تم اپنی کرنی کر گزرو، جو ہوگا دیکھا جائے گا

December 23, 2019

جب انہونی ہو جائے تو آسمان نے تو ٹوٹ پڑنا ہی تھا۔ اسپیشل کورٹ کے جنرل مشرف کے آئین سے غداری کے 3نومبر 2007ءکی ایمرجنسی کیس میں پانچ الزامات پر پانچ بار پھانسی کا فیصلہ سنایا جانا تھا کہ جیسے قیامت بپا ہو گئی۔

ایسا مملکتِ خداداد میں کبھی غاصبوں اور آئین توڑنے والوں کے خلاف کب ہوا تھا۔ چھ سال مقدمہ چلا، درجنوں بار ملزم کو اپنے بیان کیلئے طلب کیا گیا، پراسیکیوشن ٹیم بدلی اور بنچ بنتے ٹوٹتے رہے، اوپر نیچے حکومتیں بدلیں، کوئی مائی کا لعل نہ تھا جو جنرل مشرف کو (سوائے ایک بار) کٹہرے میں کھڑا کر سکتا۔

ہمارے بہادر کمانڈو کو کوئی روک نہ پایا جسے بالآخر عدالت نے اشتہاری ملزم قرار دے کر اپنی کارروائی تمام تر رکاوٹوں کے باوجود انجام تک پہنچائی۔ اب جانے اس انجام کا کیا انجام ہو۔ (کاش! سورج کے لہو میں لتھڑی ہوئی اک اور شام نہ ہو)۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ تو جاتے جاتے کہہ گئے اور وہ بھی بقول فیضؔ:

’’تم اپنی کرنی کر گزرو، جو ہوگا دیکھا جائے گا‘‘۔

واقعی جج کو شیر کا دل اور فولادی اعصاب چاہئیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو جسٹس وقار سیٹھ کی سربراہی میں تین رُکنی بنچ ’’فاتح کارگل‘‘ کو کیسے آئین کی دفعہ 6 کے تحت قرارِ واقعی سزا دے پاتا۔

ابھی مختصر فیصلہ آیا ہی تھا کہ تفصیلی فیصلہ آنے سے پہلے ہی اُنکےہامی غم و غصہ سے بھڑک اُٹھے اور چار سطروں کے فیصلے کو چیرپھاڑ کر پھینک دیا اور اگلےہی روز ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ بھلا وطن کیلئے لڑنے والا کیسے ’’غدار‘‘ ہو سکتا ہے۔

ظاہر ہے اس یکجہتی کے وہم و گمان میں بھی آئین سے بغاوت اور حلف کی پاسداری سے روگردانی یقیناً ’’غداری‘‘ کے زمرے میں نہیں آتی۔ جب تاریخ بھی ایسی رہی ہو جب کسی طالع آزما نے جب چاہا آئینی جمہوریہ کو چلتا کیا اور عدالتیں نظریۂ ضرورت کی جُگالی کرتے، ایمان کی جگہ ’’کامیاب انقلاب‘‘ کی امان کی مالا جپتی نظر آئیں۔

ویسے بھی شریف الدین پیرزادہ جیسے آئینی جادوگروں نے قانون کو داشتہ کی طرح نچایا اور سیاسی ابن الوقتوں اور تاریخی ٹوڈیوں کی کمی نہ تھی کہ مارشل لائوں کے دربار خوب سجے اور بار بار سجتے رہے۔

ایک ہی ناکام تجربے کو بار بار کرنے سے پاک دھرتی پہ موقع پرستی کی فصلیں تو اُگتی رہیں، لیکن قوم بے فیض اور ریاست بانجھ ہوتی چلی گئی۔ اصل المیہ تو یہ تھا کہ جنہوں نے آوازِ جمہور بلند کی اور حق گوئی پر مصر رہے، وہ غدار ٹھہرے یا پھر صفحۂ ہستی سے مٹا دیئے گئے۔

فیلڈ مارشل ایوب خان آج بھی ’’ترقی کا ماڈل‘‘، جنرل یحییٰ خان محو استراحت ہیں، جنرل ضیاء الحق اللہ کے غازی اور جنرل مشرف طاقتور ہاتھوں میں محفوظ۔ تحقیر و دشنام کا نشانہ ہیں تو پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ۔

عمران انتظامیہ کے سارے کل پُرزے اور سرپرست ہر طرح کے ہتھیاروں سے لیس معزز جج صاحب کے خلاف میدان میں اُتر آئے ہیں اور خاموش طبع جسٹس کھوسہ کو کہنا پڑا کہ ’’مجھے اور عدلیہ کو بدنام کرنے کے لیے گھنائونی سازش کی جا رہی ہے۔‘‘ اور اُن سے پہلے ’’طاقت کے منبع‘‘ سے اعلان ہوا تھا کہ ففتھ جنریشن وارفیئر میں اب اداروں کو اداروں سے لڑانے کی سازش ہو رہی ہے۔

گویا خصوصی عدالت کے جج صاحبان بھی اب دشمن کی ہائی برڈ وارفیئر کا آلۂ کار بن گئے ہیں۔

لیکن سوال اُٹھتا ہے کہ اگر ادارے آئین کے تابع اور قانونی ضوابط کے پابند رہیں تو پھر اداروں میں لڑائی کیوں ہوگی۔ اگر فوج کے ترجمان نے کبھی واقعی ٹھیک کہا تھا کہ آرمی چیف فوج سے بالا نہیں اور فوج ملک سے بالاتر نہیں تو پھر کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہئے۔

آئین، بنیادی انسانی حقوق اور انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ قانون کا راستہ اختیار کیا جائے جنرل مشرف کو مکمل اور بھرپور انصاف ملے اور کوئی انصاف کی راہ میں حائل نہ ہو۔ لیکن یہاں تو معاملہ ہی نرالہ ہے۔

پیشہ گردی وکلاگردی تک محدود نہیں۔ اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق جنرل مشرف کے وکلا جو اَب استغاثہ کے کارپرداز اور عمران حکومت کے قانونی زار ہیں، نے خصوصی عدالت کے سربراہ معزز جسٹس وقار سیٹھ کے خلاف اُن کی ’’ذہنی حالت پہ شک‘‘ کا اظہار کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

لیکن ان قانونی سورمائوں کو شاید معلوم نہیں کہ اگر جوڈیشل کونسل نے جسٹس وقار سیٹھ کو طلب کیا تو جانے کیا طوفان بپا ہوگا جب معزز جج اپنی زبان کھولے گا۔ ماحول کو بگاڑنے کے بجائے سیدھا قانونی راستہ ہے اور سپریم کورٹ میں جنرل مشرف کے وکلا اپیل داخل کریں نہ کہ پورے عدالتی نظام کو زمین بوس کرنے کی آئین شکن راہ اختیار کریں۔

غضب یہ ہے کہ جس بات (پیراگراف 66) کا سارے فسانے یا فیصلے میں ذکر نہ تھا وہ سب ہی کو ناگوار ہی نہیں گزری بلکہ اس مضحکہ خیز طور پر مستند فیصلے کو متنازع بنانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

شکر ہے کہ وہ تمام لوگ جو کھلے عام لاشوں کو ٹانگنے اور گھسیٹنے کے ہذیان میں مبتلا رہتے ہیں وہ بھی کسی ایسی بربری سزا کے اشارے پہ سیخ پا ہو گئے ہیں۔

خیر سے علمائے کرام بھی بعد از مرگ لاش کو چوک میں گھسیٹ کر پھانسی چڑھانے کے غور پہ فتوے لے کر سامنے آ گئے ہیں اور یہ بھولتے ہوئے کہ حجاج بن یوسف نے عبداللہ ؓبن زبیر کو حرم میں سولی پہ لٹکائے رکھا تھا اور حضرت امام حسینؓ کے بیٹے کی لاش کے ساتھ کیا کیا تھا۔

کوفے کے اموی گورنر نے امام زین العابدینؓ کے شہید بیٹے کی لاش کو پورا سال لٹکائے رکھا تھا اور جب بنو عباس فاتح ہوئے تو پھر اموی خلفا کی لاشوں کو قبروں سے نکال کر لٹکایا گیا۔ یہ مثالیں ہرگز فیصلہ کے اُس اقلیتی ریمارک کی توضیح میں نہیں بیان کی گئیں۔

صرف مفتیانِ دین کو آئینہ دکھانے کے لیے ہیں۔ نہ ہی پھانسی کی سزا کے بطور سزا غیرانسانی ہونے کے اصولی سوال پر لبرل حضرات کو اتنا سیخ پا ہونے کی ضرورت ہے کہ وہ فوجی بغاوتوں کے خلاف اکلوتے تاریخی فیصلے ہی کی مٹی پلید کرنے کی مہم کا حصہ بن جائیں۔

یہ جو ہمارے سب کے لیے ایک قانون کے داعی ہیں وہ جنرل مشرف کے آئین توڑنے کے شریکِ جرم اعلیٰ افسروں کو بھی کٹہرے میں کھڑے کرنے کا قولِ فیصل اس لیے بلند نہیں کر رہے کہ وہ سب کے ساتھ انصاف چاہتے ہیں کیونکہ اُن کا مدعا اپنے سرغنہ کی جان بچانا ہے۔

اگر ان بوالعجبوں میں اتنی ہی ہمت ہے تو کیوں اُن سب کیخلاف تحقیقات کر کے عدالت کے کٹہرے میں نہیں لاتے عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ نہ صرف مشرف کو فرار کرانے والوں بلکہ اس کے غیرآئینی اقدامات میں شریکِ جرم افراد کیخلاف بھی تحقیقات کی جائیں اور مقدمات دائر کئے جائیں۔ آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کیلئے نیکی اور پوچھ پوچھ۔