نہیں ملے گی وغیرہ وغیرہ۔

بھئی صوابی میں گدون انڈسٹریل اسٹیٹ بن سکتی ہے۔ ہری پور میں حطار انڈسٹریل اسٹیٹ بن سکتی ہے تو تونسہ انڈسٹریل اسٹیٹ کیوں نہیں بن سکتی۔

میرے خیال میں حکومت پنجاب میں جو خرابیاں ہیں ان کی ذمہ دار ی وفاق پر عائد ہوتی ہے۔ وہاں سے کئی ایسے حکم نامے جاری ہو جاتے ہیں جو تکلیف دہ ثابت ہوتے ہیں۔

وزیراعظم سیکرٹریٹ میں بیٹھے ہوئوں کی اکثریت زمینی حقائق لاعلم ہے۔ جیسے وہاں سے ایک شخص کو وزیراعلیٰ کا ترجمان بنا کر بھیج دیا گیا اُس کے ماضی کے متعلق کوئی کچھ جانتا ہی نہیں تھا۔ پتا نہیں ہماری ایجنسیوں نے اس سے کیوں صرفِ نظر کیا۔

بہرحال اگر عمران خان عثمان بزدار کو فری ہینڈ دیں تو وہ پنجاب کو نئے پنجاب میں بدل سکتے ہیں۔ چڑیا گھر کے گرد و نواح میں کھلتے ہوئے پھولوں سے خوشبو بھی آ سکتی ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)