نیویارک میں زیرِ تعمیر دنیا کا بلند ترین رہائشی ٹاور

March 01, 2020

امریکا کی تاریخ کی بلند ترین رہائش عمارت 15سال تک تکمیل کے مختلف مرحلوں سے گزرنے کے بعد اب تکمیل کے قریب پہنچ چکی ہے۔ اس ٹاور کی تعمیر کا منصوبہ 2004ء میں تیار کیا گیا تھا، تاہم تمام تر قانونی تقاضوں اور مسائل سے نمٹنے کے بعد اس کی تعمیر کا باقاعدہ آغاز10سال بعد یعنی 2014ء میں ہوا۔ ایک اعشاریہ ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے ساتھ تیار کیا جانے والا نیویارک کا سینٹرل پارک ٹاور 179انتہائی پُرتعیش رہائشی یونٹس پر مشتمل ہے۔ یہ ٹاور نیویارک میں رہنے والے ارب پتی افراد کے محلے کے قریب تعمیر کیا گیا ہے اور توقع ہے کہ رواں سال کی چوتھی سہ ماہی تک ہر لحاظ سے اس کی تعمیر مکمل کرکے جائیداد خریداروں کے حوالے کردی جائے گی۔

نیویارک میںدنیا کی بلند ترین رہائشی عمارت کو اَیکسٹیل نامی تعمیراتی کمپنی بنارہی ہے اوراس کی بلندی 1,550فٹ ہے۔ اسے رہائشی عمارت اس لیے قرار دیا گیا ہے کیونکہ اس کے زیادہ تر یونٹس رہائشی ہیں۔ دبئی کا برج خلیفہ، نیویارک کے سینٹرل پارک ٹاور سے کئی سو فٹ بلند ہے، تاہم اس میں رہائشی یونٹس کم جبکہ دفاتر، ریٹیل اسٹورز اور ٹورسٹ مقامات زیادہ ہیں۔ تاہم اگر خالصتاً اعدادوشمار کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ امریکا اور مغربی نصف کرہ کی دوسری جبکہ عالمی سطح پر پندرھویں بلند ترین عمارت ہے۔

نیویارک کا سینٹرل پارک ٹاور، شہر کی دیگر فلک بوس عمارتوں کی صف میں شامل ہوگا۔ ان فلک بوس عمارتوں میں 432پارک ایونیو شامل ہے، جہاں ہالی ووڈ کی معروف اداکارہ اور گلوکارہ جینیفر لوپیز نے بھی ایک گھر خریدا تھا، جسےحال ہی میں انھوں نے17 اعشاریہ 5 ملین ڈالر میں فروخت کرنے کے لیے پیش کیا ہے۔ دنیا کی بلند ترین رہائشی عمارت کے لیے نیویارک کی ایک اور امیدوار بلڈنگ57ویں اسٹریٹ پر واقع 111ویسٹ ہے۔ اس وقت نیویارک میں زیرِ استعمال عمارتوں میں اس عمارت کی اونچائی پر پہنچنے کے لیے نیویارک کی بلند ترین کرین کی ضرورت پڑتی ہے۔

سینٹرل پارک کی بات کریں تو اس کے گراؤنڈ لیول سے لے کر ساتویں فلور کو پہلے ہی ایک فلیگ شپ ریٹیل اسٹور نے کرائے پر حاصل کرلیا ہے اور اسے عوام کے لیے کھولا بھی جاچکا ہے۔ یہی وہ کمپنی ہے جس کے باعث یہ انتہائی پرتعیش رہائشی پروجیکٹ ممکن ہوسکا ہے، کیونکہ اس ٹاور کی تعمیر کے لیے ابتدا میں درکار سرمایہ کا ایک بڑا حصہ اسی کمپنی نے فراہم کیا تھا۔

ٹاور کا ڈیزائن ’ایڈرائن اسمتھ + گورڈن گِل آرکیٹیکچر‘ نے تیار کیا ہے۔

بدقسمتی سے دنیا کے کئی حصوں میں اس وقت جائیداد کی مارکیٹ سستی روی یا ٹھہراؤ کا شکار ہے۔ یورپ کی سب سے بڑی پراپرٹی مارکیٹ لندن کو دیکھیں، یا پھر مشرقِ وسطیٰ میں دبئی کی پراپرٹی مارکیٹ پر نظر ڈالیں، تو ہمیں جائیداد کی قیمتوں میں گراوٹ دیکھنے میں آتی ہے۔

اسی طرح، نیویارک کی پراپرٹی مارکیٹ کی صورتِ حال بھی کچھ مختلف نہیںہے۔ نیویارک کی ریئل اسٹیٹ مارکیٹ میں کام کرنے والے ماہرین کے مطابق، شہر میں جائیداد کی قیمتوں میں 10سے 15فیصد تک کی گراوٹ دیکھی گئی ہے۔ بدقسمتی سے نیویارک کا یہ بلند ترین رہائشی ٹاوربھی ایک ایسے وقت میں لانچ کیا جارہا ہے، جب شہر کی ریئل اسٹیٹ مارکیٹ سست روی کا شکار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس عمار ت میں پراپرٹی اپنے قریبی پرتعیش ٹاور 220سینٹرل پاور کے مقابلے میں کم از کم 15فیصد سستی ہے۔ مارکیٹ کی سست روی کے باعث ڈیویلپرز اس بات پر شش وپنج میں مبتلا تھے کہ ٹاور کے آخری تین فلورز کو کس طرح ڈیزائن کیا جائے۔

کیا تینوں فلورز کو ملا کر ایک انتہائی پرتعیش ٹرپلیکس تعمیر کیا جائے یا پھر مارکیٹ کے حالات کو مدِنظر رکھتے ہوئے وہاں چھوٹے چھوٹے یونٹس تعمیر کیے جائیں تاکہ لوگ آسانی سے انھیں خرید کرسکیں۔ تاہم طویل سوچ بچار کے بعد، ڈیویلپرز نےبلندی پر موجود تینوں فلورز کو چھوٹے یونٹس میں تقسیم کرنے کے بجائے ٹرپلیکس پینٹہاؤس بنانے کے فیصلے کی توثیق کی ہے۔ اس ٹرپلیکس کی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کا رقبہ تقریباً 17,500مربع فٹ ہوگا اورمکمل ہونے کے بعد اس کا شمار دنیا کے انتہائی پرتعیش ٹرپلیکس یونٹس میں ہوگا۔

اب تک کی لسٹنگ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک اعشاریہ ایک ارب ڈالر میں مکمل ہونے والی اس عمارت کے تیار یونٹس فروخت کرنے کے لیے مجموعی طور پر 4ارب ڈالر سے زائد کی ڈیمانڈ رکھی گئی ہے۔ مثلاً، 2,114مربع فٹ پر محیط 2بیڈ روم اور 2.5باتھ روم والے یونٹ کی قیمت 6.9ملین ڈالر رکھی گئی ہے، 7,074مربع فٹ پر محیط 5بیڈ روم اور 5.5باتھ روم والے یونٹ کی قیمت 63ملین ڈالر رکھی گئی ہے۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ ڈیویلپرز نے ابھی زیرِتکمیل ٹرپلیکس کی قیمت ابھی ظاہر نہیں کی ہے، جس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ وہ آنے والے چند ماہ کے دوران شہر کی ریئل اسٹیٹ مارکیٹ میں کچھ بہتری کی توقع رکھتے ہوئے اسے بہتر قیمت پر فروخت کرنے کے لیے پرامید ہیں۔

عمارت کے 100ویں فلور پر (8,300مربع فٹ رقبہ) مختلف سہولتوں سے آراستہ کلب (Amenity Space)بنایا جائے گا، جس کے بارے میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ یہ کسی بھی عمارت میں مکینوں کا بلند ترین کلب ہوگا۔ اس فلور میں ایک نجی بال روم، دو لاؤنج، ڈائننگ روم اور کچن وغیرہ شامل ہوں گے۔ یقیناً، یہ وہ سہولیات ہیں، جن سے کوئی بھی شخص متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے گا۔

بلڈر کمپنی کےسینئر نائب صدر جاکن ایف اسٹیرنز کہتے ہیں، ’’دنیا کے بہترین شیف سے لے کر اطراف میں درجنوں میل تک کے براہِ راست نظاروں تک ہمارا خصوصی امینٹی اسپیس، دنیا کی تمام رہائشی عمارتوں میں اعلیٰ ترین نفاست اور سہولیات فراہم کرے گا۔ ہماری عمارت فضا میں زندگی کی نمائندگی کرتی ہے اور سینٹرل پارک کلب کے 100ویں فلور سے بڑھ کر اس کا جشن اور کس جگہ منایاجاسکتا ہے؟‘‘

عمارت میں مجموعی طور پر 50ہزار مربع فٹ رقبہ کو لائف اسٹائل سرگرمیوںکے لیے مختص کیا گیا ہے۔ 14ویں فلور سے لے کر 16ویں فلور کو پولز، چینجنگ رومز، پرائیویٹ اسکرین رومز، بچوں کے کھیلوں کی جگہوں، اسپا اور فٹنس سینٹرز کے لیے مختص کیا گیا ہے۔ اس میں سے ایک اِن ڈور پول 63فٹ طویل ہوگا۔ انتہائی پرتعیش کنڈومنیم یونٹس 32ویں فلور سے شروع ہوتے ہیں، جن میں سب سے چھوٹے 2بیڈ روم کنڈومنیم کا رقبہ 2,114 مربع فٹ ہے، جس کی قیمت تقریباً سات ملین امریکی ڈالر رکھی گئی ہے (پاکستانی کرنسی میں یہ رقم ایک ارب روپے سے تجاوز کرجاتی ہے)۔

اس عمارت کے آخری فلور کے ڈھانچے کو گزشتہ سال خزاں میں مکمل کرلیا گیا تھا لیکن بلڈر کمپنی کا کہنا ہے کہ اسے اس سال کی آخری سہ ماہی سے قبل عوام کے لیے مکمل طور پر کھول دینا ممکن نہیں ہوگا۔

عمارت کے ڈیویلپرز کا یہ بھی دعویٰہے کہ اس رہائشی عمارت میں اس کے مکینوں کے لیے جن سہولیاتی کا بندوبست کیا گیا ہے، اس کی مثال اس سے پہلے کسی اور عمارت میں نہیںملتی۔

کہتے ہیں کہ ریکارڈٹوٹنے کے لیے ہی بنتے ہیں۔ نیویارک کایہ بلند ترین رہائشی ٹاور ابھی اپنی تکمیل کے آخری مراحل میں ہے کہ متعدد دیگر ڈیویلپرز نے ریاستی تعمیراتی اداروں سے نیویارک شہر میں اس سے زیادہ بلند رہائشی ٹاور تعمیر کرنے کی منظوری حاصل کرنے کے لیے رابطہ کرلیا ہے۔ ایک ڈیویلپر اسی علاقہ میں 1,600فٹ بلند رہائشی عمارت تعمیر کرنا چاہتا ہے، جس کے بارے میں اس کا دعویٰ ہے کہ وہ آئندہ چار برسوں میں تعمیر کرکے 2025کی پہلی سہ ماہی میں اس کے خریدار مکینوں کے حوالے کردے گا، تاہم نیویارک میں تعمیرات کے سخت ریگولیٹری ماحول کو دیکھتے ہوئے ڈیویلپرز کے لیے اس کی منظوری حاصل کرنا اتنا آسان ہرگز نہ ہوگا۔