موجودہ حکومت کے پانچ سال

March 12, 2013

جب جان کی بازی لگانے والوں کی جگہ باگ ڈور شطرنج کی بازی لگانے والوں کے ہاتھ آجائے تو پھر وہی ہوتا ہے جو گزشتہ پانچ سالوں میں جمہوریت اور ہمارے ملک کے ساتھ ہوا ہے۔ ”یہ بازی خون کی بازی ہے یہ بازی تم ہی ہارو گے“یاد ہے نا! پاکستان کے غریب تو زرداروں کے آگے یہ ساری بازی کب کی ہار بھی چکے۔ اب جان کی بازی والے نہیں شطرنج کے کھلاڑی بیٹھے ہیں۔ اگر سیتہ جیت رے آج زندہ ہوتے تو وہ گورننس کے اس انداز پر ایک نئی قسم کی فلم ”شطرنج کے کھلاڑی“بناتے۔
پاکستان میں جمہوریت جس کی اٹھان بعداز مشرف آمریت بعینہ اسی انداز پر ہونی چاہئے تھی جس کے خدوخال اپریل2006ءمیں لندن میں پاکستان کے دو سابق وزرائے اعظم اور حزب مخالف کے بڑے لیڈروں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان ”چارٹر آف ڈیموکریسی“یا ’سی او ڈی ‘کی صورت طے پا جانے والے سمجھوتے کے تحت وضع کئے گئے تھے تو وہ ”سی او ڈی“ بن گئی۔ امریکہ کی کاروباری دنیا میں سی او ڈی ”کیش آن ڈیمانڈ“ کو کہتے ہیں۔
پھر خون کی بازی لگانے والے خون کی بازی ہار گئے۔ ایک اور بھٹو مارا گیا یا ماردی گئی۔ بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی پر بیس لاکھ سے زائد افراد کے استقبالی ہجوم کو بم دھماکوں کے ساتھ ان پر قاتلانہ حملے کے ساتھ پہلے دن ہی منتشر کردیا گیا تھا لیکن پروانے اس شمع پر لپک کر جانیں دینے سے کب پیچھے ہٹے تھے جسے بے نظیر کہا جاتا تھا۔ وہ ملک کے کونے کونے میں انتخابی مہم چلانے نکل پڑی۔ رحمن ملک جو اپنی رہنما کی سیکورٹی میں ناکام ہو گئے تھے تو وہ بعد میں ملک کے شہریوں کی کیا حفاظت کرتے؟
بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد انتخابات میں پیپلزپارٹی اکثریت سے جیت کر آئی۔ لوگوں نے خاص طور سندھ میں اپنے آنسوﺅں میں بھگو کر انہیں ووٹ ڈالے۔ بعد ازاں زرداری جو پریس کے سامنے تک نہیں آتے تھے ایک وصیت کے ذریعے قاتل لیگ اور پاکستان کھپے کا نعرہ لگا کر میدان میں اترے۔ پھر اسی پیپلزپارٹی کی وفاقی کابینہ نے وزیراعظم سمیت آمر مشرف کے تحت حلف اٹھایا۔ بے نظیر بھٹو کے قاتل پکڑنا تو درکنار اسی آمر کو سلامتی کے ساتھ نکلنے کا راستہ دیا گیا۔ روٹی، کپڑا اور مکان یا بے نظیر کے ’تھری ایزیعنی ایمپلائمنٹ، ایمپاورمنٹ اور انرجی کی جگہ پر واقعی لوگوں کو قبر، کفن اور گولی ملنے لگی یعنی حکومت اپنے شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کرنے میں مکمل ناکام ہو گئی۔ نہ صرف بے نظیر کے قتل والے دن ان کے ساتھ جلسہ گاہ راولپنڈی اور ان کی گاڑی میں موجود خالد شہنشاہ قتل کردیا گیا پھر بے نظیر بھٹو کی وہ کزن بھی سپر ہائی وے پر پُراسرار حالات میں حادثے میں ہلاک ہوئیں جنہوں نے بے نظیر کی میت کو غسل دیا تھا۔ پی پی پی اپنی مخلوط حکومت کے زیادہ تر پانچ سال ایم کیو ایم سے اتحاد میں رہی لیکن کراچی میں خون خرابہ ایک روز کیلئے بھی بمشکل رک سکا۔ مانا کہ اس حکومت کو چومکھی لڑائی کا سامنا تھا جس میں خود اس کے ایک گورنر اور وفاقی وزیر اور اتحادی بھی دہشت گری اور انتہا پسندی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ یہ اصل میں ایک بہن اور دو بھائیوں کی ہی حکومت تھی۔ کم از کم سندھ کی حدوں تک تو یہی ہوا۔ پی پی پی جیالوں، وزیروں اور مشیروں نے ہزاروں کی تعداد میں نوکریاں بیچیں۔ سندھ میں دو بڑے سیلاب آئے لیکن پی پی پی حکومت نے لوگوں کو دریا کی لہروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ صدر زرداری نے جس پانی میں نواب شاہ میں ٹخنے گیلے کئے تھے وہ کسی بھی غیرت مند حکمران کیلئے کافی ہوتاہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کہتے ہیں کہ سندھ کی حکومت نے عالمی امداد لینے سے انکار کردیا تھا۔ افواہیں یہ بھی ہیں کہ ایک وفاقی وزیر کی زمینوں کو بچانے کیلئے ٹوڑی بند کو شگاف ڈال کر غوث پور اور اس کے نواحی علاقے ڈبو دیئے گئے۔
ایسا کئی ضلعوں میں ہوا جہاں یا تو مقتدر افراد کی زمینیں بچانے کیلئے پشتے کاٹ دیئے گئے یا پھر مخالفین کی زمینیں اور گاﺅں ڈبو دیئے گئے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور 18ویں ترمیم ایسے اقدامات ہیں جن دو کارناموں پر موجودہ حکومت فخر کرتی ہے۔ اٹھارہویں ترمیم میں صوبوں کو صرف کاغذات میں خود مختاری ملی ہے حالانکہ سندھ میں ایس پی تک کی تقرریاں ایوان صدر یا بلاول ہاﺅس سے ہوتی ہیں جبکہ رحمن ملک کے اطوار الگ ہی نظر آتے ہیں۔ دنیا کا کوئی بھی قانون و اخلاق اس حکومت کو جمہوری نہیں کہتا جس میں سیکڑوں شہری ریاستی اداروں نے غائب کردیئے ہوں۔وہ بلوچوں کو ڈنڈے کی دھمکیاںدیتے اور کراچی میں شیر آیا شیر آیا کا شور مچاتے ہیں جبکہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام غریب عوام سے زیادہ وزیروں، جیالوں اور پوسٹ آفس کے عملے کیلئے انکم سپورٹ ثابت ہوا ہے۔ ججوں کی بحالی کے قسموں وعدوں سے لیکر آئی ایس آئی کا سیاسی ونگ ختم کرکے اسے وزیراعظم کے زیرکنٹرول دینے سے لے کر سندھ میں بلدیاتی نظام کے اعلان تک حکومت ”سی ایم ایل اے“ یعنی کینسل مائی لاسٹ اناﺅنسمنٹ بنی رہی۔ جنرل کیانی کی میعاد میں اضافے نے حکومت کو مزید مطلوبہ آکسیجن مہیا کی۔ فریال تالپور، کوٹو مل، ڈاکٹر قیوم سومرو، غلام قادر مری، کیپٹن واصف، ڈاکٹر آصف، رحمن ملک، ڈاکٹر واصف ،اویس مظفر ٹپی اور انور مجید اور مرحوم پوڑہو زرداری ہی اصل حکومت تھے۔ زرداری حکومت اندرون ملک روشن خیال، سیکولر، وسیع المشرب، جمہوریت پسند لوگوں، دانشوروں اور عام لوگوں کی خیرسگالی اور عالمی برادری کی حمایت کے باوجود ملک میں نہ جمہوریت کو مضبوط بنیادیں مہیا کرسکی، نہ امن وامان اور نہ ہی گڈ گورننس، اگر یہ حکومت پانچ سال تک چل گئی ہے تو اس میں اس کا اپنا ہاتھ کم اور نواز شریف جیسے فرینڈلی اپوزیشن لیڈر کی خیرسگالی زیادہ ہے۔ وگرنہ زرداری حکومت کے وکیل نے تو بھٹو کی پارٹی کو این جی او ثابت کرنے کی سر توڑ کوشش کی۔ پچھلے دنوں جب عباس ٹاﺅن کراچی میں دہشت گردانہ حملے والے سانحے اور موہٹہ پیلس کی پارٹی اور اس پر پی پی پی حکومت کی لن ترانیاں دیکھ کر میں نے سوچا موجودہ حکومت خون کی خوشبو اور نوٹوں کی خوشبو کا مکسچر ہے۔ مجھے میرے ایک پی پی پی حمایتی دوست کی اس بات پر ہنسی آئی کہ کرپشن جمہوریت کے ایک بڑے جلوس کے پیچھے اٹھتی ہوئی گرد و غبار کے سوا کچھ بھی نہیں۔
سندھی حکمران کیلئے مشہور ہے کہ وہ برسراقتدار آنے پر تین کام کرتا ہے: اول مخالفین کو جیل میں ڈلواتا ہے، نئی شادی کرتا اور گاﺅں میں نیا بنگلہ بنواتا ہے۔ صدر زرداری نے تینوں میں سے ایک کام نمایاں یہ کیا کہ گاﺅں میں نہ سہی لاہور میں بیش قیمت نیا گھر بنوایا۔
لیکن اب موجودہ حکومت تو اپنے پانچ برس پورے کر رہی ہے لیکن اس کی مد مقابل قوتوں سے بھی خیر کی توقع نظر نہیں آتی ۔ ایسے میں جب تک لوگوں کو متبادل ملے تب تک لوگ آئندہ انتخابات میں بھی لگتا ہے اسی تنحواہ پر کام کرتے رہیں گے یعنی یار زندہ صحبت باقی والی بات ہوئی۔اسی لئے تو انتخابات ملتوی کرانے والی منفی قوتوں نے خون کی ندیاں تک بہا دی ہیں۔