نگرانوں کی نگرانی!

March 18, 2013

مجھے شبہ سا ہے یا یوں کہہ لیں کہ میرا حسنِ ظن ہے یا خواہش ہے کہ ان سطور کی اشاعت تک نگران وزیراعظم اور صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کا فیصلہ ہو چکا ہو گا مگر یقین اس بات کا ہے کہ یہ فیصلہ نہیں ہوا ہو گا، تاہم مجھے پاکستان کی تمام جماعتوں سے یہ گلہ آخری سانس تک رہے گا کہ ان میں سے کسی ایک کی نظرِ انتخاب بھی مجھ پر نہیں پڑی، میں تو اسلام کے اس سنہری اصول کی وجہ سے خاموش تھا کہ کسی عہدے کیلئے کسی کو امیدوار نہیں ہونا چاہئے، تاہم مجھے یقین تھا کہ جنرل ضیاء الحق نے آئین میں صالح ا میدوار کی جو شرائط شامل کی تھیں، میں چونکہ من و عن ان پر پورا اترتا ہوں، لہٰذا ہر کوئی لپک کر میری طرف ہی آئیگا۔ میرے کردار کے بارے میں تو کسی سے گواہی لینے کی بھی ضرورت نہیں تھی اور عمومی شہرت پر جانا بھی مناسب تھا، میں اپنے بارے میں خود ہی بتا دیتا کہ میں ان صاحبِ کردار لوگوں میں سے ہوں، جو دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں، اور ظاہر ہے اس ضمن میں میرا یہ بیان ہی کافی تھا، لیکن افسوس صد افسوس کہ اِدھر اُدھر سے نام جمع کئے جاتے رہے لیکن میرا نام کہیں نہیں آیا، مجھے افسوس تو اپنے رپورٹر دوستوں پر بھی ہے، ان کے لئے کون سا مشکل تھا کہ متوقع نگرانوں میں ایک نام میرا بھی لکھ دیتے، میں نے ان دنوں علیحدہ علیحدہ ان دوستوں کو فائیو اسٹار ہوٹل میں کھانے پر بلایا اور ادھر ادھر کی باتوں کے بعد کہا کہ جماعت اسلامی، ایم کیو ایم، مسلم لیگ، پی پی پی، جے یو آئی، اے این پی، تحریک انصاف اور دوسری کئی جماعتیں مجھے نگران وزیراعظم بنانا چاہتی ہیں لیکن میں ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کر سکا، یہ کہنے کے بعد میں ان سے پوچھتا تھا ”تمہارا کیا خیال ہے مجھے نگران بننا چاہئے؟“ یہ کند ذہن رپورٹر میرے اس سوال کی تہہ تک پہنچے بغیر فوراً کہتے ”تمہیں نگران وزیراعظم نہیں بننا چاہئے!“ میں اس کی وجہ پوچھتا تو میرے یہ دوست جو تہذیب کے علاوہ زبان و بیان کی نزاکتوں سے بھی بالکل ناواقف ہیں، کہتے ”کیونکہ تم اس کے اہل نہیں ہو!“ بندہ پچھے تم رپورٹر بننے کے اہل ہو؟ ”تمہیں بیٹھے بٹھائے ایک خبر مل رہی ہے، تم یہ اخبار کے متھے“ مارو، مگر تم اپنے فیصلے سنانے بیٹھ گئے ہو! میں ان کی جگہ ہوتا تو اس طرح کی خبر ”با خبر ذرائع“ کے کھاتے میں ڈال کر کب کا شائع کر چکا ہوتا!
ان رپورٹروں کے علاوہ مجھے سیاسی جماعتوں نے بھی اس لحاظ سے مایوس کیا کہ انہوں نے میری تو کیا، اپنی سیاسی ضرورت کا بھی خیال نہیں کیا۔ اگر کسی جماعت نے سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کیا تو وہ صرف جماعت اسلامی تھی، جس نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان کی نامزدگی رائیگاں جائے گی، ڈاکٹر صفدر محمود کا نام نگران وزیر اعلیٰ کے طور پر اخبار میں شائع کرا دیا، ان کا کیا گیا؟ الٹا فائدہ ہی ہوا، ڈاکٹر صفدر محمود ایسے غیر جانبدار کالم نگار نے اپنے کالم میں جماعت اسلامی کو پاکستان کی سب سے باکردار سیاسی جماعت قرار دیتے ہوئے اپنے قارئین سے اپیل کی کہ وہ انتخابات میں اس جماعت کو ووٹ دیں، میں بھی کوئی ایسا احسان فراموش نہیں تھا کہ اگر کوئی جماعت مجھے نگران وزیر اعلیٰ یا نگران وزیراعظم نامزد کرتی تو میرا قلم منہ میں گھنگیاں ڈالے بیٹھا رہتا، مجھے سب سے زیادہ گلہ اپنی پسندیدہ جماعت مسلم لیگ (ن) سے ہے، حرام ہے انہوں نے بھی مجھ سے سوکھے منہ ہی پوچھا ہو کہ کیا آپ نگران وزیراعظم بن کر اس مسند کو عزت بخشنا پسند فرمائیں گے؟ ظاہر ہے مجھے ان کی یہ درخواست اپنی تمام تر درویشی اور فقیری کے باوصف ماننا پڑتی کہ ایک تو عرصہ دراز سے وزیراعظم بن کر ملک و قوم کی خدمت کا جذبہ دل میں موجزن چلا آتا رہا ہے۔ دوسرے مسلم لیگ کی دلداری اور اس کی عزت افزائی مقصود ہے اور تیسرے یہ خیال کہ انکار کی صورت میں میاں نواز شریف جیسے وضعداریاں نبھانے والے شخص سے آنکھیں کیسے ملاؤں گا، وہ کیا سوچیں گے کہ اس شخص نے پرانے تعلقات کا بھی خیال نہیں کیا اور میری ایک معمولی سی خواہش پوری کرنے سے صاف انکار کر دیا، لیکن افسوس صد افسوس اس جماعت نے بھی میرے حوالے سے تجاہل عارفانہ ہی سے کام لیا اور چاروں صوبوں کے کونوں کھدروں میں کوئی صاحب کردار نگران تلاش کرتے رہے، تفوبر تو اسے چرخِ گرداں تعفو!
دوسرے نمبر پر میرا گلہ ایم کیو ایم سے ہے، گزشتہ دنوں ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کا بیان شائع ہوا تھا کہ نگران کا انتخاب کرتے وقت مہاجروں کو بھی ذہن میں رکھا جائے، اس ڈھکے چھپے بیان کی بجائے اگر وہ واضح طور پر میرا نام لے لیتے تو ان کا کیا بگڑنا تھا، بھلا مجھ سے بڑا مہاجر کون ہے، یہ ٹھیک ہے کہ گزشتہ 65 برس سے پاکستان میں مقیم ہوں مگر ہوں تو امرتسر کا مہاجر ہی نا! اردو بولتا ہوں، اردو لکھتا ہوں، اردو پڑھتا ہوں، اس کے علاوہ ”حلیم“ البطع بھی ہوں، اس بے التفاتی پر الطاف بھائی سے میرا گلہ بنتا نہیں کہ انہوں نے صرف ایک دفعہ فون پر یاد کیا تھا، البتہ حیدر عباس رضوی کی دوستی کے دعوے بہت یاد آئے، چلیں، میرا کیا گیا، ایم کیو ایم نے اپنا ہی نقصان کیا، ایسا ہیرے جیسا امیدوار انہیں بھلا کہاں ملے گا؟ اس حوالے سے جماعت اسلامی سے شکوے کی اب گنجائش نہیں کہ وہ اپنا ہاتھ کاٹ کر ڈاکٹر صاحب کے ہاتھ میں دے چکی ہے، تاہم برسبیل تذکرہ یہ بات بتاتا جاؤں کہ میرے جماعت کے دوست حافظ محمد ادریس، لیاقت بلوچ اور فرید پراچہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ بلوغت سے پہلے خود میں بھی جماعت سے وابستہ تھا، چنانچہ اگر میرے یہ دوست چاہتے تو ملک و قوم کے مفاد میں اپنے خیالات پر نظر ثانی بھی کر سکتا تھا، ایک دفعہ بات تو کر کے دیکھتے، چلیں، جو ہونا تھا ہو گیا، اللہ کے ہر کام میں کوئی نہ کوئی مصلحت ہوتی ہے تاہم اس کام میں اللہ کی کوئی مصلحت بھی بہرحال مجھے سمجھ نہیں آئی۔ باقی رہ گئیں پی پی پی، اے این پی وغیرہ تو اس کی قیادت میری تحریروں کے حوالے سے غالباً غلط فہمی کا شکار رہی، وہ مجھے وہی سمجھتے رہے جو میں اپنی تحریروں میں نظر آتا ہوں، یہ ان کا حسنِ ظن ہے، انہیں اس کا اجر اللہ تبارک تعالیٰ کی ذات ضرور عطا کرے گی تاہم دنیا دار قسم کے لوگ انہیں اس کج فہمی پر ٹھاپیں ضرور ماریں گے!
سیاسی جماعتوں سے شکوہ قدرے طویل ہو گیا، میرے سارے دوست جانتے ہیں، میں ایک درویش صفت انسان ہوں، دنیا میں ہوں، دنیا کا طلب گار نہیں ہوں، سو مجھے اہل دنیا سے کیا لینا دینا، یہ تو محض خلقِ خدا کی بھلائی کے حوالے سے چند معروضات پیش کی تھیں، میری درخواست ہے کہ یہ بھول جائیں، اللہ تعالیٰ آپ سب کو سیدھے رستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، میں اپنے لئے کوئی دعا سوچ سمجھ کر اختیار کروں گا۔ تاہم فوری طور پر میرا ارادہ نامزد نگرانوں کی نگرانی کرنے کا ہے، میں ان پر اپنی فضیلت آئندہ کسی کالم میں ثابت کروں گا۔ گزشتہ کالم میں ناصر بشیر کا ایک خط میں نے شائع کیا تھا، اب اس کے جواب میں ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل جناب مرتضیٰ سولنگی نے اپنا نقطہ نظر پیش کیا ہے، آخر میں وہ بھی ملاحظہ فرمائیں:۔ محترمی مکرمی عطاء الحق قاسمی صاحب…السلام علیکم!
روزنامہ جنگ راولپنڈی میں 15/ مارچ 2013 کو شائع ہونے والا آپ کا کالم بعنوان ”یہ منہ اور مسور کی دال“ نظر سے گزرا۔ اس کالم کے آخر میں محترم ناصر بشیر صاحب کا خط شائع کیا گیا ہے۔ جس میں انہوں نے ریڈیو پاکستان کی جانب سے ملالہ یوسف زئی کو خراج تحسین پیش کرنے کے سلسلے میں کرائے گئے مقابلہ شاعری کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ اگر میں بیورو کریٹ ہوتا تو شاید اس خط کا جواب نہ دیتا لیکن آپ جانتے ہیں کہ میرا تعلق نہ صرف جمہوری اور عوامی طبقے سے ہے بلکہ صحافی برادری کا رکن ہونے کے ناطے میں پاکستان کے تمام میڈیا اور میڈیا سے متعلق معزز کارکنوں کا دل سے احترام کرتا ہوں لہٰذا میں نے اپنا فرض سمجھا کہ اس خط کے حوالے سے اپنی گزارشات آپ کی خدمت میں پیش کروں۔ ریڈیو پاکستان عوام کی آواز ہونے کے ناطے اور پاکستان کی عوام کے ساتھ گزشتہ 65 سال کی نشریاتی رفاقت اور رشتے کے اعتبار سے اس بات کو اپنا فرض اولین سمجھتا ہے کہ چاہے ملک کو جس طرح کے بھی حالات کا سامنا ہو، ریڈیو پاکستان صوتی محاذ پر پاکستانی عوام کی خدمت کرتا رہے گا۔ زلزلے ہوں یا سیلاب، جنگ ہو یا دہشت گردی سے نمٹنے کا معاملہ، ریڈیو پاکستان نے ہمیشہ اپنا قومی فرض ادا کیا ہے۔ اسی فرض کی ادائیگی کے سلسلے میں ریڈیو پاکستان نے پاکستان کی بیٹی ملالہ یوسف زئی کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے مختلف پاکستانی زبانوں میں مقابلہ شاعری منعقد کیا، جس کا مقصد ملکی اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے بارے میں منفی رائے کو بہتر کرنیکی کوشش کرنا تھا اور پاکستانی عوام کو ان کے حق تعلیم کیلئے بیدار کرنا تھا۔ مقابلہ شاعری کی تقریب تقسیم انعامات منعقد کرتے وقت ہمارے محدود مالی وسائل نے ہمیں اس تقریب کو اس بھرپور اور شایان شان طریقے سے منعقد نہیں کرنے دیا جس انداز سے ہم اسے منعقد کرنا چاہتے تھے۔ میں اپنے دلی جذبات آپ تک پہنچانا ضروری خیال کرتا ہوں کہ ہمارے وہ دوست جنہیں ہم تقریب تقسیم انعامات میں شرکت کی دعوت نہیں دے سکے، وہ ہمارے لئے اتنے ہی محترم ہیں جتنے اس تقریب میں شرکت کرنے والے دیگر شعراء کرام۔ ان نظموں کے معیار کو جانچنے کے لئے جناب افتخار عارف، جناب منظر نقوی، ڈاکٹر انوار احمد اور جناب احسان اکبر کو زحمت دی گئی تھی جنہوں نے متفقہ طور پر سید عارف، ناصر بشیر اور نثار ناسک کو بالترتیب اول، دوم اور سوم انعام کا حقدار ٹھہرایا۔ محدود مالی وسائل کے باعث ہم نے تمام زبانوں میں اول انعام حاصل کرنے والوں کو تقریب میں شرکت کی دعوت دی جبکہ دیگر تمام انعام یافتگان کو ان کی انعامی رقم بھجوا دی گئی ہے۔ اول انعام حاصل کرنے والی شاعری کی انعامی رقم مساوی یعنی پچاس ہزار روپے تھی۔ قاسمی صاحب، میرے خیال میں پاکستان کی تمام زبانیں قابل احترام ہیں۔ پاکستان کا ثقافتی اور لسانی تنوع، پاکستان کی کمزوری نہیں بلکہ اس کی طاقت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے پاکستان کی تمام زبانوں کے انعامات کی رقم برابر رکھی تاکہ کسی زبان کے بولنے والے اپنے آپ کو کم تر نہ سمجھیں۔ ناصر بشیر جیسی شخصیت کو زبانوں کے تقدس کا خیال رکھنا چاہئے تھا۔ ان کے خیالات جان کر مجھے افسوس ہوا کہ ان کے بقول کسی زبان کے شاعر کو کم یا زیادہ رقم ملنی چاہئے تھی۔
جہاں تک گلوکاروں اور گلوکاراؤں کو پروٹوکول کے ساتھ اسلام آباد میں منعقدہ تقریب میں بلانے کا تعلق ہے تو میں اس موقع پر یہ ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ آمریت اور نوکر شاہی کے تاریک ادوار میں اس ملک کے فنکاروں کی عزت نہیں کی جاتی تھی، مجھے ناصر بشیر کی اس بات پر بڑا افسوس ہوا کہ انہوں نے فنکاروں کو عزت سے بلائے جانے پر ان کا تمسخر اڑایا اگر کسی ملک میں فنکاروں کو عزت نہیں دی جاتی تو اس ملک میں فن اور ثقافت پروان نہیں چڑھ سکتی۔ جہاں تک معاوضے کی بات ہے تو جتنے بھی فنکار آئے تو ان کو ان کی گلوکارانہ صلاحیت اور تجربے کی بنیاد پر معاوضہ دیا گیا۔ گلوکاروں سے متعلق اس خط میں جو زبان استعمال کی گئی اس کو پڑھ کر مجھے بے حد افسوس ہوا۔
آپ کو یہ جان کر خوشی ہو گی کہ ریڈیو پاکستان نے تمام زبانوں میں اول، دوم اور سوم انعام حاصل کرنے والی شاعری کو ملک کے بہترین گلوکاروں اور گلوکاراؤں کی آواز میں ریکارڈ کر کے ہمیشہ کے لئے ان گیتوں کو محفوظ کر لیا ہے اور آج کل ریڈیو پاکستان کے تمام اسٹیشنوں سے یہ نغمے خصوصی طور پر نشر کئے جا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تقریب تقسیم انعامات میں ان گلوکاروں اور گلوکاراؤں نے ملالہ یوسف زئی کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے یہی نغمے اس تقریب میں گائے جسے حاضرین تقریب نے اور ریڈیو پاکستان کے سامعین نے بہت سراہا ہے۔
خیر اندیش …مرتضیٰ سولنگی ،(ڈا ریکٹر جنرل ریڈیو پاکستان)