بنانا ری پبلک

November 29, 2019

ولیم سڈنی پورٹر امریکی مصنف ہیں جو اوہینری کے قلمی نام سے مشہور ہوئے۔ ان کے افسانے اور ناول بیسویں صدی میں بہت مقبول ہوا کرتے تھے۔

اوہینری ایک زمانے میں مالی مشکلات کا شکار ہوگئے اور بینک ڈیفالٹر ہونے کے بعد امریکہ سے ہنڈراس فرار ہو گئے۔ ہنڈراس میں قیام کے دوران وہاں کے حالات دیکھ کر انہوں نے ایک ناول لکھا جس کا عنوان تھا ’’Cabbages and Kings‘‘۔

یہ ناول بھی بہت مشہور ہوا۔ اس ناول کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں پہلی بار ہنڈراس کے لئے ’’بنانا ری پبلک‘‘ کی اصطلاح استعمال کی گئی۔

سفارتکاری کی دنیا میں اس اصطلاح کو بہت پسند کیا گیا اور وہ ممالک جہاں قانون کی عملداری نہ ہونے کے برابر تھی انہیں ’’بنانا ری پبلک‘‘ کہا جانے لگا۔ ہمارے ہاں بھی کئی بار اس اصطلاح کی گونج سنائی دی۔

مثال کے طور پر جب ستمبر 2006ء میں جنرل پرویز مشرف اپنی کتاب ’’In The Line of Fire‘‘ کی تقریبِ رونمائی کے سلسلے میں امریکہ گئے ہوئے تھے تو پاکستان میں ان کے خلاف بغاوت کی افواہیں گردش کرنے لگیں۔

جنرل پرویز مشرف سے اس حوالے سے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا پاکستان ’’بنانا ری پبلک‘‘ نہیں۔

ہنڈراس اور گوئٹے مالا کیلے کی پیداوار کے اعتبار سے سرفہرست ہیں اور چونکہ یہ دونوں ملک ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے ہمسائے ہیں اس لئے امریکہ ہی اس پھل کا سب سے بڑا خریدار ہے۔

وسطی امریکہ کے ملک ہنڈراس نے 1838ء میں اسپین سے آزادی حاصل کی تو کیلے کی کاشت میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ بتایا جاتا ہے کہ امریکی بحری جہاز کا کپتان Lorenzo D Baker وہ پہلا شخص تھا جس نے جمیکا سے کیلے خرید کر بوسٹن میں متعارف کروائے۔ امریکہ میں یہ پھل اس قدر مقبول ہوا کہ بہت سے امریکی تاجر ہنڈراس اور گوئٹے مالا سے اسے خرید کر امریکہ کے مختلف شہروں میں بیچنے لگے۔

کیلے کی امریکہ میں مقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ یہ دیگر پھلوں کے مقابلے میں بہت سستا تھا۔ امریکی تاجر کئی گنا منافع کمانے لگے اور رفتہ رفتہ کیلے کی تجارت نے باقاعدہ ایک شعبے کی شکل اختیار کرلی۔

امریکی سرمایہ کاروں نے اس تجارت سے فائدہ اُٹھانے کے لئے ہنڈراس میں یونائیٹڈ فروٹ کمپنی بنا لی۔ اس کمپنی نے مقامی کسانوں کو اپنے چنگل میں پھنسا لیا۔

کاشتکاری کے لئے استعمال ہونے والی زمینیں خرید لی گئیں، کسانوں کو محنت مزدوری کے عوض معمولی مشاہرہ دیا جاتا جبکہ منافع کا بیشتر حصہ اس کمپنی کے شراکت داروں کی جیب میں جاتا۔

یونائیٹڈ فروٹ کمپنی کی اجارہ داری ختم کرنے کے لئے جلد ہی اسٹینڈرڈ فروٹ کمپنی میدان میں آگئی۔ اور پھر کچھ عرصہ بعد Cuyamelفروٹ کمپنی کے نام سے تیسری قوت وجود میں آگئی۔

تینوں امریکی کمپنیوں کے درمیان مسابقت کی فضا پیدا ہوئی تو مقامی لوگوں کی وفاداریاں خریدنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ امریکی کمپنیاں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش میں پولیس، فوج، عدلیہ سمیت حکومتی مشینری کے تمام کل پرزوں کو خریدنے لگیں۔

ہنڈراس کی حکومت کے وزرا ان امریکی کمپنیوں کے لئے کام کرنے لگے۔ ان کمپنیوں نے بدمعاشوں کے گینگ بنائے اور پھر باقاعدہ ملیشیا بنا لی۔ ان کمپنیوں کا اثر و رسوخ اس قدر بڑھ گیا کہ ان کی مرضی کے بغیر ایک پتا بھی نہیں ہلتا تھا، حکومتیں ان کی مرضی سے تشکیل پاتیں، عدالتی فیصلے ان کی ڈکٹیشن سے ہوتے اور پولیس افسروں کی تعیناتیاں اور تبادلے ان کے ایما پر کئے جاتے۔

یہ سلسلہ یہیں ختم نہ ہوا بلکہ ان امریکی کمپنیوں نے امریکی حکومتوں کی پالیسیوں پر اثر انداز ہونا شروع کر دیا۔ بتایا جاتا ہے کہ ایک فروٹ کمپنی نے یہ پروپیگنڈا کیا کہ ہنڈراس کی حکومت روس نواز ہے یوں مبینہ طور پر امریکی حکومت کی مداخلت سے ہنڈراس میں قائم حکومت کا تختہ اُلٹ دیا گیا۔

اور یوں پورے ملک میں انارکی اور طوائف الملوکی پھیل گئی۔ ملک بھر میں حکومتی رِٹ نام کی کوئی چیز باقی نہ رہی۔

ہنڈراس کی معیشت کا انحصار آج بھی کیلوں کی برآمد پر ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2018ء میں امریکہ نے ہنڈراس سے 522.7ملین ڈالر کے کیلے خریدے۔

اگر آپ سمجھ رہے ہیں کہ ہنڈراس پر بنانا ری پبلک کی پھبتی ماضی کا قصہ ہے تو ایسا ہرگز نہیں ہے۔ ہنڈراس کو اب بھی بنانا ری پبلک سمجھا جاتا ہے کیونکہ وہاں قانون کی عملداری نہیں ہے اور پورے نظام کو بااثر امریکی کمپنیوں نے یرغمال بنا رکھا ہے۔

یہ ملک ہمیشہ سے سیاسی عدم استحکام کا شکار رہا ہے۔ 28جون 2009ء کو فوج نے سپریم کورٹ کے احکامات پر صدر مینئول زیلیا کا تختہ اُلٹ کر عنانِ اقتدار سنبھال لی تھی اور صدرمینئول کو جلا وطن کر دیا گیا تھا۔

مینئول زیلیا جلد ہی وطن واپس لوٹ آئے اور 2013ء میں ہونے والے عام انتخابات میں حصہ لیا مگر ان کی جماعت انتخابات میں اکثریت حاصل نہیں کر سکی اور ان کے حریف جان اورلینڈو ہرنینڈز صدر بننے میں کامیاب ہوگئے۔

مینئول زیلیا نے دعویٰ کیا کہ دھاندلی کے ذریعے ان کے امیدواروں کو ہرایا گیا ہے۔ ہنڈراس میں لاقانونیت کا یہ عالم ہے کہ فروری 2012ء میں ایک گینگ نے جیل میں قید مخالفین کو مارنے کے لئے پوری جیل کو آگ لگا دی جس سے وہاں موجود 359قیدی جل کر خاک ہو گئے۔

2017ء میں ایک بار پھر انتخابات ہوئے تو حکمران جماعت کی کامیابی کا دعویٰ کیا گیا۔ ایک بار پھر انتخابی عمل کی شفافیت پر سوالات اُٹھائے گئے مگر حکومت نے ان سوالات کے جواب دینے کے بجائے اظہارِ رائے کی آزادی محدود کر دی۔ میڈیا پر پابندیاں عائد کر دی گئیں اور حکومت پر تنقید کرنے والوں کے خلاف کریک ڈائون کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

اس حکومت کو کٹھ پتلی سمجھا جاتا ہے کیونکہ موجودہ حکومت کو امریکہ کی تائید و حمایت حاصل ہے اور گزشتہ پانچ سال کے دوران امریکہ کی طرف سے ہنڈراس کی حکومت کو ریکارڈ فنڈز دیئے گئے ہیں۔

لاقانونیت اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ہنڈراس کی 60فیصد آبادی آج بھی غربت کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے۔ عالمی ماہرین کا خیال ہے کہ صرف وہی ملک ’’بنانا ری پبلک‘‘ نہیں ہوتے جہاں کیلے بکثرت پیدا ہوتے ہیں بلکہ ہر وہ ملک ’’بنانا ری پبلک‘‘ ہے جہاں قانون کی عملداری نہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)