9/11 کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہلاک ہونے والوں میں 97 فیصد مسلمان تھے، ڈاکٹر علی شیرازی

February 26, 2020

برسلز ( حافظ ا نیب راشد ) بیلجیم میں مقیم پاکستانی نژاد اسکالر ڈاکٹر علی شیرازی نے کہا کہ امریکہ میں11/9کے واقعات کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 4 ملین افراد ہلاک ہوئے جن میں 97 فیصد اموات مسلمانوں کی ہوئیں ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے دنیا کی اولین 10 یونیورسیٹیوں میں شامل یورپ کی واحد بیلجین یونیورسٹی KU Leuven میں جہاد اور سٹیریو ٹائپنگ کے موضوع پر لیکچر دیتے ہوئے کیا۔ مختلف موضوعات پر گفتگو کے امریکی پلیٹ فارم TEDX کیجانب سے یونیورسٹی میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر علی شیرازی نے کہا کہ آج میڈیا کی بھر پور طاقت کو استعمال کرتے ہوئے ذہنوں اور دوسروں کے بارے میں سوچ کو تبدیل کیا جارہا ہے ۔ اس کی مثال میں انہوں نے ایک تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ کسطرح ایک دہشت گرد حملہ جب ایک مسلمان نے کیا تو اس واقعے کی 357 مرتبہ کوریج ہوئی۔ جہاں 105 مرتبہ اس کی ہیڈلائین بنائی گئی ۔ جبکہ ایسا ہی حملہ یا عمل جب کسی یورپین یا دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والے نے انجام دیا تو اسے صرف 15 مرتبہ ہیڈلائین بنایا گیا اور اسے کسی مذہب سے بھی نہیں جوڑا گیا۔ ڈاکٹر علی شیرازی نے ایک اور اہم پہلو کی نشاندہی کرتے ہوئے بتایا کہ گذشتہ تین دہائیوں سے جھوٹ انتہائی اعلی سطح پر بولا گیا جس کی ایک مثال عراق میں "وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں "کی موجودگی کی اطلاع تھی۔ جسے دوسرے ممالک میں مداخلت کا ایک ذریعہ بنایا گیا ۔ دہشت گردی کے نام پر ہونے والی اس جنگ میں پاکستان میں 80 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے ۔ اسی دوران فرقہ وارانہ جنگ کو ہوا دی گئی ۔ انہوں نے کہا کہ یہ صرف ہلاکتیں ہیں ۔ اس موقع پر انہوں نے اسلام میں موجود حرب اور جہاد کے فرق پر روشنی بھی ڈالی۔ انہوں نے واضح کیا کہ مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر میں جہاد کا اعلان صرف ریاست کرسکتی ہے ۔ ڈاکٹر علی شیرازی نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ہر نسل کو ہر دور میں کمیونزم، سوشل ازم،نازی آئیڈیا لوجیاور نیوکلیئر ریس سمیت کسی نہ کسی چیلنج اور ذہنی و سیاسی رجحان کا سامنا کرنا پڑا ۔ گذشتہ تین دہائیوں سے ہم اس دہشت گردی کے رجحان کا سامنا کر رہے ہیں ۔ یہ ایک فنامنا ہے، جو ذہن کی سائنس سے جڑا ہوا ہے ۔ اس کے مختلف مراحل میں فرد یا ریاست کے نظم سے باہر گروہ کا عمل بےچینی پیدا کرتا ہے۔ سویلین سوسائیٹیز جان جانے کے خوف میں مبتلا ہو جاتی ہیں، جذبات خیالات کو کنٹرول کرنے لگتے ہیں ۔ فیصلوں میں عقلی دلیل کی گنجائش نہیں رہتی لیکن اس کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے۔ انہوں نے اس صورتحال کو دلیل اور عقل سے حل کرنے کیلئے ایک اور تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ 1963 سے لیکر ابتک 87 فیصد دہشت گردانہ اقدامات کی حامل تنظیموں کو ریاستی پالیسی میں تبدیلی اور بات چیت کے نتیجے میں مطمئن کیا گیا۔صرف سات فیصد کو فوجی طاقت کے ذریعے ختم کرنا پڑا۔ ڈاکٹر علی شیرازی نے اس موقع پر تجویز کیا کہ مغربی ممالک دوسرے ملکوں میں بلکل مداخلت نہ کریں ۔ میڈیا ہائیپ اور ایک ایسے مذہب کو ٹارگٹ کرنا بند کریں جس کے ماننے والے دنیا میں ایک اعشاریہ 7 ملین ہیں ۔ ہمیں دنیا میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا ماحول اپنانا ہوگا ۔ یاد رہے کہ اس گفتگو میں پیش کئے گئے اعدادوشمار امریکن انسداد دہشت گردی سینٹر، مغربی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ اور مغربی اداروں ہی سے لئے گئے تھے۔