تعلیمی اداروں میں ثقافتی پروگراموں پر پابندی؟

March 01, 2020

نامور ادیب، نقاد اور ماہر تعلیم میتھیو آرنلڈ کا کہنا ہے ’’کلچر تشدد اور تعصب سے آزادی حاصل کرنے کا نام ہے، چاہے یہ تعصب معاشی ہو صنعتی، تنظیمی، سیاسی یا مذہبی تنگ نظری۔ کلچر کی مثال شہد کے چھتے کی طرح ہے جس میں شہد بھی ہو اور موم بھی، شہد میٹھا بھی ہے، غذا اور دوا بھی اور چھتے میں جو موم ہے، اس سے شمعیں بنتی ہیں، انسان کو علم کی روشنی اور میٹھے کردار دونوں کی ضرورت ہے، کلچر کا لب لباب بھی یہی دو عناصر ہیں‘‘۔ گویا کلچر سے تشدد و تعصب ختم ہوتا ہے، نہ کہ یہ اس کا سبب ہے۔ پاکستان میں مگر ہم ہنوز کلچر یا ثقافت کی درست تفہیم سے آگاہ ہی نہیںہو سکے ہیں، اس امر کا ادراک راقم کو 26فروری کوایک خبر پڑھ کر ہوا، جس کے مطابق ’’وفاقی حکومت کی درخواست پر سندھ حکومت نے صوبے کی جامعات میں علاقائی قومی پروگرامز (سب نیشنل ایونٹس) پر پابندی عائد کر دی ہے، وفاقی محکمہ تعلیم کے ایڈیشنل سیکرٹری نے چیف سیکرٹری سندھ کو ایک مراسلہ بھیجا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کچھ جامعات میں علاقائی قومی پروگرامز منعقد کیے جا رہے ہیں جن سے قوم پرستانہ و لسانی نوعیت کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں لہٰذا اپنے تعلیمی اداروں میں ایسی لسانی، علاقائی، فرقہ وارانہ نوعیت کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کریں۔ خبر کے مطابق سندھ کی کئی جامعات میں سندھی ٹوپی اجرک ڈے، بلوچی ڈے سمیت علاقائی قومی پروگرامز منعقد ہوتے ہیں تاہم اب جامعات میں اس کی اجازت نہیں ہو گی‘‘۔ واضح رہے کہ علاقائی و لسانی پروگراموں سے مراد ثقافتی پروگرام ہیں۔ اگرچہ میتھیو آرنلڈ کی تعریف سے ظاہر ہے کہ نہ صرف اس طرح کے پروگراموں سے مسائل پیدا نہیں،حل ہوتے ہیں تاہم اس حوالے سے مزید سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ماہرین کے مطابق ثقافت عربی زبان کے لفظ ثقف سے نکلا ہے جس کے معنی عقلمندی اور مہارت کے ہیں۔ کلچر انگریزی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب کسی چیز یا ذات کی ذہنی یا جسمانی نشوونما ہے۔ ثقافت اکتسابی یا ارادی یا شعوری طرزِ عمل کا نام ہے۔ سرسید احمد خان کا کہنا ہے ’’متعصب شخص ایسے جانور کی مانند ہو جاتا ہے کہ اس کو جو کچھ آتا ہے اس کے سوا اور کسی چیز کی تعلیم و تربیت کے قابل نہیں ہوتا‘‘۔ گویا عربی و انگریزی میں ثقف و کلچر کے جو معنی ہیں وہ تعصب کی عین ضد ہیں، یعنی ثقافت کے حاملین ہر معاملے کو عقل، دانائی، شعور و مہارت سے جانچتے ہیں نہ کہ تعصب سے۔ وسیع مفہوم میں ثقاقت میں اخلاقی و معاشرتی رسوم، علوم و فنون، رہن سہن، میل جول، شعر و شاعری، موسم، کھیل کود، شادی بیاہ و دیگر رسومات شامل ہیں۔ ثقافت کو اتحاد کی علامت بھی قرار دیا جاتا ہے۔ فیض احمد فیضؔ کا کہنا ہے کہ ثقافت زندگی سے الگ کوئی چیز نہیں ہوتی، یہ داخلی اقدار کا نام ہے اور ظاہری طور پر طریقِ زندگی کا بھی۔کہنا یہ ہے کہ پاکستان ایک وسیع اور متنوع ثقافت رکھنے والا ملک ہے، اس طرح اس ملک کی یہ متنوع ثقافت صدیوں پرانی ہے جو ہمیں ہمارے آباؤ اجداد سے وراثت میں ملی ہے۔ آج کا پاکستان ایک کثیر المذہبی، کثیر اللسانی اور کثیر القومی ریاست ہے۔ پاکستانی ثقافت کی سب سے بڑی اور خاص بات یہ ہے کہ مختلف تہذیبوں نے شامل ہو کر اس کے رنگ کو نکھارا ہے۔ میرے شہر کراچی کو منی پاکستان اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہاں پاکستان کی تقریباً تمام قومیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد رہتے ہیں۔ میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ ان مختلف ثقافتوں کا اظہار ہی ہے جس کی وجہ سے ہم ایک دوسرے کو بہ آسانی جانتے بھی ہیںاور سمجھتے بھی۔ شاید کراچی ہی وہ شہر ہے جہاں کے شہری ہر پاکستانی زبان بولنے والے سے پاکستان بھر میں زیادہ آگاہ ہیں، ظاہر ہے کہ یہ پابندی کا فیض نہیں، اظہار کی دین ہے۔ثقافتی پروگراموں پر پابندی سے لامحالہ غیر نصابی سرگرمیوں کی نفی ہوگی۔ سب سے اہم بات یہ کہ ثقافتی یعنی علاقائی پروگراموں کی رنگا رنگی پاکستان کے حُسن کا جُزو لاینفک ہے اور ملکی حُسن ان علاقائی کھیلوں، مشاعروں، لباس و پوشاک وغیرہ کے اظہار سے ہی نمایاں ہوتا ہے لہٰذا یہ کس طرح مسائل کا موجب ہو سکتے ہیں؟آج وطن عزیز کشمیر پر بھارتی قبضے اور معاشی بحران سمیت مختلف مسائل سے نبرد آزما ہے، حالات یہ ہیں کہ پاکستان سپر لیگ دیکھنے کیلئے گرائونڈ میں موجود نوجوان بھی چینی و آٹا چور کے نعرے لگانا نہیں بھولتے۔ ایسے عالم میں کیا ہی اچھا ہو کہ مختلف ثقافتی رنگوں سے مزین پاکستانی گلدستے کو بےرنگ کرنے کے بجائے بنیادی مسائل پر توجہ دی جائے۔