بلدیاتی انتخابات : پنجاب حکومت کیلئے سب سے بڑا چیلنج

March 12, 2020

پنجاب میں حکومت کے نئے بلدیاتی نظام کے تحت بلدیاتی اداروں کی نشستوں کا نوٹیفیکیشن جاری ہونے کے بعد بلدیاتی انتخابات کی ابتدائی تیاریوں کا آغاز ہوگیا ہے،حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف اور اس کی اتحادی جماعت مسلم لیگ(ق)کے درمیان نئے بلدیاتی نظام پر اختلاف رائے موجود ہے لیکن اس کے باوجود دونوں حکمران جما عتوں نے بلدیاتی انتخابات کیلئے اپنی اپنی پارٹی کے عہدیداروں اور کارکنوں کو تیار رہنے کی ہدایت کی ہے۔

نئے بلدیاتی نظام میں ضلع کونسلوں اور یونین کونسلوں کو ختم کر کے ان کی جگہ تحصیل کونسلز اور نیبر ہڈ ویلیج اور پنچایت کونسلز تشکیل دی گئیں ہیں جن کے پہلے مرحلے میں غیر جماعتی انتخابات پر ہوں گے اور دوسرے مرحلے میں تحصیل کونسلز، میٹرو پولیٹن کارپوریشنوں، میونسپل کارپوریشنوں، میونسپل نفاذ کی کمیٹیوں کے سربراہی انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہوں گے دونوں حکمران اتحادی جماعتوں پی ٹی آئی اور مسلم لیگ(ق)نے بلدیاتی انتخابات میں کامیابی کے لئے ہوم ورک شروع کر دیا ہے۔ حکومت پنجاب کے نئے بلدیاتی نظام کے تحت بلدیاتی انتخابات کرانے کے نوٹیفیکیشن جاری کرنے کے باوجود مسلم لیگ ق)سمیت اپوزیشن جماعتوں کو نئے بلدیاتی نظام پر شدید تحفظات ہیں کہ 3281یونین کونسلوں اور 35ضلع کونسلوں کو ختم کر کے ان کی جگہ 22ہزار سے زائد نیبر ہڈ اور ویلیج کونسلز کے انتخابات کرانے سے بلدیاتی اداروں کے ذریعے عوامی مسائل حل کرنے کی بجائے سیاسی دشمنیاں اور معاشرتی بگاڑ پیدا ہونے کا خدشہ ہے اور پنجاب کا نیا بلدیاتی نظام صوبے کے زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا۔

دوسری جانب الیکشن کمیشن آف پاکستان نے حکومت کے بنائے ہوئے نئے بلدیاتی نظام میں قانونی اور تکنیکی پیچیدگیوں کی نشاندہی کر کے پہلے ہی صوبائی انتظامیہ کی جانب سے بلدیاتی اداروں کی ازخود حلقہ بندیوں کو کالعدم قرار دے کر بلدیاتی انتخابات کرانے سے معذرت کر لی تھی اب حکومت نے بلدیاتی انتخابات کرانے کے لئے الیکشن کمیشن کو ازسرنو حلقہ بندیاں کرانے کے لئے بلدیاتی اداروں کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے۔ اس طرح حکومت کے ازخود الیکشن کمیشن کے حلقہ بندیوں کے اختیار استعمال کرنے سے بلدیاتی انتخابات کرانے میں تاخیر ہوئی،اب الیکشن کمیشن پنجاب حکومت کے نوٹیفکیشن کا جائزہ لے کر 19 مارچ کو چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں بلدیاتی انتخابات کے بارے کوئی فیصلہ کرے گا۔ بلدیاتی انتخابات سے قبل مسلم لیگ (ق)صوبے کے بااثر اور سرکردہ سیاسی افراد کو پارٹی میں شامل کرنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔

مسلم لیگ ق کی اعلیٰ قیادت حکمران جماعت پی ٹی آئی سے مسلم لیگ ن پیپلز پارٹی سے نالاں سیاسی شخصیات کو پارٹی میں دوبارہ شامل کر کے بلدیاتی ادارہ میں اکاموڈیٹ کرنے کے لئے کوشاں ہیں اور دوسری جانب حکمران جماعت کو جنوبی پنجاب میں الگ منی سیکرٹریٹ بنانے کا مسئلہ درپیش ہے جو ڈیڑھ سال گزرنے کے باوجود حل طلب ہے اب بلدیاتی انتخابات سے قبل جنوبی پنجاب میں الگ صوبہ بنانے کا مطالبہ زور پکڑنے لگا ہے گو پی ٹی آئی کے لئے پارلیمنٹ میں دوتہائی اکثریت نہ ہونے کے باعث الگ صوبہ بنانا ممکن نہیں لیکن جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے وزراء،اراکین اسمبلی اور بلدیاتی اداروں کے سابق سربراہوں کا پارٹی قیادت پر جنوبی پنجاب میں کم از کم ایڈمنسٹریٹو یونٹ قائم کرنے پر دباؤ میں دن بدن اضافہ ہونے لگا ہے۔

اس ہفتے پی ٹی آئی کی دو اہم اور وزیراعظم کی دست راست شخصیات وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور جہانگیر خان ترین کے علاوہ جنوبی پنجاب کے اراکین اسمبلی نے وزیراعلیٰ پنجاب سے الگ الگ ملاقاتیں کیں اور انہیں جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے فوری قیام کا مشورہ دیا انہیں یاد دلایا کہ پی ٹی آئی نے 2018کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی نے جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کا انتخابی نعرہ دے کر تاریخی کامیابی حاصل کی اور وفاق اور پنجاب میں جنوبی پنجاب اراکین کی اکثریت کی وجہ سے پی ٹی آئی اقتدار میں آئی۔ حکومت کے جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ ہیڈکوارٹر ملتان یا بہاولپور بنانے کے تنازع کو جواز بنا کر مزید تاخیر حکومت اور پارٹی دونوں کے لئے نقصاندہ ثابت ہو سکتی ہے۔

ملتان،ڈیرہ غازی خان اور بہاولپور ڈویژن کے اراکین کے درمیان اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے وزیراعظم خود آگے قدم بڑھائیں اب جبکہ ملک مہنگائی، بیروزگاری، امن و امان اور ناانصافی جیسے مسائل سے تنگ عوام آئندہ کسی بھی انتخاب میں اپنا ردعمل دینے کے لئے تیار ہیں اس صورت میں جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کا قیام اور بلدیاتی انتخابات دونوں حکمران پارٹی کے لئے درد سر بنے ہوئے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ دونوں بڑی اپوزیشن جماعتیں مسلم لیگ (ن)اور پیپلز پارٹی پنجاب کے دونوں اہم ایشوز کو کیسے لیتی ہیں حالانکہ جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ یا منی سیکرٹریٹ بنوانے کے لئے مسلم لیگ (ن)کی قیادت اگر پنجاب میں کوئی تبدیلی لانا چاہتی ہے تو یہ ان کے لئے بہترین سنہری موقع ہے مگر اس کے لئے میاں برادران کو بلدیاتی انتخابات سے قبل لندن چھوڑ کر لاہور میں ڈیرے ڈالنا ہوں گے۔

ملک میں موجودہ ن لیگ قیادت کے لئے عوام کو متحرک کر کے بلدیاتی انتخابات یا جنوبی پنجاب کے معاملہ پر اپنا ہم نوا بنانا ممکن نہیں ہے۔ پنجاب میں جلد تبدیلی کے لئے مسائل سے دوچار عوام کی نظریں ایک بار پھر میاں برادران کی طرف لگی ہوئی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھٹو نے گزشتہ ایک ہفتے لاہور میں ڈیرہ ڈالے رکھا اور پیپلز پارٹی کو پنجاب میں دوبارہ زندہ کرنے کے لئے کوشاں ہیں انہوںنے لاہور میں ایک ہفتے قیام کے دوران پارٹی کے مختلف پروگراموں اور تقریبات میں شرکت اور اپنی تقاریر میں حکمران جماعت کی پالیسیوں اور وزیراعظم عمران خان کو آڑھے ہاتھوں لیا اور ساتھ ہی ساتھ پنجاب میں بیٹھ کر ن لیگ کی قیادت کو بھی آئینہ دکھایا۔

بلاول بھٹو کی خواہش ہے کہ وہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن)کی قیادت کے خلا میں پیپلز پارٹی میں جان ڈال سکتے ہیں اس لئے وہ پارٹی کی قیادت اور کارکنوں کو فعال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات میں وہ عام آدمی کے پاس جائیں گے انہیں اپنی سیاسی حیثیت کا پتہ چلے گا کہ وہ کتنے پانی میں ہیں ۔ ہرحال یہ بات قابل غور ہے کہ اگر وزیراعظم عمران خان اپنے ایجنڈے کے مطابق ملک کو معاشی بحران سے نکال کر عوام کو جلد ریلیف دینے میں کامیاب ہوگئے تو دونوں پارٹیوں کو اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنا انتہائی مشکل ہو جائے گا۔ تاہم عوام اس کا فیصلہ آنے والے وقت میں کریں گے۔