ناقص امتحانی نظام

February 15, 2020

محمد فاروق دانش

ہمارے ملک میں اہل نوجوانوں کی کوئی کمی نہیں، ہر شعبہ زندگی میں،ہر فن میں یکتا افراد بر سرپیکار ہیں۔ تعلیم کے شعبے میں نمایاں کام یابی حاصل کرنے والے طلبہ بھی کسی طور کم نہیں۔گزشتہ دنوں میں غریب خاندانوں کے اہل نوجوانوں کی پوزیشنیں اخبارات کی شہہ سرخیاں بن چکی ہیں۔ اس سے قبل بھی چھوٹے نونہالوں کے آئی ٹی کے شعبے میں کارہائے نمایاں کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ اہلیت کسی خاص گھرانے یا کسی مخصوص خاندان کی میراث نہیں بلکہ اس سے ہر وہ شخص فیض یاب ہو سکتا ہے جسے کچھ یا بہت کچھ پا لینے کی جستجو ہواور وہ اس کے لیے ذہنی طور پر تیار بھی ہو۔

اب اسے خوش قسمتی سمجھا جائے یا بد قسمتی سے تعبیر کیا جائے کہ ہمارے یہاں وہ افراد اہل یا قابل سمجھے جاتے ہیں جو ’’رٹا فیکشن‘‘ یا ’’گیس پیپرز‘‘ کے ذریعے محدود اسٹڈی اور بہترین نمبر حاصل کرکے اچھی پوزیشن لے آتے ہیں اور معاشرے میں سرخ رو ہو جاتے ہیں جب کہ مسابقت کے مقابلے میں وہ اچھی استعداد رکھنے والے طلبہ کا کسی طور مقابلہ نہیں کر سکتے لیکن پھر بھی سراہا جاتاہے۔

ہمارے معاشرے کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ پورے ملک میں امتحانی نظام کئی بنیادی پیچیدگیوں کے سبب خرابی کا شکار ہو چکا ہے اور اسے سدھارنے کی کوئی موثر تدابیر بھی نہیں کی جا رہیں۔ پچھلے تین عشروں سے نقل کو جس قدر فروغ دیا گیا ، ’’ان پڑھ ‘‘طالب علموں کو نقل کرنے کے شان دار کارناموں پر سراہایا گیا، ہر اُس نوجوان کو جو بہتر انداز سے اچھی نقل کرنے میں کام یاب ہوتا رہا ، اسے دوست ، احباب رشتے دار یہاں تک کہ اساتذہ بھی داد وتحسین دیتے رہے جس کا نتیجہ بھیانک انجام پر منتج ہوا۔وہ زہر جس کا شکار چند سو نوجوان تھے ، ہزاروں اور لاکھوں کی رگوں میں سرایت کر گیا۔جو نوجوان پڑھ کر اپنی صلاحیت کا لوہا منوانا چاہتے تھے ، وہ بھی نقل کی کرفرمائیوں کا شکار ہو گئے۔

بھلا ایسے سماج میں ان لوگوں کا کیا بس چلے جو اپنی عقل کو کام میں لاتے ہوئے مہینوں پڑھ کر امتحان کی تیاریاں کریں، پورا نصاب بھی یاد کریں اور پرچے بھی اچھے انداز میں حل کرکے آئیں اور ان کے ساتھ والے حل شدہ پرچہ جات اور گائیڈوں کے ذریعے یک سوئی سے تمام جوابات آسانی سے تحریر کریں اور امتحانی ہال میں چائے، سافٹ ڈرنکس ، پیٹس، سموسے کھا کر اٹھلاتے ہوئے باہر چلے جائیں ۔

پڑھ کر امتحان دینے والے کبھی سر کھجا کر اور کبھی پسینہ ماتھے سے صاف کرتے ہوئے اپنے کام میں مگن رہیں ۔ بات یہیں تک محدود نہیں رہتی، جب نتیجہ ظاہر ہوتا ہے تو’’ نقلچی‘‘ کا تو اے ون گریڈ ہوتا ہے اور بے چارا پڑھنے والا اے ہی بڑی مشکل سے لاپا تا ہے۔ ایسے میں سر جوڑ کر بیٹھنے اور اپنی قسمت سے شاکی ہونے کے علاوہ کوئی حل نہیں بچتا، تو اگلے برس وہ نوجوان بھی انتقامی کارروائی کے طور پر نقل بردارمجاہد بن جاتا ہے اور ہتھیاروں سے لیس ہو کر یہ عزم مصمم کر لیتا ہے کہ اب وہ نہیں یا پھر اے ون گریڈ نہیں۔

مصنوعی طریقے سے تعلیمی اسناد میں اضافے اور اچھی گریڈنگ کی اس ہوس نے نوجوانوں کو پست وبالا کرکے رکھ دیا، جو کام یاب رہتے ہیں وہ زعم کا شکار ہوجاتے ہیں جب کہ سیکنڈ اور تھرڈ کلاس والے طلبہ حسرت ویاس کی تصویر بنے پھرتے ہیں۔ پھر کوئی اہل ، ہنر مند ہمیں چپس بیچتا نظر آتا ہے اور کوئی کسی پرائیوٹ ادارے میں کلرک ہی بن جانے کو ترجیح دے کر دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو جاتا ہے۔

کوئی اس بات کا جواب دے سکتا ہے کہ نقل کا آغاز کس نے کیا؟ وہ کون سے عوامل تھے جس کی بنا پر نوجوانوں کو بھر پور انداز سے اس کام کی کھلی چھوٹ دی گئی، انتظامیہ کے افراد کیوں بے بس رہے کہ نقل کو روکنا ہمارے اختیار میں نہیں۔ وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے نوجوانوںکو اہل اور ہنر مند فرد بنانے کے بجائے معاشرے کا بے ہنر فرد بنانے میں جتے رہے، ہم نے ایسے معاشرے کی تشکیل میں اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کیا جس میں خواندگی اور بے روزگاری کی شرح تو بڑھی ،ساتھ ہی ڈگری ہولڈر ’’ناخواندہ افراد ‘‘کی تعدا دبھی روز افزوں ترقی کرتی گئی۔

ہم نے خود ایسے نوجوان دیکھے ہیں جو گریجویٹ تو ہیں لیکن اپنے کالج کا نام نہیں بتا سکتے، اپنے مضامین کے بارے میں دسترس رکھنا تو بہت دور کی بات ، اس کے ناموں سے ،اس کی ہجے تک سے واقف نہیں اور وہ اتراتے پھرتے ہیں کہ میں نے بی ایس سی کیا ہے، میں نے ماسٹرز کیا ہے اور جانے کیا کچھ۔بھلا ہو ان اسمارٹ فونز کا کہ جس نے کتابی وسائل کے ذریعے کمانے والوں کی روزی پر تو لات ماری ہی، نوجوانوں کی تلاش ِجوابات کی رہی سہی سعی کو بھی رائگاں کر دیا۔

اب تو یہ ہے کہ انٹرنیٹ کھولا اور ’گوگل بھائی جان ‘کو اپنے سوال کا جواب دینے کا حکم دے ڈالا، وہ تو ’’کیا حکم ہے میرے آقا ‘‘کے مصداق ہر وقت ، ہرایک کے آگے ہاتھ باندھے کھڑا ہوتا ہے اور سوال پاتے ہی جواب نکالنے کے لیے معلومات کے سمندر میں غوطے لگاتا ہو ا بہترین جواب مہیا کر دیتا ہے اور بس پھر نظریں موبائل پر اور چھپائی کاپی پر.... اب اس میں کیا لکھا تھا اور سوال کیا تھا ، اسے اس سے کوئی سروکار نہیںہوتا۔

قابلیت کے اس معیاراور اس طور کی پڑھائی نے معاشرے میں سدھار لانے کے بجائے گنواروں کی فوج اکٹھا کرنے میں بھر پور کردار ادا کیا۔ ارباب اختیار اس بات سے قطعی غافل ہیں کہ یہ نوجوان ہمارا مستقبل ہیں ، ان ہی کو اس سماج کی بھر پور طریقے سے خدمات انجام دینا ہیں۔ اگر یہ پڑھے لکھے ہوں گے تو اپنی صلاحیتوں سے وطن عزیز کو مستفید کریں گے ورنہ ان کی حیثیت ماسوائے بوجھ کے کچھ نہیں۔

ایسے افراد جب ملازمتوں میں آ جاتے ہیں تو اپنے اداروں میں کوئی خاص کارکردگی دکھانے کے اہل نہیں ہوتے ، وہ ملازمت بھی محض وقت گزاری اور مال کمانے کا ذریعہ سمجھ کر اپناتے ہیں کہ تن خواہ تو گھر کے خرچے کے لیے اور اوپر کی آمدنی اُپری کاموں کے لیے مناسب رہے گی ۔ اور پھر ایسے ہی افراد بدعنوانی میں بھی ملوث پائے جاتے ہیں۔ گویا خرابی کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ ہے جو تھمنے نہیں پاتا۔ بورڈ اور جامعات داخلوں کی تعداد اور روزافزوں فیسوں میں اضافے کے نادر احکامات جاری کرنے میں کبھی پیچھے نہیں رہتیں لیکن طلبہ کے لیے موثر حکمت عملی تیار کرنے ، نصاب کے مطابق تدریسی عمل کی بحالی اور لیے جانے والے امتحانوں کی صائب تشکیل وترتیب کی طرف توجہ نہیں کی گئی۔

امتحان لینے والے بورڈ ز اور جامعات امتحانات منعقد کرانے کے لیے بیش بہا رقم خرچ کرتے ہیں گوکہ یہ رقم بھی طلبہ کی جیبوں سے وصول کی جاتی ہے، امتحانی عمل کی جانچ کے لیے ہزاروں افراد مقرر کیے جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود اس عمل میں شفافیت نہیں آتی۔مبینہ طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ امتحانی عمل کی جانچ کے لیے جنھیں خارجیوں کے طور پر مقرر کیا جاتاہے ، ان میں سے چند لوگ اپنے مراکز تک جانے کی یا اس کا مکمل طور کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے ،جس کے سبب سینٹر کے مقامی نگرانوں کو نقل روکنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور طلبہ شتر بے مہار کی طرح اپنے فرائض بہتر انداز میں انجام دے کر اچھی پوزیشن کے لیے کوالیفائی کر لیتے ہیں۔

پچھلے سال سے ان اداروں کی جانب سے نقل کی بیخ کنی کے لیے موثراقدامات کیے جا رہے ہیںلیکن یہ کارروائیاں بھی محدود پیمانے پر ہیں ، کہیں نقل عروج پر تو کہیں سختی آسمان کی وسعتوں کو چھو رہی ہے۔ اس انداز سے طلبہ اور ان کے والدین میں یہ تشویش پیدا ہو گئی ہے کہ اگر کوئی بھی کام سرعت سے کرنا مقصود ہے تو پھر اس کے اثرات سب جگہ ایک سے نظر آنے چاہییں ۔ ایسا نہ ہو کہ دور افتادہ مقامات پر کھلے بندوں کاپی چلتی رہے اوروہ تو نمایاں رہیں اور جن علاقوں میں ہلنے پر بھی قدغن ہو تو پھر ایسے طلبہ کا کوئی پوزیشن لینا تو درکنار ، پاس ہونا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا۔ تعلیمی ادارے یا تو خواب غفلت میں پڑے رہے اور اب جاگے ہیں تو ایسے کہ اگرکوئی طالب علم کسی ایک پرچے میں نقل کرتا ہوا پکڑا جائے تو اس کے تمام پیپرز منسوخ کر کے اسے بار بارامتحان دینے پر مجبور کیا جائے۔

یہ تمام وہ حالات اور واقعات ہیں جو امتحانی نقائص کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ ہم نقل کے خلاف ہیں اور یہ ضرور چاہتے ہیں کہ ان عوامل کی بیخ کنی ہو۔ پڑھے لکھے اہل افراد اُپر آئیں اورملک و قوم کے لیے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر ایک صحت مند اور خوش حال معاشرے کی تشکیل میں اپنا اہم کردار ادا کریں لیکن ساتھ ہی اس بات کی امید ضرور رکھیں گے کہ تمام ذمے داران اپنی پالیسیاں تمام علاقوں کے لیے یکساں بنائیں، جن افراد کو نقل روکنے کی ذمے داری تفویض کی جائے وہ شہر میں موجود ہو تو مٹھی میں یا چک نمبر میں بھی اسی طرح سے موجود ہوں اور اس کی کارکردگی بھی نظر آئے کہ جس کام کے لیے اسے بورڈ یا یونی ورسٹی ایک خطیر ر قم دیتی ہے۔

اسی انداز سے پرچوں کی جانچ بھی ان اداروں کی بندربانٹ کا شکار ہو چکی ہے۔ پیپر سیٹنگ ،اس کی چیکنگ کے لیے معیار ، تجربہ اور اہلیت کوئی معانی نہیں رکھتی ، اس کے لیے یہ لازم ہے کہ آپ ناظم امتحان کے کتنے مقرب ہیں؟ آپ فیس بک پر اس کی پوسٹ کو کتنا لائک کرتے ہیں، اس کے بچوں کی کام یابیوں پر کتنے کیک اور تحائف لے کر جاتے ہیں اور اس کی خوش نودی حاصل کرنے کے لیے کیا کیا جتن کرتے ہیں، پھر توامتحانی نگرانی بھی آپ کے ذمے،کاپیوں کی جانچ بھی آپ کریں گے ، پیپر بھی آپ بنائیں گے اور پریکٹیکل کا معاوضہ بھی آپ کا مقدر ٹھہرا۔

جب حالات اس ڈگر پر چلے جائیں تو بہت زیادہ سختی بھی طلبہ کے لیے بڑی سزا ہو جاتی ہے۔جب طلبہ کی خرابیاں دور کی جارہی ہیں تو ضرورت اس امر کی ہے کہ اندرون خانہ بھی اپنی اصلاح کے تمام ضابطے پورے کیے جائیں۔ خوشامدی افراد کی حوصلہ شکنی کی جائے، میرٹ کا خون نہ کیا جائے، حق دار کو اس کا حق دیا جائے ایک ہی ممتحن سے ہزاروں کاپیوں کی جانچ کرانے سے بچا جائے، تعلیم کے شعبے میں موجود ہر اہل فرد کی خدمت سے استفادہ کیا جائے، مختلف امور ، مختلف اساتذہ سے لیے جائیں کہ مل جل کر کام کرنے سے وقت بھی بچتا ہے اور معیار بھی قائم ہو سکتا ہے۔ ہمارے خیال میں پورے امتحانی نظام میں شفافیت ہی اس عمل کو بہتر اور راست بنانے میں اپنا بھر پور کردار ادا کر سکتی ہے اور ہمارا ملک ایک پڑھا لکھا پاکستان بن سکتا ہے۔