تھینک یو سر!

March 10, 2020

کرنے کو میرے پاس چونکہ کوئی کام نہیں ہے، اس لئے میں دن بھر ٹیلی وژن چینلز دیکھتا رہتا ہوں۔ ان میں آپ پاکستانی پچاسیوں چینلز شامل سمجھ سکتے ہیں۔ ہر ایک شخص کی طرح ہر حکمراں میں جہاں خامیاں ہوتی ہیں وہاں خوبیاں بھی ہوتی ہیں۔

جنرل پرویز مشرف میں کئی ایک خوبیاں تھیں۔ انہوں نے پاکستان صوفی کونسل بنائی، خود کو صوفی کونسل کا پیٹرن ان چیف یعنی کرتا دھرتا یعنی صدرِ کل اختیار اور چوہدری شجاعت حسین کو صوفی کونسل کا سیکریٹری جنرل بنا ڈالا۔ وہ پاکستان آنے کیلئے تیار بیٹھے ہیں وہ واپس آکر صوفی کونسل کو از سر نو فعال بنانا چاہتے ہیں۔

آکسیجن ماسک ہٹا کر جنرل صاحب اکثر گلہ کرتے ہیں کہ انکے اقتدار سے الگ ہونے کے بعد پیپلز پارٹی، مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف کے سربراہوں نے صوفی کونسل کو پسِ پشت ڈال دیا حتیٰ کہ ایسے نظر انداز کیا کہ صوفی کونسل اب کسی کو یاد نہیں۔ میں، یعنی جنرل پرویز مشرف پاکستان جائوں گا اور صوفی کونسل کو پھر سے فعال کروں گا۔

پاکستان کے تمام مسائل کا حل صوفی ازم میں ہے۔ صوفی معاشرے پر بوجھ نہیں بنتے۔ وہ اپنی دنیا میں گم رہتے ہیں۔ کسی سے ملازمت، روزگار، ادھار، وظیفہ امداد، گھر، دال روٹی نہیں مانگتے۔ مہنگائی کا شکوہ نہیں کرتے، بےسدھ پڑے رہتے ہیں پیر سائیوں کی درگاہوں پر۔

نواز شریف کا مجھے قطعی افسوس نہیں ہے۔ وہ ٹھہرا لوہار۔ اسے کیا پتا کہ صوفی کس کو کہتے ہیں۔ مجھے دکھ ہے بڑے زرداری کا، یعنی آصف علی خان زرداری کا۔ وہ مجھے شروع سے صوفی لگتے ہیں۔ اب بھی صوفی لگتے ہیں۔ انہوں نے میری بنائی ہوئی صوفی کونسل کو کوئی اہمیت نہیں دی۔

میں سمجھ رہا تھا میری جگہ زرداری صاحب بذاتِ خود صوفی کونسل کے پیٹرن ان چیف بن بیٹھیں گے اور اپنے ولی عہد بلاول زرداری کو صوفی کونسل کا سیکریٹری جنرل لگائیں گے مگر افسوس کہ انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ مجھے دکھ ہے۔ ایک صوفی ہونے کے ناتے میں دوسرے منجھے ہوئے صوفی سے صوفی ازام سے سرد مہری کی امید نہیں رکھتا تھا۔

جنرل پرویز مشرف صاحب بولتے بولتے تھک گئے انہوں نے چہرے پر پھر سے آکسیجن ماسک لگا لیا۔ میڈیا کے برادر نسبتی چپ چاپ بیٹھے رہے۔ کچھ دیر کے بعد جنرل صاحب نے ماسک ہٹا دیا۔

میڈیا کے برادر نسبتی سے گویا ہوئے۔ بولے مجھے عمران خان سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں۔ ایک صوفی کی نشانیاں ان میں واضح طور پر نمایاں ہونے لگی ہیں۔ سب نشانیوں میں ان کی ایک نشانی نے مجھے بہت متاثر کیا ہے۔ پچیس بڑے بڑے دانوں والی تسبیح ہر وقت ہاتھ میں رکھنا اور دانے پھراتے رہنے والی ان کی درویشانہ عادت مجھے بہت اچھی لگتی ہے۔

سربراہان کی کانفرنس میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ سربراہان تقریریں کر رہے ہیں اور ہمارے صوفی صاحب تسبیح کے دان پھراتے جا رہے ہیں۔ یہ وصف صرف صوفیوں میں ہوتا ہے کہ وہ ایک ہی وقت میں تقریریں، گیت غزل اور قوالیاں بھی سن سکتے ہیں۔ وہ بڑے بڑے صوفیوں کی درگاہوں پر حاضری دیتے ہیں اور ان کی چوکھٹ پر ماتھا ٹیکتے ہیں۔

مجھے یقین ہے کہ عمران خان عنقریب پورے پاکستان کو صوفی بنا دے گا۔ ویسے تو عمران خا ن مجھے اپنا جانشین لگتا ہے مگر افسوس کہ انہوں نے بھی میری بنائی ہوئی صوفی کونسل آف پاکستان کو نظر انداز کر دیا ہے۔ دکھ ہے مجھے اس بات کا ہونہار صوفی ایسا نہیں کرتے۔ ہمارے سابقہ حکمراں جنرل پرویز مشرف نے دوبارہ چہرے پر آکسیجن ماسک لگا لیا اور سو گئے۔ آج کل بیرونِ ملک ان کا علاج ہو رہا ہے۔

رو بصحت ہونے کے بعد وہ پاکستان آئیں گے اور اپنی صوفی کونسل آف پاکستان کو فعال بنائیں گے۔ بس قانونی چارا جوئی ان کے آڑے آرہی ہے۔ ورنہ وہ کب کے صحت یاب ہونے کے بعد پاکستان آ چکے ہوتے۔ ان کے تشریف لےآنے کے بعد تقریباً آدھے سے زیادہ پاکستانی صوفی بن چکے ہوتے مگر ایسا ہو نہ سکا۔ ہم کیا کر سکتے ہیں۔

جو اللّٰہ سائیں کی مرضی۔ہمارے سابق حکمراں جنرل پرویز مشرف کی دوسری بات جس نے تمام پاکستانیوں کا دل موہ لیا ہے، وہ ہے ان کا پاکستان میں ٹیلی وژن چینلز کا جال بچھانا۔ یہ فیصلہ انہوں نے سوچ سمجھ کر کیا تھا۔

اداروں نے جنرل صاحب کو آگاہ کر دیا تھا کہ پاکستانی مرد، خواتین، بچے، بوڑھے ٹیلی وژن پروگرام دیکھنے کیلئےمرے جا رہے ہیں۔ جو زیادہ مرے جا رہے ہیں، انہوں نے ڈش انٹینا لگوا لئےہیں اور سینکڑوں ہندوستانی ٹیلی وژن چینلز دیکھ رہے ہیں۔ لہٰذا جنرل پرویز مشرف نے دو کام کئے۔ انہوں نے پاکستانیوں کو ڈش انٹینا کی سہولت مہیا کرنے والوں کا قلع قمع کر دیا۔ جنرل صاحب جانتے تھے کہ لگاتار ٹیلی وژن پروگرام دیکھنے کی تشنگی پاکستانیوں کو مار ڈالے گی۔

انہوں نے پوری قوم کو تشنگی سے بچانے کیلئے پاکستان میں ٹیلی وژن چینلز کا جال بچھانے کا حکم دے دیا۔ پھر کیا تھا! جس کے پاس دس پندرہ کروڑ کی پونجی تھی، اس نے ٹیلی وژن چینل کھولنے کا اجازت نامہ حاصل کر لیا اور ایک عدد ٹیلی وژن چینل چلا ڈالا۔ پوری قوم نے مل کر کہا، تھینک یو، سر پرویز مشرف۔

سیکھنے سکھانے کیلئے ٹیلی وژن سے بہتر ذریعہ اور کوئی نہیں ہے۔ میں نے ٹیلی وژن پروگراموں سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ اب میں شیر کو بہادری کی علامت نہیں سمجھتا۔ ایک شیر تن تنہا ایک بھینسے کا شکار نہیں کر سکتا۔ چھ سات شیر مل کر بھینسے پر پیچھے سے وار کرتے ہیں۔

لگاتار پاکستانی ٹیلی وژن دیکھنے کے بعد میں نے سیکھا ہے کہ پاکستان میں ہر آنے والی حکومت ایماندار اور جانے والی حکومت بےایمان اور کرپٹ ہوتی ہے۔