رواداری اور انتہا پسندی، تاریخ میں فاتح کون؟

March 02, 2020

بھارت میں اس وقت اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کیساتھ جو کچھ ہو رہا ہے، اسکے خود بھارت سمیت اس خطے پر جو خطرناک اثرات مرتب ہو رہے ہیں، ان پر ہم اسلئے کھل کر بات نہیں کر سکتے کہ ہماری ہر بات کو پاکستانی نقطہ نظر سے تعبیر کیا جائیگا۔ یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ پاکستان کے بارے میں ایک مخصوص بھارتی نقطہ نظر ہے اور بھارت کے بارے میں ایک مخصوص پاکستانی نقطہ نظر۔

یہ دونوں نقطہ ہائے نظر دونوں ملکوں کے مخصوص مفادات رکھنے والے بالادست گروہوں کے ہیں مگر دونوں ملکوں میں اور نقطہ نظر بھی ہے، جو لبرل اور ترقی پسند حلقوں کا مشترکہ نقطہ نظر ہے اور جسے دونوں ملکوں کے عوام کی تائید بھی حاصل ہے۔ اسی نقطہ نظر کے مطابق بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے طرزِ سیاست اور اندازِ فکر کی وجہ سے نہ صرف بھارت بلکہ جنوبی ایشیا سنگین خطرات سے دوچار ہے اور صدیوں بعد مشرق کی مغرب پر بالادستی کا جو تاریخی عمل شروع ہوا تھا، وہ گھٹیا سیاسی سوچ اور تنگ نظری کی بھینٹ چڑھ رہا ہے۔

نریندر مودی بھارت کا وہ نام نہاد مقبول سیاستدان ہے، جو بھارت سمیت پوری دنیا کی تاریخ سے نابلد ہے۔ جمہوری سیاست میں پہلی مرتبہ ایسا نہیں ہوا ہے کہ نریندر مودی جیسا شخص ایک بڑا سیاستدان بن کر سامنے آیا۔ اس سے پہلے تاریخ میں کئی لوگ ایسے سامنے آئے، جنہوں نے مقبولیت کے ریکارڈ توڑ دیے لیکن تاریخ نے ثابت کیا کہ وہ جاہل اور تنگ نظر تھے اور انہوں نے اپنے ملکوں اور قوموں کو تباہ کیا۔

جرمنی میں ہٹلر کے جلسوں میں لاکھوں لوگ ہوتے تھے اور لوگ اسکے اشارے پر ناچتے تھے۔ ہٹلر کی مقبولیت انتہا پر تھی۔ پھر جب جنگ عظیم دوم کے بعد ہٹلر کا جرمنی چار حصوں میں تقسیم ہو گیا تو ایک حصے پر مغربی جرمنی نے اپنا نیا آئین مرتب کیا اور آئین کا پہلا جملہ یہ لکھا کہ ’’فسطائیت (فاشزم) کبھی نہیں‘‘۔

ہٹلر کے بعد آج کے دور میں تنگ نظر سیاست کرنیوالے مقبول سیاستدانوں میں امریکی صدر ٹرمپ سمیت اور بہت سے سیاستدان شامل ہیں، جن کا تذکرہ یہاں مصلحتاً ضروری نہیں۔ بھارت میں ایک بین الاقوامی سازش کے تحت مقبوضہ کشمیر کو بھارتی یونین کا حصہ بنانے کیلئے ایک آرڈیننس جاری کرایا گیا اور پھر شہریت کے قانون میں ترمیم کیلئے ایک ترمیمی بل منظور کرایا گیا۔

مقبوضہ کشمیر کو بھارتی یونین کا حصہ بنانے کیخلاف جو ردعمل آیا، وہ بھی فطری تھا کیونکہ بھارت نے عالمی برادری کیساتھ نہ صرف اپنے وعدوں کی خلاف ورزی کی بلکہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کی مرضی کے خلاف فیصلہ کیا۔

مقبوضہ کشمیر میں فطری ردعمل کو کچلنے کیلئے تقریباً 5ماہ سے کرفیو نافذ ہے جبکہ شہریت قانون کے تحت بھارت میں پیدا ہونیوالے ایسے مسلمانوں کو بھارت کی شہریت کے حق سے محروم کر دیا گیا ہے، جنکے والدین ایک خاص مدت میں بھارت آکر رہائش پذیر ہوئے۔ دنیا کا کوئی بھی ملک اپنے ہاں پیدا ہونیوالے بچوں کی شہریت سے انکار نہیں کرتا، اگر کوئی بچہ دورانِ پرواز جہاز میں پیدا ہو جائے تو دنیا کے تمام ممالک اسے اپنا شہری تسلیم کرتے ہیں۔

بھارت وہ واحد ملک ہے، جو عشروں سے وہاں آباد لوگوں اور وہاں پیدا ہونے والے انکے بچوں کی شہریت سے انکار کر رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کو بھارتی یونین کا حصہ بنانے کا آرڈیننس اور شہریت کا ترمیمی قانون فسطائیت کی انتہا ہیں۔

یہ بات ہم پاکستان والے نہیں بلکہ بھارت کے اکثر ترقی پسند، لبرل اور سیکولر حلقے بھی تسلیم کرتے ہیں کہ جو کچھ نریندر مودی کر رہا ہے، وہ برصغیر کی تاریخ، روایات اور اعلیٰ اقدار کیخلاف ہے۔

برصغیر کی جب تقسیم ہوئی تھی تو اس وقت مولانا محمد حسین آزاد نے مسلمانوں سے کہا تھا کہ وہ ہندوستان سے الگ نہ ہوں کیونکہ اسلام کے نام پر جو نئی مملکت بننے جا رہی ہے، اس میں بالادست طبقات مسلمانوں کے حقوق کو غصب کرینگے اور یہ بات انہوں نے اسلئے کہی تھی کہ ہندوستان کی تاریخ میں یہ بات ثابت ہوتی تھی کہ اس سرزمین پر مظلوم اور پسے ہوئے گروہوں اور طبقات کا ساتھ دیا جاتا ہے اور یہ سرزمین تاریخ انسانی میں رواداری کے ماحول کیلئے سب سے زیادہ موزوں سرزمین ہے۔

یہی آج بھی کیرالا کے گورنر عارف محمد خان کہہ رہے ہیں کہ بھارت مظلوموں کی سرزمین ہے۔ پہلی صدی عیسوی میں پروٹسٹنٹ عیسائی ظلم سے تنگ آکر ہندوستان آئے اور انہیں ہندوستان نے پناہ دی۔

ہندوستان تاریخ میں مظلوموں اور کچلے ہوئے لوگوں کی پناہ گاہ اور انتہائی روادار معاشرے کے عکاس کے طور پر تاریخ میں جانا جاتا تھا لیکن تحریک آزادی کے دوران انڈین کانگریس کے رہنمائوں اور بعض انتہا پسند ہندو رہنماؤں نے جو رویہ اختیار کیا، اس کے نتیجے میں پاکستان بنا اور آج بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا موقف درست ثابت ہو رہا ہے۔

میں نے مودی کے دورِ حکومت میں پہلی دفعہ محمد حسین آزاد کے موقف کو غلط ثابت ہوتے دیکھا ہے۔ مودی نے گجرات میں وزیراعلیٰ کی حیثیت سے مسلمانوں کا قتلِ عام کیا، اب وہی قصائی پورے بھارت پر حکمرانی کر رہا ہے۔ میں مودی کے بھارت کا حشر ہٹلر کے جرمنی سے بدتر دیکھ رہا ہوں۔ ہم نے پاکستان میں انتہا پسندی کے نتائج کو حال ہی میں بھگتا ہے۔