بریگزٹ نے یونائیٹڈ کنگڈم ٹوٹنے کےامکانات بڑھا دیئے ہیں

February 17, 2020

اسکاٹ لینڈ کی ڈائری۔۔ طاہر انعام شیخ
برطانیہ کا یورپی یونین سے نکلنے کا فیصلہ ہوچکا، اب اس کے اچھے یا برے کیا اثرات مرتب ہوں گے اس بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا، یہ معروضی حالات اور31دسمبر تک برطانیہ کے یورپی یونین اور دیگر بااثر ممالک کے ساتھ تجارتی معاہدوں پر منحصر ہے لیکن ایک بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ بریگزٹ نے فی الحال سیاسی طور پر یوکے کی سالمیت کے لیے خطرات پیدا کردیے ہیں، اس میں سب سے بڑا خطرہ اسکاٹ لینڈ اور شمالی آئر لینڈ کے معاملات ہیں، اسکاٹ لینڈ کی یوکے سے علیحدگی کا ریفرنڈم2014ء میں ہوا تھا، جس میں اسکاٹش عوام نے واضح اکثریت45کے مقابلے میں55سے بدستور برطانیہ کے ساتھ رہنے کے حق میں فیصلہ دے دیا تھا، لیکن2016ء میں یورپی یونین کے متعلق ریفرنڈم میں یوکے، کے چاروں صوبوں نے مختلف طور پر فیصلے کیے، انگلینڈ اور ویلز نے یورپی یونین سے نکلنے جبکہ اسکاٹ لینڈ اور شمالی آئر لینڈ نے ساتھ رہنے کے حق میں ووٹ دیے، اسکاٹ لینڈ میں جہاں کافی عرصے سے آزادی کی ایک مضبوط تحریک چل رہی ہے، اس ریفرنڈم نے اسکاٹش نیشنل پارٹی کو آزادی حاصل کرنے کے سلسلہ میں نیا جواز مہیا کردیا کہ یہاں کے عوام نے38کے مقابلے میں62فیصد سے یورپی یونین کے ساتھ رہنے کے حق میں فیصلہ دیا ہے اور اب وہ اپنی اس خواہش اور فیصلے کی تکمیل صرف اس شکل میں کرسکتے ہیں، جبکہ اسکاٹ لینڈ برطانیہ سے علیحدہ ہے اور ایک آزاد ریاست کے طور پر یورپی یونین کا ممبر بنے، اسکاٹش نیشنل پارٹی نے دارالعوام اور اسکاٹش پارلیمنٹ کے ہونے والے آئندہ الیکشن بھی اسی بنیاد پر لڑے اور ان میں کامیابی کو آزادی کے ایک نئے ریفرنڈم کے لیے مینڈیٹ قرار دیا، یورپی یونین بھی اس بارے میں اسکاٹ لینڈ کے لیے ہمدردانہ جذبات رکھتی ہے، اس کے سابق صدر ڈونلڈ ٹسک کہتے ہیں کہ یورپی یونین کی سپورٹ اسکاٹ لینڈ کی ممبر شپ کے لیے ہوگی، لیکن یہ آٹومیٹک نہیں، اس کے لیے تمام رسمی کارروائیاں پوری کرنی ہوں گی، جس کے لیے27 ممبران ملکوں کی رضامندی چاہیے ہوگی، بریگزٹ کے بعد اسکاٹ لینڈ کی برطانیہ سے آزادی کی تحریک بہت زور پکڑ گئی ہے، گزشتہ چند ہفتوں کے دوران ہونے والے تین عوامی سروے میں تسلسل کے ساتھ آزادی کے حق میں فیصلہ دیا گیا ہے، ایک سروے میں50فیصد، دوسرے میں51فیصد اور تیسرے میں52فیصد سے علیحدگی کے لیے رائے دی گئی، علاوہ ازیں اسکاٹش پارلیمنٹ نے بھی حال ہی میں54کے مقابلے میں64ووٹوں سے آزادی کے لیے ریفرنڈم کا مطالبہ کیا ہے اور ساتھ ہی دارالعوام سے کہا ہے کہ وہ نئے ریفرنڈم کے اختیارات اسکاٹش پارلیمنٹ کے حوالے کرے، اسکاٹش نیشنل پارٹی کی سربراہ اور اسکاٹش حکومت کی فرسٹ منسٹر نکولا سٹرجن نے2020ء کے آخر میں آزادی کا نیا ریفرنڈم کرانے کا وعدہ کیا تھا، لیکن برطانیہ کے نئے وزیراعظم بورس جانسن اس بارے میں کئی بار واضح طور پر انکار کرچکے ہیں، ان کی دلیل ہے کہ آزادی کے ریفرنڈم روز روز نہیں ہوتے، عوام2014ء کے ریفرنڈم میں اس بارے میں واضح فیصلہ دے چکے ہیں اور خود اسکاٹش نیشنل پارٹی کے لیڈروں کے مطابق آزادی کا گزشتہ ریفرنڈم ایک پوری نسل کے لیے تھا، نکولا سٹرجن اس وقت ایک آئینی شکنجے میں پھنس چکی ہیں، آزادی کے حامی ان پر فوری ریفرنڈم کرانے کے لیے دبائو ڈال رہے ہیں، جبکہ وہ کوئی غیر آئینی کام نہیں کرنا چاہتی اور ایک ایسے طریقے سے آزادی حاصل کرنا چاہتی ہیں جسے پوری دنیا تسلیم کرے اور وہ باآسانی یورپی یونین کی ممبر بن سکیں، پارٹی ممبران کے دبائو سے مجبور ہوکر بالآخر انہوں نے اپنا پلان بی بتاتے ہوئے کہا ہے کہ شاید وہ ایک مشاورتی ریفرنڈم کرانے کے لیے اس کی قانونی حیثیت کے بارے میں غور کریں، لیکن ساتھ ہی کہا کہ یہ ان کا ترجیحی منصوبہ نہیں، نکولا سٹرجن کو علم ہے کہ اگرچہ اس وقت اسکاٹش عوام کی اکثریت آزادی کے لیے ریفرنڈم کے حق میں ہے لیکن اس اکثریت میں کمی بیشی بھی آسکتی ہے، چنانچہ بعض پارٹی رہنمائوں کا خیال ہے کہ ریفرنڈم اس وقت ہونا چاہیے جب عوام کی اکثریت40کے مقابلے میں60فیصد سے آزادی کے حق میں فیصلہ دے، نکولا سٹرجن جو2020ء کے آخر میں ریفرنڈم کرانا چاہتی تھی، اب ان کا کہنا ہے کہ شاید نیا ریفرنڈم2021ء میں ہو،نیا ریفرنڈم اسکاٹش پارلیمنٹ کرائے گی یا برطانوی پالیمنٹ، اس بارے میں بھی ابھی صورت حال واضح نہیں، کیونکہ یہ ایک آئینی معاملہ ہوگا، جس کا فیصلہ شاید عدالت کرے گی، فی الحال صورت حال یہ ہے کہ نکولا سٹرجن وزیراعظم بورس جانسن کو نیا ریفرنڈم کرانے کے لیے مجبور نہیں کرسکتیں اور نہ ہی ان کی مرضی کے بغیر قانونی طور پر خود نیا ریفرنڈم کرواسکتی ہیں، لیکن جس طریقے سے آزادی کی تحریک بڑھ رہی ہے نکولا سٹرجن کا سارا زور اب اسکاٹش پارلیمنٹ کے اگلے الیکشن میں تاریخی فتح حاصل کرنا ہے، اگر وہ اس میں کامیاب ہوجاتی ہیں اور نئی اسکاٹش پارلیمنٹ ایک بار پھر اکثریت کے ساتھ نئے ریفرنڈم کے حق میں فیصلہ دیتی ہے تو اس زبردست عوامی دبائو کے سامنے ٹھہرنا شاید برطانوی حکومت کے لیے ممکن نہ ہو، اس وقت لیبر لیڈر شپ کے لیے امیدواروں میں سے ربیکا لانگ بیلی بھی نئے ریفرنڈم کی مکالف نہیں، جبکہ کنزرویٹو پارٹی کے ممبران میں بھی خاصی تعداد میں ایسے لوگ ہیں جوکہ ریفرنڈم کی حمایت کرنے پر مجبور ہوجائیں گے، شمالی آئر لینڈ کے معاملہ میں بھی صورت حال کوئی زیادہ حوصلہ افزا نہیں اور وہاں خاصی تعداد میں ایسے لوگ موجود ہیں جو بریگزٹ کے بعد متحدہ آئر لینڈ کی شکل میں یورپی یونین کا حصہ رہنا چاہتے ہیں، نیز چونکہ ری پبلک آف آئر لینڈ یورپی یونین میں ہوگا جبکہ شمالی آئر لینڈ یوکے میں ہونے کے باعث اس کا حصہ نہیں رہے گا، اس سلسلہ میں اب دونوں ممالک کے قوانین مختلف ہوں گے، جس سے بہت زیادہ مسائل پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔