فلسفہ اقبال اور آج کا نوجوان

November 03, 2019

کسی بھی تحریک ، انقلاب یازمانے کو نئی راہ پر ڈالنے میں اگر نوجوان ہر اوّل دستہ ہوں تو پھر تاریخ کو بدلنے سے کوئی نہیں روک سکتا ، اسی لئے جب تقسیم ہند اورنئی سرزمین کی جستجو میں مسلمانان ہند صف بندی کرنے لگے تو علامہ محمد اقبال نے بھی اپنے خیالات کو نوجوانوں کے ذہنوں تک پہنچانے کی کوشش کی اور نوجوان نسل کیلئے اپنے افکار کی وہ شمعیں روشن کیں،جن کی روشنی میں نوجوانوں نے ایک نئے دور اورنئے سماج کی بنیاد رکھی۔ اقبال جانتے تھے کہ کسی بھی قوم کے جوانوں میں کسی بھی پیغام کو قبول کرنے کی نہ صرف صلاحیت ہوتی ہے بلکہ وہ اس پیغام کے مطابق اپنی زندگی گزارنے کیلئے کسی قسم کے سمجھوتے کو خاطر میں نہیں لاتے۔ دراصل علامہ محمد اقبال کو نوجوانوں پر کامل یقین تھا، اسی لئے وہ دعائیہ لہجے میں کہتے تھے ،

خرد کو غلامی سے آزاد کر

جوانوں کو پیروں کا استاد کر

انہیں بلا کا ادرا ک تھا کہ نوجوان نسل کے ہاتھ میں ہی مستقبل کی باگ ڈور ہے ، اگر اسے صحیح معنی میں مہذب، باصلاحیت، تعلیم یافتہ اور روشن خیال بنا دیا جائے تو ہی آنے والا کل تابناک ہو گا ورنہ اس قوم کو اندھیروں میں بھٹکنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ان کے دل ودماغ میں نوجوانوں کیلئے فکر تھی وہ ا س کا اظہار بارہا کرتے تھے، ساتھ ہی چاہتے تھے کہ ان کے اند ر بھی قوم کا درد اور احساس پیدا ہو ، جس کا اظہار انہوں نے یوں کیا،

ؔجوانوں کو سوز ِ جگر بخش دے

مرا عشق میری نظر بخش دے

اپنے اشعار و افکار کے ذریعے نوجوانوں کے شعور اور بیداری کیلئےشاعر مشرق نے جو کوششیں کیں، انکے نتیجے میں مسلما ن نوجوانوں پر ایسا سحر انگیز اثر ہوا کہ وہ ہمت، استقامت، حوصلے اور جوش ولولے کے ساتھ ایک اکائی بن کر الگ ریاست کے مطالبے کیلئے چٹان بن گئے اور ایسی جدوجہد کی کہ اپنے لئے ایک الگ وطن حاصل کرکے ہی سکون کا سانس لیا۔

اقبال ؒ اور شاہین

اقبال نے اپنے کئی اشعار میں مسلمان نوجوانوں کو شاہین سے تشبیہ دی۔ ان کی خواہش تھی کہ نوجوانوں میں شاہین جیسی صفات پیدا ہوں، وہ شاہین کی طرح بلند پرواز کریں یعنی ان کے مقاصد بلند ہوں، ان کی نگاہیں شاہین کی طرح بہت دور تک دیکھ سکتی ہوں، یعنی وہ دوراندیشی کی صفت کے ساتھ آنے والے حالات کا پہلے سے انداز ہ کرکے منصوبہ بندی کرنے کے قابل ہوں۔ نوجوان مثل شاہین اپنی محنت وکوشش پر انحصار کریں اور اللہ کی مدد و نصرت کی توقع کے ساتھ زندگی بسر کریںاور ہر وقت ذہن میں رکھیں کہ

شاہین کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا

پر دم ہے اگر تو، تو نہیں خطرہ ٔ افتاد

اقبالؒ اور آج کا نوجوان

آج اگر دیکھا جائے تو نوجوان نسل فکر اقبال سے دور مغربی تہذیب کی زیادہ دلدادہ ہے۔ اقبال کے شاہین اپنی منزل کو خودی کے راستوں پر کھوجنے کے بجائے کسی اور ہی سمت گامزن ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا حضرت علامہ محمد اقبال کی شاعری صرف اس دور کےنوجوانوں کیلئے تھی؟ ایسا نہیں ہے، اقبال کے افکار ہر نسل کیلئے مشعل راہ ہیں، آج کی نسل کیلئے بھی اور آنے والی نسلوں کیلئے بھی، کیونکہ اقبال نے کبھی نہیں چاہا کہ ہماری نسل مغرب کی تقلید کرےبلکہ وہ چاہتے تھے کہ ہم اپنے اسلاف کی زندگیوں کو اپنا آئیڈیل بنائیں۔ اقبال جانتے تھے کہ مغربی تہذیب کی ظاہری چمک دمک مادی ترقی کی طرف لے تو جاتی ہے لیکن روحانی اقدار کو پیچھے چھوڑ جاتی ہے جبکہ ہماری اسلامی تہذیب اور ہمارے اسلاف کی حیات انسانی بھلائی اور پائیدار روحانی ترقی کی راہیں دکھاتی ہے۔

اقبالؒ اور فلسفہ ٔ خودی

اقبال نے اپنے جو افکار و خیالات نوجوانوں تک پہنچائے ، ان میں فلسفہ ٔ خودی بہت اہم ہے،جسے اقبال نوجوان کی زندگی کا جزو لاینفک بنانا چاہتے تھے۔ فلسفہ ٔ خودی اتنا عمیق ہے کہ اس کی تشریح میں دفتر کے دفتر لکھے جاسکتےہیں اور آج بھی ا س کی تشریحات تشنگی کا شکار ہیں ، کیونکہ یہ فلسفہ زبانی جمع خرچ نہیں بلکہ حقیقی عمل کا متقاضی ہے۔ اقبال آج کے نوجوانوں کیلئے یہ بھی فرماگئے تھے،

خودی میں ڈوب جا غافل ، یہ سرِزندگی ہے

نکل کر حلقۂ شام و سحر سے جاوداں ہو جا

لیکن آج ہم صبح شام کے چکر میں الجھے ہوئے ہیں، کف افسوس مل رہے ہیں کہ ہماری قوم اقبال کی شاعری کو سمجھنے میں بدنصیب رہی ۔ اقبال کی روح تڑپا دینے والی شاعری کو ہم پس پشت ڈال چکے، ہم اپنے تعلیمی اداروں میں’’ لب پہ آتی ہے دعا ‘‘تو پڑھاتے ہیں لیکن اس کے معنی کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے سے نابلد ہیں۔ ہمیں خودی کے فلسفہ پر عمل کرنا چاہئے لیکن ہم خودی کو سمجھنے میں الجھے ہوئے ہیں اور جب تک ہم اس خودی کے فلسفے پر عمل نہیں کریں گے ، اپنے اندر شاہین جیسی صفات پیدا نہیں کرسکیںگے۔

اقبال کا یوم پیدائش

پاکستان کا خواب دیکھنے والے علامہ محمد اقبال 9 نومبر 1877ء (بمطابق 3 ذیقعدہ 1294ھ) کو سیالکوٹ میں شیخ نور محمد کے گھر پیدا ہوئے۔ ماں باپ نے نام محمد اقبال رکھا۔ انھوں نے برطانوی راج کے محکوم ہندوستانی مسلمانوں کی حالت زار کو عیاں کرنے میں گہری دلچسپی لی۔1922ء میں انہیں سر کے خطاب سے نوازا گیا۔1926ء میں اقبال پنجاب مجلس قانون ساز میں منتخب ہوئے اور آل انڈیا مسلم لیگ سے نزدیک تر ہو گئے۔ انھوں نے کانگریس اور ہندوؤں کی متعصبانہ سیاست کے خلاف مسلمانوں کیلئے آزاد وطن کی جدوجہد میں بھرپور حصہ لیا۔