وہ فلمی اداکارائیں جنہوں نے ہدایت کاروں سے شادی کی

February 11, 2020

شوبز کی دُنیا میں فلمی اداکارائوں اور شخصیات کے اسکینڈلز اور محبت بھرے افسانے ایک عام سی بات ہے۔ زمانہ قدیم سے اس پیشے سے وابستہ لوگ اس حوالے سے اس طرح کی صورتِ حال سے گزرتے رہے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کی فلمی صنعت میں ایسی لاتعداد مثالیں موجود ہیں کہ فلمی ہیروز، ہیروئنز کے عشق گرفتا ہوئے۔ ہیرو، ہیروئن کے بعد فلمی ہدایت کار بھی اس معاملے میں کچھ پیچھے نہ رہے۔

کئی نامور ہدایت کار کیمرے کے پیچھے رہ کر فلم کی ہیروئن یا کسی ساتھی اداکارہ کی زلف کے شکار ہوئے اور پھر بات عشق سے بڑھتے ہوئے شادی تک پہنچی۔ واقعی کسی نے خُوب کہا ہے کہ ’’عشق نہ پچھے ذات‘‘۔ برِصغیر کی فلمی تاریخ میں بڑے نامور عزت دار گھرانوں سے تعلق رکھنے والے ہدایت کار عشق کے مرض میں مبتلا ہو کر اس راہ میں اپنا سب کچھ لٹا چکے ہیں۔

چند مثالیں ایسی بھی ملتی ہیں، جس میں عشق کی منزل سے شادی تک کچھ ہی ہدایت کار پہنچ پائے اور پھر ان کی ازدواجی زندگی کام یاب نہیں رہی اور کچھ لوگ شادی کے بعد اپنی گھریلو زندگی کو سنبھال نہ پائے، جس کا نتیجہ طلاق کی صورت میں سامنے آیا۔

ہدایت کار شوہر اور اداکارہ بیوی کے تناظر میں ایک مختصر جائزہ لینے کی جب بات کرتے ہیں تو پاکستان کی فلمی صنعت کے بانی اراکین میں فلم ساز و ہدایت کار نذیر کا نام اس ضمن میں سرفہرست نظر آتا ہے ،جنہوں نے تقسیم ہند سے قبل اپنے فلمی کیریئر کا آغاز متحدہ ہندوستان سے کیا۔ فلم ساز و ہدایت کار اور اداکار کی حیثیت سے شہرت پانے والے اس نامور فن کار نے اپنے دور کی معروف اداکارہ سورن لتا سے عشق کیا، جس کی انتہا شادی کی صورت میں پائی۔

سورن لتا سکھ مذہب کو چھوڑ کر نذیر کی بیوی بن گئیں۔ پاکستان بننے کے بعد انہوں نے پھیرے، لارے، سچائی، انوکھی داستان، ہیر، شہری بابو اور نوکر جیسی سپرہٹ فلموں میں ہیروئن کے کردار کیے۔ میاں بیوی کی جوڑی میں پاکستان کی پہلی کام یاب و مقبول جوڑی کہلائی۔ بہ طور ہدایت کار نذیر کے کریڈٹ پر پھیرے، لارے، سچائی، انوکھی داستان، شہری بابو، خاتون، نور اسلام، شمع اور عظمت اسلام نامی فلمیں ہیں۔

فلم ساز و ہدایت کار انور کمال پاشا کو پاکستان فلم کا پہلا ٹرینڈ چینچ کام یاب ہدایت کار بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ 1953ء میں فلم غلام کی ہدایت کاری نے انہیں کام یاب ہدایت کار کی حیثیت دی۔ اس فلم سے قبل وہ ’’دو آنسو‘‘ نامی کام یاب فلم میں بہ طور شریک ہدایت کار آئے۔ اس فلم کی ہیروئن شمیم سے ان کے تعلقات شادی کی صورت میں سامنے آئے۔ شمیم بھارت سے پاکستان آئی تھیں، جہاں وہ بہ طور ہیروئن بے حد مقبول تھیں۔

شمیم کی چند بھارتی فلموں میں پہلے آپ، سنیاسی، نتیجہ، مہمان شامل ہیں۔ پاشا کے ساتھ ایک پنجابی فلم دلبر میں ہیروئن کا کردار بھی کیا۔ یہ فلم1951ء میں نمائش پذیر ہوئی۔ انور کمال پاشا اور شمیم کی شادی بڑی کام یاب رہی۔ پاشا کی بیوی بننے کے بعد وہ گھریلو زندگی بسر کرنے لگیں۔ شاہ نور اسٹوڈیو کے روح رواں شوکت حسین رضوی نے بھارت میں فلم جگنو کی ڈائریکشن دے کر بے حد شہرت پائی۔ بنیادی طور پر وہ ایڈیٹر تھے۔

ملکہ ترنم نورجہاں کے حُسن کے وہ ایسے اسیر ہوئے کہ انہوں نے اسے اپنے گھر کی زینت بنا دیا۔ ہدایت کار شوہر اور اداکارہ و گلوکارہ بیوی، پاکستان بننے کے بعد بھارت چھوڑ کر یہاں آ گئے۔ شوکت حسین رضوی نے بہ طور ہدایت کار جان بہار، عاشق اور دُلہن رانی تین فلمیں ڈائریکٹ کیں، جب کہ نورجہاں نے بھارت اور پاکستان میں اپنی اداکاری اور گلوکاری سے جو شہرت پائی اس کی نظیر تلاش کرنا مشکل ہے۔ میاں بیوی کا یہ رشتہ پھر ایک روز طلاق کی صورت میں ختم ہو گیا۔

شوکت حسین رضوی نے ایک اور اداکارہ یاسمین کو اپنی زوجہ بنا لیا۔ اداکارہ یاسمین نے ابتدائی پاکستانی فلموں میں اپنی عمدہ اداکاری کے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ ان کی چند یادگار فلموں میں سلمیٰ، زہر عشق، فرشتہ اور معصوم کے نام قابل ذکر ہیں۔ شوکت حسین رضوی سے قبل اداکارہ یاسمین ایک اور ہدایت کار جعفر شاہ بخاری کی بیگم رہ چکی تھیں۔ جعفر شاہ بخاری کا شمار پاکستان کے ابتدائی فوٹوگرافرز میں ہوتا ہے ، بعد میں انہوں نے بہ طور ہدایت کار بھروسہ، انجام، فیصلہ، نتیجہ، سماج، جواب دو، عورت ایک پہیلی جیسی کام یاب اور یادگار فلمیں بنائیں۔ فلم ساز و ہدایت کار ڈبلیو زیڈ احمد نے روحی اور وعدہ جیسی فلمیں بنا کر شہرت حاصل کی۔

تقسیم ہند سے قبل انہوں نے حسن کی جیت، ایک رات، پریم سنگیت اور میرا بائی، جیسی کلاسیکل میوزیکل رومانی فلمیں بنائیں۔ اپنے دور کی خوب صورت اداکارہ نینا جنہیں لوگ پراسرار نینا کے نام سے جانتے تھے، وہ ان کی شریک حیات بنیں۔ پاکستان آنے کے بعد نینا نے صرف ایک ہی فلم ’’اکیلی‘‘ میں اداکاری کی۔ بھارت میں سوہنی کمہارن جیسی کام یاب سپرہٹ فلم کے ہدایت کار ولی نے اپنی اس فلم کی ہیروئن ممتاز شانتی کو اپنی بیگم بنایا۔ ولی نے پاکستان اکر گڈی گڈا، سوہنی کمہارن نامی فلموں کی ڈائریکشن دیں۔ معروف ہدایت کار حسن طارق، جنہوں نے فلم ’’نیند‘‘ سے بپ طور ہدایت کار اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔

اس فلم میں اہم کردار ادا کرنے والی ایک اداکارہ نگہت سلطانہ سے ان کی محبت کے افسانے شادی کی صورت میں دم توڑ گئے۔ نگہت نے حسن طارق سے شادی کے بعد فلمی زندگی چھوڑ دی، لیکن حسن طارق کی رومانی فطرت میں کمی نہ آئی اور وہ پارسی مذہب سے تعلق رکھنے والی ایک فلمی رقاصہ ایمی سنوالا کی محبت میں گرفتار ہو گئے اور پھر ایک روز دونوں نے شادی کر لی۔ ایمی نے حسن طارق کی محبت میں خود کو مکمل بدل دیا۔ یہاں تک کہ وہ پارسی مذہب چھوڑ کر مسلمان ہو گئیں اور بیگم حسن طارق بنیں۔

ایمی سنوالا سے شادی کرنے کے بعد حسن طارق کی سیماب صفت طبیعت کچھ عرصے کے لیے ٹھہر گئی، لیکن جب اداکارہ رانی پر ان کی نظریں پڑیں، تو پھر اپنے دل کو سنبھال نہ پائے۔ نگہت سلطانہ کو وہ پہلے ہی طلاق دے چکے تھے۔ ایمی ان کی بیوی تھیں، اس کے باوجود وہ اداکارہ رانی سے شادی کر بیٹھے۔ ایمی بیچاری وفا شعار بیوی بن کر آج بھی ان کی بیوہ کی حیثیت سے زندہ ہیں، جب کہ اداکارہ رانی اور حسن طارق کے درمیان جب اختلافات بڑھے جو بعد میں طلاق کی صورت میں سامنے آئے۔ اداکار سدھیر نے جنگجو ہیرو کے طور پر اردو اور پنجابی فلموں میں شہرت پائی۔

بہ طور ہدایت کار فلم ساحل بنائی۔ اس فلم کی شوٹنگ کے دوران فلم کی خوب صورت ہیروئن شمی کے حُسن کا ایسے شکار ہوئے کہ وہ ان کی جیون ساتھی بن کر فلمی دنیا کو چھوڑ کر ان کے گھر میں آباد ہو گئیں۔ بہ طور ہدایت کار سدھیر نے ایک اور فلم بغاوت بنائی۔ اس کی ہیروئن بھی شمی تھیں۔ شمی کے بعد سدھیر نے پاکستان کی خوب صورت اور مقبول ہیروئن زیبا سے بھی شادی کی، جو زیادہ عرصے قائم نہ رہ سکی اور طلاق ہو گئی۔ سدھیر سے طلاق کے بعد زیبا نے محمدعلی سے شادی کی، جو بے حد کام یاب رہی۔ اداکارہ مینا شوری شادیوں اور طلاق کے حوالے سے اپنی ایک علیحدہ شہرت رکھتی تھیں۔ مینا شوری کو لوگ لارا لپا گرل کے نام سے جانتے تھے۔

پاکستان آنے کے بعد وہ انور کمال پاشا کی فلم سرفروش سے بے حد مقبول ہوئیں۔ مینا شوری نے بھارت اور پاکستان کے نامور ہدایت کار ظہور راجا سے شادی کی۔ ظہور راجا سے پہلے وہ معروف ہدایت کار اور فوٹو گرافر رضا میر کی بیوی بھی رہ چکی تھیں۔ پنجابی فلموں کے معروف اداکار اسد بخاری سے بھی مینا شوری نے شادی کی ، جو زیادہ عرصے تک نہ چلی۔ اسد بخاری نے اداکاری کے ساتھ چند فلموں کی ہدایت کاری کے فرائض بھی انجام دیے۔ بہ طور ہدایت کار ان کی ایک فلم ’’میں اکیلا‘‘ میں سائیڈ ہیروئن کا کردار کرنے والی اداکارہ عابدہ کو اسد بخاری نے اپنے نکاح میں لے لیا۔

بھارت میں مسلم سوشل فلموں کے حوالے سے شہرت یافتہ ہدایت کار ایس ایم یوسف نے بھارتی اداکارہ نگار سلطانہ کو اپنا جیون ساتھی بیوی بنایا۔ نگار سلطانہ کی جمال پرست طبیعت کبھی ایک جگہ نہ ٹھہری۔ ایس ایم یوسف، نگار سلطانہ کو طلاق دے کر پاکستان آ گئے۔ یہاں آ کر فلم سہیلی بنائی۔ بے حد کامیاب و مقبول ہدایت کار اقبال یوسف ان ہی کے فرزند تھے۔ اقبال یوسف نے پاکستان میں رات کے راہی، دال میں کالا، زمانہ کیا کہے گا، جوش، جوکر، تم ملے پیار ملا، صورت اور سیرت، ان داتا، خدا اور محبت، جوش اور سنگرام جیسی یادگار اور کام یاب فلمیں ڈائریکٹ کیں۔ فلم دال میں کالا کی ہیروئن بہار کے ساتھ فلم کی شوٹنگ کے دوران راز و نیاز کی باتوں نے شادی کا رنگ اپنایا۔

اقبال یوسف کی بیگم بن کر گھریلو زندگی بسر کرنے لگیں، لیکن ایک روز ان کی کام یاب گھریلو زندگی میں اداکارہ مہ پارہ کی صورت میں بھونچال آ گیا۔ ماہ پارہ سندھی فلموں کی مقبول ہیروئن رہیں۔ ایس اے بخاری کی فلم ’’آنسو ‘‘کے بعد وہ اقبال یوسف کی فلم اک سپیرا میں کام کر رہی تھیں، تو اقبال یوسف ان پر عاشق ہو گئے اور انہیں اپنی زوجیت میں قبول کر لیا۔ بہار کو طلاق دے کر وہ مہ پارہ کے شوہر بن گئے۔ پاکستانی فلموں کے انقلابی مصنف، فلم ساز اور ہدایت کار ریاض شاہد نے اپنے زمانے کی مقبول اور کام یاب ہیروئن نیلو سے شادی کی۔

یہ شادی بے حد کام یاب رہی۔ پنجابی فلموں کے معروف اور کام یاب ہدایت کار اور اداکار کیفی نے پنجابی فلموں کی اداکارہ غزالہ سے شادی کی، جو آج ان کی بیوہ بن کر زندگی بسر کر رہی ہیں۔ غزالہ کے بعد ہدایت کار و اداکار کیفی نے سندھی فلموں کی سپرہٹ اداکارہ چکوری سے بھی شادی کی، جو کام یاب نہ ہو سکی۔ چکوری، کیفی سے قبل سندھی فلموں کے اداکار مشتاق چنگیزی کے نام سے منسوب رہیں۔ عندلیب، جان پہچان، بندگی، سہاگ کے ہدایت کار فرید احمد نے پاکستان کی لیجنڈ اداکارہ شمیم آرا سے شادی کی جو بہت ہی قلیل مدت کے بعد طلاق کی صورت میں ختم ہو گئی۔

اردو اور پنجابی فلموں کے کام یاب ہدایت کار اسلم ڈار، جن کے کریڈٹ پر بشیرا، دل لگی، پہلی نظر، زرق خان، بڑے میاں دیوانے نامی فلمیں ہیں، انہوں نے اداکارہ دردانہ رحمٰن کو اپنے نکاح میں لے لیا۔ بیوی بن کر دردانہ رحمٰن کچھ عرصے تک اسلم ڈار کے ساتھ رہیں، پھر دونوں میں اختلاف کی صورت میں طلاق ہو گئی۔ پنجابی فلموں کے کام یاب و مقبول ہدایت کار الطاف حسین جنہوں نے سالا صاحب، دھی رانی، مہندی نامی گھریلو سوشل فلمیں ڈائریکٹ کیں، اپنے ابتدائی کیریئر میں اداکارہ عالیہ پر عاشق ہو گئے۔

عالیہ کا شمار اپنے دور کی کام یاب ہیروئن کے طور پر ہوتا ہے۔ الطاف حسین سے شادی کے بعد عالیہ اپنا عروج کھو بیٹھیں۔ اس شادی کا نتیجہ بھی چند سال بعد طلاق کی صورت میں برآمد ہوا۔ الطاف حسین نے عالیہ کے بعد گلوکارہ شمسہ کنول سے شادی کی اور اسے بھی بعد میں طلاق دے دی۔ ٹیکسی ڈرائیور، بابل، ضدی، شریف بدمعاش، گھر کب آئو گے جیسی سپرہٹ فلموں کے ہدایت کار اقبال کشمیری نے اداکارہ شہناز سے شادی کی۔ شہناز نے اقبال کشمیری کی فلم نیلام کے علاوہ چند دیگر فلموں میں کام کیا۔

شہناز کے بعد اقبال کشمیری نے نیپالی اداکارہ ششما شامی سے بھی شادی کی۔ پاکستان میں سب سے زیادہ فلمیں ڈائریکٹ کرنے کا اعزاز حاصل کرنے والے ہدایت کار مسعود بٹ نے اپنے دور کی کام یاب خوبصورت مقبول اداکارہ انیتا سے شادی کی۔ انیتا نے اپنے حسن اخلاق سے ایک اچھی اور کام یاب بیوی بن کر ایسی مثال قائم کی جس کی نظیر تلاش کرنا مشکل ہے۔معروف ہدایت کار سیدنور نے اداکارہ صائمہ سے شادی کی، ان دونوں کی سب سے سپر ہٹ فلم ’’چوڑیاں‘‘ ثابت ہوئی۔