تاریخ اس طرح بھی بیان ہونی چاہئے

January 31, 2020

ڈاکٹر مبارک علی کہنے کو تاریخ کے استاد ہیں اور بڑی ہی خوبیوں کے مالک ہیں لیکن میں ان کی جس خوبی کی سب سے زیادہ قدر کرتا ہوں وہ یہ کہ ڈاکٹر صاحب خوب ہی اختلافی شخصیت ہیں، سوشل میڈیا میں وہ مسلسل متنازع نظر آتے ہیں اور کتنے ہی پڑھے لکھے لوگ ان کی تاریخ دانی کو بُرا بھلا کہتے ہوئے تہذیب کی ساری ہی لکیریں پھلانگ جاتے ہیں۔

اب میں ایک سطر میں ان کی تاریخ شناسی کا گُر بتاتا ہوں۔ ان کو غرض بادشاہوں، حکمرانوں اور حکومتوں سے نہیں، افراد سے ہے، راہ چلتے، معاشرے میں اپنا حصہ ڈالتے ہوئے، محنت کرتے اور مشقت اٹھاتے ہوئے افراد سے۔ وہ پیپلز ہسٹری (عوام کی تاریخ) کو اصل تاریخ مانتے ہیں، ہماری عمر بیت گئی تاریخ پڑھتے پڑھتے مگر ہم نے کبھی تاریخ کو اس پہلو سے نہیں دیکھا۔ مثال کے طور پر ہمیں اکبر بادشاہ کے شب و روز کی ذرا ذرا سی خبر ہے لیکن ہم مشکل ہی سے جانتے ہیں کہ اس کے دور میں لوگوں کا کیا حال تھا، ان کا سونا جاگنا، اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا اور جینا مرنا کیونکر ہوتا تھا۔ یہاں ڈاکٹر مبارک علی کا ذکر یوں بھی آگیا کہ میں حال ہی میں پاکستان گیا تو ڈاکٹر صاحب کی تازہ کتاب ہاتھ لگی جس کا نام ہے ’شمع ہر رنگ میں جلتی ہے‘ اور جس کا موضوع سرورق پر لکھا ہے ’آپ بیتی‘۔ کتاب سے ایک افسوس ناک خبر یہ ملی کہ مبارک علی کو آنکھوں کی تکلیف تھی اور ڈاکٹر کی لاپروائی سے ان کی بینائی جاتی رہی۔ اب کوئی اور ان کیلئے لکھتا اور پڑھتا ہے۔ کتا ب کی پشت پر ان کی لکھی ہوئی کتابوں کی فہرست درج ہے جس کے مطابق وہ تقریباً پچاس کتابیں لکھ چکے ہیں۔ ساٹھ کے عشرے میں جب میں ان سے ملا وہ عجب دھج سے کتابیں لکھ رہے تھے زیادہ تر ناشر شاید ان کے انقلابی خیالات کی وجہ سے ان کی کتابیں چھاپنے سے گریز کر رہے تھے چنانچہ میں نے خود دیکھا کہ وہ اپنی کتابوں کی کتابت خود کر رہے تھے۔ اس وقت انہوں نے اپنی پہلی کتاب لکھی تھی جس کا عنوان تھا ’تاریخ کیا ہے‘۔ یہ دو سو صفحوں کی کتاب تھی۔ اس کے فوراً بعد جو کتاب لکھی گئی اس کو ’تاریخ اور شعور‘ کا عنوان دیا گیا مگر حیرت کی بات ہے کہ دیکھنے میں ناقص نظر آنے والی یہ کتابیں خوب خوب پڑھی گئیں۔ ملک میں ڈکٹیٹر شپ اپنے عروج پر تھی اور سخت گیری کے اس دور میں مبارک علی کی کتابیں تازہ نہیں، انقلابی ہوا کا جھونکا محسوس ہوئیں۔ اس کے بعد لاہور کی ایک تنظیم نے انہیں لیکچر کی دعوت دی جسے سننے کیلئے شہر کے سار ے ہی مشہور ترقی پسند دانشور موجود تھے۔ اسی کے ساتھ ایک قومی روزنامے میں ان کا انٹرویو چھپا جو لیکچر کے برعکس عوام کے ہاتھوں میں پہنچا۔ پھر وہی ہوا جو ہونا تھا۔ پورے پنجاب میں ان کے خیالات اور رائے کی مذمت کی گئی۔ لوگوں نے سندھ یونیورسٹی کے سربراہ کو خط لکھے کہ ڈاکٹر صاحب کو ملازمت سے نکالا جائے لیکن سندھ کا ماحو ل پنجاب سے یکسر مختلف تھا۔ اس کے باوجود لاہور کے بااثر افراد نے مبارک علی کی پذیرائی کی یہاں تک کہ شہر کے ایک بڑے اشاعت گھر نے ان کی کتابیں چھاپنے کی ذمہ داری اپنے ذمہ لی اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔

جس کتاب کو انہوں نے اپنی آپ بیتی کہا ہے، دیکھنے میں وہ ان کے لکھے ہوئے اخباری کالموں کا انتخاب معلوم ہوتا ہے جو اخبار میں گنجائش کی کمی کے باعث مختصر ہوتے ہیں اسی لئے اس کتاب کے زیادہ تر باب چھوٹے چھوٹے ہیں مگر گہرے علمی موضوعات کا طویل ہونا اچھی بات نہیں۔ مبارک علی بارہا فلسفے کی بات کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ زیادہ تر فلسفیوں کے ہاں دنیا سے مایوسی کا اور معاملے کو شک کی نگاہ سے دیکھنے کا چلن عام ہے مگر انہوں نے قنوطیت اور تشکیک جیسی اصطلاحوں سے گریز کیا ہے۔ ان کی زیادہ تر کتابوں میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ تاریخ کے بدلتے ہوئے رجحانات پر روشنی ڈالی جائے۔ اس میں ان کی بھی مایوسی جھلکتی ہے۔ کہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ ذہنی طور پر پسماندگی کا شکار ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم سیاست، معیشت، ادب اور فنون کو ریاستی نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں اور اس کے جو نظریات اس سے مختلف یا متبادل ہوتے ہیں ان کو نہ تو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ ہی ان کا تجزیہ کرنا پسند کرتے ہیں۔ اسی لیے ہماری فکر اور سوچ ایک جگہ ٹھٹھر کر رہ گئی ہے۔

مبارک علی نے اپنی اس تازہ کتاب میں Oral Historyکی بات بھی کی ہے، یعنی عام لوگوں کی بیان کردہ تاریخ۔ یہ میرے دل سے بہت قریب ہے۔ ڈاکٹر صاحب ہمیں یہ خبر دے رہے ہیں کہ ’کچھ مورخ کوشش کر رہے ہیں کہ زبانی کہی جانے والی تاریخ کے ذریعے اس روز مرہ روایت کو تشکیل دے کر اسے تاریخ کا حصہ بنایا جائے‘۔ مجھے یاد ہے جب میں سنہ اسّی کے اوائل میں برصغیر کا دورہ کرکے قدیم کتابوں کی تلاش میں سرگرداں تھا، کسی نے بتایا کہ دلّی میں قدیم مسودے جمع کرنے والے ادارے جو پہلے کبھی لوگوں کی گھروں میں رکھے ہوئے پرانے قلمی نسخے خریدا کرتا تھا، نے اب ایک پابندی لگا دی ہے، وہ یہ کہ وہ صرف بزرگوں کے چھوڑے ہوئے خط، روزنامچے اور ڈائریاں خریدا کرے گا۔ یہ ہے حقیقت میں آنکھوں دیکھی تاریخ کو محفوظ کرنے کا ایک ڈھنگ۔ ظاہر ہے کہ اس طرح سینہ بہ سینہ چلی آنے والی تاریخ میں کچھ عیب ضرور ہوں گے لیکن پھر یہ کام مورخ کو کرنا ہوگا کہ چھان پھٹک کرکے تاریخ کے اس ذخیرے سے کنکر پتھر نکال کر الگ کرے۔ دلّی شہر پر جب بھی برا وقت پڑا اس کا سب سے مستند احوال پرانی ڈائریوں، خطوں اور روزنامچوں میں ملا ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ اُس دور کے شاعروں کے کلام میں بھی سب کچھ لکھا ہوا ہے۔ وہ الگ بحث ہے، بالکل ہی الگ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)