بچّے ریاست کی بھی ذمہ داری ہیں

February 23, 2020

آج اتوار ہے۔

یاد دلانے کی ضرورت تو نہیں ہے مگر آپ جتنے مصروف رہتے ہیں، آپ کو دنیا جہان کی فکریں کھائے رکھتی ہیں، ٹرمپ کی پالیسیوں پر آپ کی نظر ہے، برطانیہ کے یورپی یونین سے نکل جانے کا غم آپ کو ہے، عمران خان اپنے برسوں کے ساتھی نعیم الحق کے جنازے میں کیوں شریک نہ ہوئے یہ بھی آپ دوستوں سے بار بار پوچھ رہے ہیں، پھر یہ کہ اگلے مہینے میں مارچ ہو رہا ہے یا نہیں، ایک دل، ایک دماغ، اتنے تفکرات:

میری قسمت میں غم گر اتنا تھا

دل بھی یا رب! کئی دیے ہوتے

اس لیے میں ہر اتوار آپ کے دل و دماغ پر دستک دیتا ہوں کہ آج آپ نے اپنے بچوں اپنے مستقبل کے لیے وقت نکالنا ہے۔ ہو سکے تو ناشتہ بھی ان کے ساتھ کریں۔ ورنہ دوپہر کو تو کھانا ان کے ساتھ ضرور کھائیں۔ اور ان کی باتیں سنیں۔ ان کے سوالات کے جواب دینے کی کوشش کریں۔ چھ دن وہ بہت کچھ دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ سن رہے ہوتے ہیں۔ بہت سے سوالیہ نشان بُن رہے ہوتے ہیں۔ ان کا خیال ہے اور یقیناً درست بھی کہ آپ ہی ان سب الجھنوں کو سلجھا سکتے ہیں۔ آپ ان کے بڑے ہیں۔ ایک دنیا دیکھ چکے ہیں۔ اپنا برا بھلا دیکھتے رہے ہیں۔ اب ان کو بھی نیک و بد سمجھا سکتے ہیں۔

آج میں یہ بھی سوچ رہا ہوں کہ میں آپ کو تو ہر سات دن بعد جگاتا ہوں۔ جھنجھوڑتا ہوں۔ ذہن پر زور دیتا ہوں کہ آپ کی اپنی اولادوں کے لیے کیا ذمہ داریاں ہیں۔ لیکن ریاست کی بھی تو بہت ذمہ داریاں ہیں۔ اس کے بھی کچھ فرائض ہیں۔ اسے بھی تو کچھ یاد دلانا چاہئے۔ یہ بچے ریاست کا بھی مستقبل ہیں۔ ریاست کے بھی بیٹے بیٹیاں ہیں۔ ریاست ان کے لیے کیا کر رہی ہے۔ ہم امریکہ، کینیڈا، یورپ جاتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ ریاست ہر پیدا ہونے والے بچے کا کتنا خیال رکھتی ہے۔ وہ اپنے ہر شہری کو اپنا اثاثہ قرار دیتی ہے۔ اس کی حفاظت، اس کا روزگار، اس کی عزت کو اپنی اولین ذمہ داری سمجھتی ہے۔ اپنے اس فرض کی ادائیگی وہ شہری کے بچپن سے ہی شروع کر دیتی ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ بچے کی پیدائش سے پہلے سے ہی ریاست کے قوانین پر عملدرآمد کا آغاز ہو جاتا ہے۔ جائے پیدائش پر بھی قوانین کی پیروی کی جاتی ہے۔ ڈاکٹروں نرسوں کو واضح طور پر تمام قواعد و ضوابط اور احتیاطی تدابیر کا علم ہے، ماں باپ کو بھی۔ اسپتال سے جب وہ یہ نئی کائنات لے کر گھر جائیں گے، اس فاصلے کے لیے بھی قوانین موجود ہیں۔ اس کے بعد بچے کی زندگی کے مختلف مراحل کے لیے مختلف حفاظتی اور احتیاطی قاعدے ہیں۔ جن کی پابندی ضروری ہے۔ ورنہ ریاست بچے کو اپنی تحویل میں لے لیتی ہے۔ خود اس کی مروجہ قواعد کے مطابق پرورش کرتی ہے۔ ہمارے پاکستانی یا جنوبی ایشیا کے لوگ جو ان مہذب ملکوں میں جاتے ہیں وہ تو ان احتیاطی قوانین کے عادی نہیں ہوتے۔ ہم اپنے بچوں کو لاڈ پیار تو کرتے ہیں مگر اپنا اثاثہ نہیں سمجھتے۔ نہ ہی ہماری ریاستیں یہ تصور رکھتی ہیں۔ اس لیے شروع شروع میں پاکستانی خاندانوں کو ان تصورات سے ہم آہنگی میں بہت مشکلات پیش آتی ہیں۔ اکثر مائیں بڑبڑاتی ہیں، کمال ہے ہمارا بچہ ہے، فکر حکومت کو ہے، کیا ہم نے پہلے بچے نہیں پالے ہیں۔

ہمارے خطّے میں بچے پیدا بھی کسی سوچ بچار کے بغیر کیے جاتے ہیں۔ پلتے پلاتے بھی اسی طرح ہیں۔ ریاستوں نے کوئی قواعد وضع نہیں کیے ہیں۔ خاندانوں میں بھی کوئی کلچر نہیں ہے۔ بہوئیں اگر زیادہ تردد کریں تو ساسیں بلا تامل کہہ اٹھتی ہیں یہ سب دکھاوا ہے، کیا ہم نے بچے نہیں پالے، صرف نخرا ہے۔

آپ بتائیے کہ کیا ریاست پاکستان کی کوئی چلڈرن پالیسی ہے۔ ہمارا آئین بچوں کی پیدائش، پرورش کے بارے میں کوئی واضح شقیں رکھتا ہے۔ کیا ریاست پاکستان ہر بچے کو اثاثہ قرار دیتی ہے اور کیا اس کی پرورش کو اپنی ذمہ داری سمجھتی ہے۔ کیا والدین کو یہ بتایا گیا ہے کہ بچے کو عمر کے کس مرحلے پر کیسے سنبھالنا ہے۔ کیسے پالنا ہے۔ کیا کبھی میڈیا پر اس انتہائی اہم، نازک اور حساس مسئلے پر مذاکرے ہوتے ہیں۔ ہمارے سیاسی قائدین جو ہر شعبے میں مہارت کے دعویدار ہیں۔ انہیں کبھی اپنے مستقبل کی پرورش تربیت کے معاملات پر گفتگو کرتے سنا ہے۔ کیا کوئی ٹی وی چینل صرف بچوں کے لیے مخصوص ہے۔

ہماری نسلوں کی نسلیں اسی بے احتیاطی، عدم توجہی میں اور خیال داری کے بغیر پل بڑھ رہی ہیں۔ اس لیے جب وہ عملی زندگی میں آتی ہیں تو ان کی عادتوں میں بھی احتیاط، توجہ اور منصوبہ بندی شامل نہیں ہوتی۔ انہوں نے افراتفری میں آنکھ کھولی ہے۔ مارا ماری میں جوان ہوئی ہیں۔ جو دیکھا ہے وہی ان کو آتا ہے۔

کیا ہم نے سوچا کہ اگر ایک نسل ہم پوری توجہ سے پیدا کریں۔ منصوبہ بندی سے پالیں۔ ریاست بچوں کے بارے میں ماہرین صحت و تعلیم سے مشورہ کرکے، مہذب ملکوں کے قوانین سے استفادہ کرکے، ایک جامع پالیسی تشکیل دے۔ صوبوں میں ایک وزارت صرف بچوں سے متعلق ہو اور ترجیحی طور پر اس کی وزیر کوئی خاتون ہو۔ حکومتی میعاد تو پانچ سال ہوتی ہے، اس میں ایک نسل تیار نہیں ہو سکتی۔ اس لیے چلڈرن پالیسی کو آئینی تحفظ ہونا چاہئے۔ حکومت بدلنے سے یہ پالیسی تبدیل نہیں ہونی چاہئے۔ ہر حکومت پر اس کا تسلسل لازم ہو۔

پتا نہیں آپ میری باتیں سن رہے ہیں یا نہیں۔ یا بچوں کی طرح ان باتوں کو بھی بوجھ سمجھ رہے ہیں۔ میرے سامنے اپنا مستقبل ہے۔ خوف آتا ہے کہ ہم نے جن ہنگاموں، فسادوں، بےیقینیوں میں اپنے ماہ و سال گزارے ہیں، کیا ہمارے بیٹے بیٹیاں، پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں بھی اسی طرح کے طوفانی موسموں میں زندگی بسر کریں گے؟ پھر تو انہیں لاس اینجلس، بریڈ فورڈ، ٹورنٹو، کیلگری، پرتھ، سڈنی، کوالالمپور آوازیں دیتے رہیں گے۔ اور وہ سفارت خانوں، قونصلیٹوں کے سامنے ویزوں کے لیے قطاروں میں لگے رہیں گے۔

کیا جنوبی ایشیا میں پیدا ہونے والوں کا مقدر ہجرتیں ہی رہیں گی۔ ہم تو آٹھ دس ہزار سال پہلے سے تہذیب و تمدن کا گہوارہ رہے ہیں۔ دنیا نے جینے کے سلیقے ہم سے سیکھے ہیں۔ آج بچوں کے ساتھ بیٹھیں، دل کھول کر باتیں کریں۔ مستقبل کو روشن اور مستحکم بنانے کی بنیاد رکھیں۔