پاک فوج، امیدوں کی علامت

December 27, 2019

چند برس پہلے ’’جنگ‘‘ کے صفحات پر حزب اللّٰہ کے رہنما سید حسن نصراللّٰہ کی وصیت کے حوالے سے ایک کالم لکھا تو دنیا بھر کے سوشل میڈیا پر اُس کی دھوم مچ گئی تھی۔ نئے حالات میں اِس کالم کے کچھ حصے آپ کی نذر کرنا چاہتا ہوں کیونکہ دشمن ہمیں تقسیم کرنے کے وار کر رہا ہے اور ہمارے کچھ عقل کے اندھے دشمن کی کارروائیوں کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ چند برس پہلے لکھا تھا ’’پاکستان اِس وقت زرعی، آبی اور معاشی مشکلات سمیت اندرونی اور بیرونی خطرات سے دوچار ہے۔ پچھلے 35،40برسوں میں ملک کو اس قدر لوٹا گیا کہ آج ملکی معیشت برباد ہے۔ خوفناک صورتحال میں پہلے ایک ایسا واقعہ سن لیں جسے سن کر پاکستان سے پیار کرنے والوں کو سکون ملے گا۔ یہ 2004کا واقعہ ہے، بوسنیا ہرز گوینا کے شہر سرائیوو میں یوتھ ڈویلپمنٹ پیس کانفرنس ہو رہی تھی، اُس کانفرنس میں دنیا بھر سے نوجوان شریک تھے۔ کانفرنس میں معذوروں کی نمائندگی امریکہ کے وکٹر اور پاکستان سے شفیق الرحمٰن نے کی۔ شفیق الرحمٰن بتاتے ہیں کہ میرے لئے فخر تھا کہ میں پاکستان کی نمائندگی کر رہا تھا، یہ وہ دور تھا جب نائن الیون کے بعد دنیا افغانستان کی خبروں سے پاکستان کو منسلک کر رہی تھی، پاکستان کا تشخص مسخ کیا جا رہا تھا چونکہ میرا پہلا عشق پاکستان ہے، میرے لئے یہ خبریں بہت تکلیف دہ تھیں مگر پھر قدرت میرے لئے ایک ایسا لمحہ لے آئی جب میں سینہ تان کر کانفرنس میں شریک ہو گیا۔ اُس کی وجہ کانفرنس میں میری مترجم ایک تیس سالہ خوبصورت خاتون تھی، نیلی آنکھوں اور سنہرے بالوں نے اس کے حسن کو چار چاند لگا رکھے تھے۔ تعارف ہوا تو میں نے بتایا کہ میں پاکستان سے ہوں۔ یہ سننے کی دیر تھی کہ میری مترجم آگے بڑھی، اُس نے میرا ہاتھ تھاما، اِسے چوما اور چوم کر آنکھوں سے لگایا۔ اِس غیر متوقع حرکت پر میں حیران ہوا۔ وہ میری حیرت کو دیکھ کر بولی ’’کاش ہماری نسلوں میں پاکستانی پیدا ہونا شروع ہو جائیں‘‘۔ یہ جملہ سننے کے بعد میں مزید حیرت میں ڈوب گیا۔ میں نے خود کو سنبھالتے ہوئے پوچھا تو وہ کہنے لگی ’’کیا آپ مجھ سے شادی کر سکتے ہیں‘‘۔ پہلی ہی ملاقات میں ایسے جملے سن کر مجھے مزید حیرت ہوئی۔ خیر میں نے اُسے بتایا کہ میں شادی کر چکا ہوں مگر آپ بتائیے کہ آپ ایسا کیوں چاہتی ہیں؟ اُس نے لمحہ بھر تاخیر نہ کی اور بتانا شروع کیا کہ ’’جب سربیا کے غنڈے ہم مسلمان لڑکیوں کی عزتوں سے کھیلنا چاہتے تھے تو اُس وقت ہمیں بچانے والے پاکستانی فوج کے جوان تھے۔ بین الاقوامی امن فوج میں شامل پاکستانی جوانوں نے نہ صرف ہمیں بچایا بلکہ وہ ہمیں اپنے کیمپوں میں لے گئے۔ اُنہوں نے ہمیں اپنی بہنوں اور بیٹیوں کی طرح رکھا، جب وہ ہمیں کھانا دیتے تھے تو خود نہیں کھاتے تھے۔ ہمارے پوچھنے پر بتاتے تھے کہ ہمارا روزہ ہے۔ کچھ ہفتوں بعد ہمیں پتا چلا کہ وہ ہمیں اپنے راشن سے کھانا دے کر خود بھوکے رہتے ہیں۔ وہ پاکستانی فوجی جوان ہمارے بچوں سے بہت پیار کرتے تھے، ہمارے بزرگوں کا بہت احترام کرتے تھے، ہماری حفاظت کرتے ہوئے کچھ پاکستانی جوان شہید بھی ہو گئے تھے، تم پاکستانی بہت عظیم لوگ ہو‘‘۔ اُس کے اِس جملے نے میرا سرفخر سے بلند کر دیا، میں نے اُس کے سر پر ہاتھ رکھا، اپنی بہن سمجھتے ہوئے دعا دی اور پھر اُس سے کہا کہ ’’پاک فوج ہم پاکستانیوں کیلئے فخر کا باعث ہے، دنیا میں اگر کسی نے غریب اور متوسط طبقے کے افراد پر مشتمل شاندار ادارہ دیکھنا ہو تو وہ پاک فوج کو دیکھ لے‘‘۔

یہ واقعہ 2004میں ہو چکا ہے مگر اب جب میں سیاستدانوں، نام نہاد دانشوروں اور لبرلز کی طرف سے پاک فوج پر تنقید کے مناظر دیکھتا ہوں تو پھر سوچتا ہوں کہ فوج کو بُرا بھلا کہنے والے کبھی اپنے بچوں کو سرحدوں پر بھیجیں تو اُنہیں پتا چلے کہ دھرتی سے عشق نبھانا کیا ہوتا ہے؟ میں نے پچھلے کالم میں مجلسِ وحدت المسلمین کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس کی کچھ گفتگو شامل کی تھی، آج کچھ مزید باتیں شامل کر دیتا ہوں۔ حزب اللہ کے رہنما سید حسن نصراللہ، پاکستانی سیاستدان علامہ راجہ ناصر عباس کے کلاس فیلو ہیں، حسن نصراللہ اپنے پاکستانی دوست راجہ ناصر عباس کو پچھلے چار برسوں سے نصیحت کر رہے تھے مگر اِس بار اُنہوں نے وصیت کی کہ کبھی بھی اپنی فوج کو یعنی پاک فوج کو نہ چھوڑنا، ہمیشہ فوج کے ساتھ رہنا کیونکہ ہمیں بہت سی اطلاعات ہیں کہ امریکہ اور اسرائیل مسلمان ملکوں کی افواج کو توڑنا چاہتے ہیں، اُنہوں نے اِسی منصوبے کے تحت لیبیا اور عراق کی فوج کو توڑا، یمن کی فوج توڑی، اسرائیل کے مقابلے میں لبنان کی فوج نہیں بننے دی۔ دراصل یہ مسلمان ملکوں کی افواج توڑ کر خطے کی ازسرِنو تقسیم و ترتیب چاہتے ہیں، اُن کا منصوبہ وسیع ہو گیا ہے اور اب اُن کا مشن پاکستانی فوج کو توڑنا ہے، اُسے کمزور کرنا ہے کیونکہ جغرافیائی طور پر اہم ہونے کے علاوہ پاکستان ایٹمی قوت ہے، آبادی بھی بھرپور ہے، طاقتور ملک ہے اور پاک فوج دنیا کی بہترین فوج ہے اگر خدانخواستہ دشمن کی سازش کامیاب ہو گئی تو پھر ایران اور افغانستان بھی ٹوٹ جائیں گے۔ اسی لئے میں آپ کو وصیت کرتا ہوں کہ ’’ہر حال میں پاک فوج کا ساتھ دینا، آپ کا ملک اور عوام اسی صورت میں بچیں گے جب آپ کے پاس طاقتور فوج ہوگی‘‘۔راجہ ناصر عباس بتاتے ہیں کہ ’’میں اکثر سوچتا تھا کہ میرا دوست حسن نصراللہ کیوں یہ منظر بتاتا ہے مگر اب جب حالات میرے سامنے آئے تو مجھے یقین ہو گیا کہ وہ سچ کہہ رہا تھا کیونکہ میرے لئے وہ دن حیران کن تھا جب تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والے نے اپنی فوج کے خلاف بولنا شروع کیا، تب مجھے بیرونی طاقتوں کے اشاروں پر کام کرنے والوں کی سمجھ آئی، پھر مجھے پشتین اور اچکزئی کے منصوبے بھی سمجھ آگئے۔ مجھے اپنے دوست حسن نصراللہ کی وصیت کی اچھی طرح سمجھ آگئی۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہماری پہلی اور مضبوط دیوار صرف اور صرف پاک فوج ہے، ہمیں آپس کے اختلافات کو ایک طرف رکھ کے کم از کم پاک فوج کے ساتھ کھڑے ہو جانا چاہئے۔

راجہ ناصر عباس کی باتیں بالکل درست ہیں بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ پاک فوج دنیا بھر کے لئے آسوں اور امیدوں کی علامت ہے کیونکہ انسانیت کی جتنی خدمت اس فوج نے کی ہے شاید ہی کسی اور نے کی ہو۔ مادرِ وطن کا تحفظ کرنے والےسلامت رہیں کہ

خونِ دل دے کے نکھاریں گے رخِ برگِ گلاب

ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے