فوجی آپریشن کلین اَپ اور گھر گھر تلاشی

March 09, 2013

ان دنوں سب راستے، سب قافلے میاں نواز شریف کے گھر کی طرف جاتے ہیں، سو گزشتہ روز ہم بھی میاں خورشید محمود قصوری کے گھر سے نکل کر اس طرف ہو لئے کہ دیکھیں مسلم لیگ (ن) کے قائد نئے منشور میں اہل پاکستان کو کیا مژدہ جانفزا سناتے ہیں۔
منشور کے چیدہ نکات اخبارات نے شائع کر دیئے، میاں صاحب نے پہلے تو اپنے دو ادوارِ حکومت میں عوامی فلاح و بہبود اور ملکی ترقی و خوشحالی کے لئے اقدامات کی تفصیل بتائی پھر مستقبل کے خواب دکھائے اور آخر میں وعدہ کیا کہ دو تہائی اکثریت ملی تو قوم کو ان مسائل سے فوری نجات دلائیں گے جو اس کے لئے عذاب بن چکے، دہشت گردی، لوڈ شیڈنگ اور بیروزگاری ان میں سرفہرست ہے، دفاعی بجٹ پارلیمنٹ میں پیش کرنے اور فوجی سربراہوں کا تقرر میرٹ پر کرنے کا وعدہ بھی انہوں نے کیا۔
دہشت گردوں اور مافیاز کے ہاتھوں یرغمال بنے کراچی شہر کو دوبارہ پرامن اور پرسکون شہر میں تبدیل کرنے کی تدبیر مسلم لیگ نے یہ سوچی ہے کہ ”پولیس کی تطہیر اور اصلاحات اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف بلاامتیاز آپریشن“ عام انتخابات اب زیادہ دور نہیں حکومت، اپوزیشن، فوج، عدالت عظمیٰ اور الیکشن کمیشن سب متفق ہیں کہ الیکشن وقت پر ہوں گے اور کراچی کی بدامنی رکاوٹ نہیں بنے گی، اس لئے اگلے چار چھ ماہ میں مسلم لیگ کی اہلیت و صلاحیت اور کارگزاری کا پتہ بھی چل جائے گا کہ فی الحال مسلم لیگ کے لئے راستے صاف ہیں اور وہ تخت اسلام آباد تک رسائی میں کوئی رکاوٹ محسوس نہیں کرتی۔
مگر میرے جیسے بعض مایوسی کے مارے خوفزدہ ذہنوں میں اب بھی یہ سوال بار بار اٹھتا ہے کہ ہزارہ ٹاﺅن جیسے واقعات کا موثر تدارک نہ ہو اور اگر خدانخواستہ ملک دشمن عناصر ایک بار پھر کوئی بڑا واقعہ کرنے یا کسی بڑی شخصیت کو نشانہ بنانے میںکامیاب ہو گئے تو پھر بھی ہمارے ادارے اپنے عزم پر قائم رہ پائیں گے یا نہیں؟ اور اب تو کور کمانڈر کے ایک سخت پیغام پر ایم کیو ایم نے غیر معینہ مدت تک کاروبار بند رکھنے کا فیصلہ واپس لے لیا، کیا آئندہ بھی ایسا ممکن ہو گا؟ جو عناصر کراچی اور بلوچستان میں دہشت گردی یا تخریب کاری اور بدامنی کی آگ مسلسل بھڑکائے رکھنا چاہتے ہیں کیا اب وہ مایوس ہو کر بیٹھ گئے ہیں؟
یہ دلچسپ بات ہے کہ تحریک طالبان پاکستان اور لشکر جھنگوی نے سانحہ عباس ٹاﺅن کی ذمہ داری قبول نہیں کی، جائے وقوعہ سے ملنے والی عامر زیدی کی لاش نے بھی تفتیشی اداروں کو چکرا دیا ہے، چند گھنٹوں میں پاکستان کے معاشی مرکز کو فائرنگ کے ذریعے بند کرانے والوں کا اب تک طالبان اور لشکر جھنگوی سے تعلق جوڑنا مشکل ہو رہا ہے اور کراچی کے دورے میں آرمی چیف کو ملنے والی بریفنگ بھی کچھ نئے حقائق کی طرف اشارہ کرتی ہے، اس لئے کور کمانڈر کانفرنس کے فیصلے، صدر، آرمی چیف ملاقات اور سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں کراچی کا آپریشن کلین اپ دہشت گردوں، بھتہ خوروں، اغواءکاروں، ٹارگٹ کلرز اور دیگر جرائم پیشہ عناصر کے خاتمے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ عوام عرصہ دراز سے جس سرجری کی توقع کر رہے ہیں وہ آہنی عزم اور پائیدار اقدامات کے ذریعے ہو گئی تو روز روز کی ہڑتالوں، تخریبی کارروائیوں اور بدامنی سے نجات ملے گی لیکن جب تک کراچی، کوئٹہ بلکہ پورے ملک کو اسلحہ سے پاک کرنے کا آغاز نہیں ہوتا کسی قسم کا آپریشن نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکتا۔
ہمارے بچپن میں ایک فوجی حکمران نے تمام لائسنسی، غیر لائسنسی اسلحہ تھانوں میں جمع کرانے کی کارروائی کی تھی اور ملک کافی عرصے تک بدامنی سے پاک ہو گیا تھا اب بھی پاکستان کے ہر شہری کو اپنا لائسنسی اور غیر لائسنسی اسلحہ تھانے میں جمع کرانے کا حکم دیا جائے اور یہ یقین دہانی کرائی جائے کہ غیر لائسنسی اسلحہ جمع کرانے والوں سے کسی قسم کی باز پرس نہیں ہو گی، بعد ازاں گھر گھر تلاشی کا آغاز کیا جائے اور اسلحہ برآمد ہونے پر سخت کارروائی کی جائے تو حوصلہ افزا نتائج نکل سکتے ہیں۔ سب سے زیادہ رکاوٹ عوامی نمائندے اور بااثر افراد و گروہ ڈالیں گے مگر فوج کو ان کی پروا نہیں کرنی چاہئے، پاک فوج کے سربراہ اور چیف الیکشن کمشنر میں فرق ہے کہ کوئی نثار علی خان، کوئی رضا ربانی اور کوئی فاروق نائیک شور مچائے تو چیف صاحب پسپائی پر اتر آئیں۔
کراچی اور کوئٹہ جیسے آفت زدہ شہروں میں آپریشن کلین اپ (فوج کی نگرانی میں گرفتاری، تفتیش اور پراسیکیوشن کے مکمل اختیار کے تحت دفعہ 245 کی رو سے) ہر طرح کے لائسنسی، غیر لائسنسی اسلحہ کی واپسی، پولیس و انتظامیہ کی تطہیر اور جرائم پیشہ، شرپسند عناصر کی سرپرستی کرنے والے طاقتور افراد اور گروہوں کے بلاامتیاز احتساب و مواخذے کے بغیر ”جہاں ہے جیسے ہے“ کی بنیاد پر الیکشن کرانے پر اصرار حماقت اور عاقبت نااندیشی کے سوا، کچھ نہیں جس کا نتیجہ وسیع پیمانے پر خدانخواستہ بدامنی، بے چینی اور اضطراب کی صورت میں نکل سکتا ہے۔

جن رئیسانیوں، بھٹوﺅں، چیموں، چٹھوں، لغاریوں، مزاریوں، ملکوں، خانوں، مخدوموں، وڈیروں اور تھالی کے بینگنوں نے قوم کے 65 سال ضائع کئے ملک کو اندھیر نگری، چوپٹ راج میں بدل دیا وہ ایک بار پھر بھیس بدل کر اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ گئے تو ہمارے مستقبل سے کھیلنے کا دیرینہ شغل ہی پورا کریں گے۔
منگنی کی تقریبات میں بیٹھ کر عباس ٹاﺅن کے شہیدوں، زخمیوں کا مذاق اڑائیں گے اور روزانہ نوٹ چھاپ کر اپنی آل اولاد کا مستقبل سنواریں گے، قوم کو بھلا کیا ملے گا؟ قوم امن چاہتی ہے، اسلحہ اور جرائم سے پاک ملک اور چھوٹے بڑے پیمانے پر کاروبار کی سہولت تاکہ وہ رزق حلال سے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پال سکے، کیا وسیع پیمانے پر آپریشن کلین اپ، احتساب و مواخذے اور تطہیر کے بغیر یہ ممکن ہے؟
ظلم رہے اور امن بھی ہو
کیا ممکن ہے تم ہی کہو؟