’ظروف سازی‘ مٹی سے برتن بنانے کا قدیم ہنر آج معدومیت کا شکار ہے

March 17, 2020

مٹی سے برتن، مجسمے، کھلونے اور دیگر اشیاء بنانے کا فن انتہائی قدیم ہے اوروادی سندھ کی ہزاروں سالہ قدیم تہذیبوںمیں بھی اس کےآثار ملے ہیں۔کرئہ ارض پر اپنی آمد کے ساتھ ہی بنو آدم نے پیٹ بھرنے کے لیے کچے پھل، سبزیوں، جانوروں کے شکار کیے ہوئے کچے گوشت کو بہ طور خوراک استعمال کیا۔ پیاس بجھانے میں اسے بے پناہ دشواریوں کا سامنا تھا۔اسےکسی ایسی چیز کی ضرورت محسوس ہوئی جس میں پانی بھر کر اپنی پیاس بجھائے ۔ وہ ندی، نالوں ، دریا اور تالابوں کے کنارے جنگلی جانوروں کو دریا یا نہر میں منہ ڈال کر پانی پیتے دیکھتا تھا۔

ابتدا میں اس نے بھی یہی طریقہ اپنانے کی کوشش کی لیکن اس سے اس کی سیری نہیں ہوتی تھی جس کے بعد اس نے ہاتھوں کا پیا لہ بنا کر پیاس بجھانا شروع کیا ۔اس عمل سے بھی اس کی تشنگی دور نہیں ہوتی تھی۔اس نے درخت کے پتوں کو پیالے کی شکل میں ڈھال کر ان میں پانی بھر کر پینا شروع کیا لیکن یہ بھی ایک مرتبہ پانی پینے کے بعد دوبارہ استعمال کے قابل نہیں رہتے تھے۔ دریا، نالوں اور نہروں کے کنارے چکنی مٹی وافر مقدار میں موجود تھی۔ اپنی آبی ضرورت پوری کرنے کے لیے اس نے اس مٹی کو گوندھ کر سب سے پہلے آب خورہ بنایا، جسے آگ پر پکا کر مضبوط کرلیا جاتا تھا۔

خوں خوار و موذی جانوروں سے تحفظ اور خود کو سردی سے بچانےکے لیے اس نے پتھروں کو رگڑ کر آگ ایجاد کی۔ اس دوران انسان کچا گوشت ، کچی سبزیا ں اور پھل کھا کھا کر بیزار ہوگیا تھا، اس نے اس آگ سے استفادہ کیا اور کام و دہن کی تسکین کے لیےگوشت کو آگ پر بھون کر کھانا شروع کردیا۔اپنی خوراک کو رکھنے کے لیے اس نے پتوں، لکڑی، ہڈی، پتھروں اورپھلوں کے چھلکوں کا برتنوں کے طور پر استعمال شروع کیا۔بھارت میں آج بھی پیپل اور برگد کے پتوں کو برتن کے طور پر استعمال کرنے کا رواج عام ہے ۔

اس’’ نباتاتی برتن ‘‘کو ہندی زبان میں ’’دونا‘‘ کہتے ہیں۔سندھ کی آمری اور موئن جو دڑو تہذیب جو ہزاروں سال قبل مسیح کی ہیں، ان میں بھی مٹی سے ظروف سازی کے آثاردریافت ہوئے ہیں۔آمری گاؤںکے کھنڈرات سےدیگر نوادرات کے ساتھ ایسے برتن بھی برآمد ہوئے ہیں جو عمدہ ملائم بادامی یا سرخ و گلابی مائل گندھی ہوئی مٹی کے بنے ہوئے ہیں، جو ظروف سازی کا اعلیٰ نمونہ ہیں۔ ان میں سے بعض میںسفید اور بعض میں ہلکے سبز رنگ کے شیڈ نظرآتے ہیں۔ سندھ کےدیگر مقامات سے جو برتن دستیاب ہوئے ہیں، ان کی بناوٹ گلاب کے کٹورے جیسی ہے۔

موئن جو دڑوکے کھنڈرات سے بھی کھدائی کےدوران مٹی کے برتن،کھلونے، مجسمے اور دیگر اشیاء برآمد ہوئیں جن میں سے بیشتر چاک اور چکنی مٹی سے بنائی گئی تھیں۔ ان میں ایک نمایاں برتن وہ رکابی ہےجو اونچے پائیدان پر جوڑی گئی ہے ۔ اسےچڑھاوے کا پائیدان کہا جاتا ہے ۔بعض برتنوں پر ایسی مہر یںکندہ کی گئیں جس پرابھری ہوئی تحریریں ناقابل فہم زبان میں ہیں۔چند آبخورے بھی ملے ہیں جن کا پیندا تو ہے لیکن وہ پیندے پرکھڑے نہیں ہوسکتے ۔سندھ سے ظروف سازی کا ہنر چین، مراکش ،اندلس اور برصغیر منتقل ہوگیا۔مؤرخین کے مطابق سکندر اعظم325-26ق م میں دریا کی مٹی سے برتن بنواکر ان میں کھانا کھاتا تھا اورمٹی کے برتنوں میں ہی پانی پینا پسند کرتا تھا۔

مٹی سے برتن بنانے والے کاریگر کو کمہار کہا جاتا ہے اورکراچی کے قدیم علاقے کی ایک بستی میں مٹی کے برتن بنانے والوں کی بڑی تعداد آباد ہے جس کی وجہ سے یہ علاقہ کمہار واڑہ کے نام سے معروف ہے۔یہ برادری اندرون سندھ کے علاوہ کراچی کے مضافاتی علاقوں میں بھی رہتی ہے۔ نیوکراچی قبرستان کے سامنے واقع گوٹھ میں کمہار کے پیشے سے وابستہ افراد کی کثیر تعداد رہتی ہے جن کی ہنرمندی کے شاہ کار مٹی کے برتنوں کی صورت میں سڑک کے فٹ پاتھوں پر بکتے نظر آتے ہیں۔ مٹی سے ظروف سازی کاہنر دنیا کے ہر معاشرے میں موجود رہا ہے لیکن برصغیر میں اس فن نے عروج کی منازل طے کیں ۔آج بھی سندھ کے زیادہ تر کاریگروں کے ہاتھوں میں ایسا جادو ہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے وہ مٹی کے ڈھیر کو چاک پر رکھ کر انتہائی خوبصورت برتن میں تبدیل کردیتے ہیں۔ دوعشرے قبل تک گھروں میں زیادہ تر مٹی کے برتنوں کا استعمال ہوتا تھا۔

ضلع بدین کے چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں میں آوی (بھٹی جس میں مٹی کے برتنوں کو پکایا جاتا ہے) بنی ہوئی ہیں،جہاں پر دھواں ایک لکیر سا بناتا سیدھا اوپر جا تا ہے ۔ کچھ نوجوان مٹی کو بڑی نفاست سے گوندھتےرہتے ہیں ، کچھ بچوں کے کھلونوں کو رنگ دیتے ہیں ۔ دیہاتوں میں مٹی کے برتن بنانے والے کاریگروں کا کہنا ہے کہ مٹی سے برتن تیار کرنے میں نہ صرف کافی محنت لگتی ہے، بلکہ کام کے دوران پرسکون بھی رہنا پڑتا ہے، ۔ کمہار جب مٹی کو گوندھتے ہیں تو ان کی نظر مٹی سے نہیں ہٹتی۔

جس چیز سے آدمی محبت کرے اس سے نظر ہٹ بھی کیسے سکتی ہے۔ پھر جب اس مٹی سے مختلف اشکال کے برتن جیسے صراحیاں، آب خورے، چاٹی، تس (جس میں آٹا رکھا جاتا ہے)، کنے (سالن پکانے کی ہانڈی)، بچوں کے کھلونے، کوزے اور بہت ساری چیزیں چاک پر ڈھالی جاتی ہیں، تو اس کام کے دوران ان کی انگلیوں اور آنکھوں میں پیار، محبت اور شفقت نظر آتی ہے۔۔کمہاروں کا کہنا ہے کہ ایک برتن آپ کے ہاتھوں تک پچاس سے زائد مراحل سے گزر کر پہنچتا ہے۔

مٹی کے برتن بنانے کے لیے کمہار ایک خاص مٹی، جسے سندھ میں ’’چیکی مٹی‘‘ کہتے ہیں، استعمال کرتے ہیں۔ اس مٹی کی خاص بات یہ ہوتی ہے کہ اس میں نہ ریت ہوتی ہے اور نہ ہی دوسرے فاضل مادے۔ اچھے برتنوں کے لیے ایسی ہی صاف ستھری مٹی درکار ہوتی ہے۔ کمہار یہ مٹی دریا کے کناروں سے لاتے ہیں، مٹی کے ڈھیلوں کو سب سے پہلے چھوٹے سے گٹکے سے آٹے کی طرح گوندھتے ہیں، اس کے بعد مٹی کو چھانتے ہیں، جو مٹی اس سے گزر نہیں سکتی اسے پانی میں تحلیل کیا جاتا ہے۔اگلے مرحلے میں گوندھی ہوئی مٹی کو ایک سانچے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ سانچے سے گزارنے کے بعد مٹی کو چاک پر چڑھایا جاتا ہے۔ جب برتن چاک پر تیار ہوجاتا ہے تو اسے ایک دھاگے سے کاٹا جاتا ہے جس کو کمہار ’’شنوٹ‘‘ کہتے ہیں۔ اس مرحلے کے مکمل ہونے کے بعد برتن کو زمین پر مزید سیدھا کیا جاتا ہے۔ یوں مٹی کے برتن مختلف مراحل سے گزر کر لوگوں کے ہاتھوں اور گھروں تک پہنچتے ہیں۔ان برتنوں میں مٹکے اور صراحیاں عام ہیں اور اکثر گھروں میں ان میں پینے کا پانی بھرا جاتا ہے۔

مٹی کی صراحی، جسے سندھ میں ’’گھگھی‘‘ کہا جاتا ہے اپنی بناوٹ اور سجاوٹ کے اعتبار سے بہت خوب صورت برتن ہے۔ گھگھی کا مطلب ہے کہ گھونٹ دینا یا گلا دبانا، صراحی بناتے ہوئے کمہار چونکہ صراحی کے گلے کو دباتا ہے، اسی لیے اسے ’’گھگھی‘‘ کہا جاتا ہے۔ مٹی کے برتنوں میں صراحی نما برتن (گھگھی) کو بنانا سب سے زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ کمہار گھگھی کو تین مراحل میں تیار کرتے ہیں، پہلے اس کا منہ بناتے ہیں، اس کے بعد درمیانی حصہ اور آخر میں نچلا حصہ بناتے ہیں، پھر سب سے آخر میں تینوں حصوں کو آپس میں جوڑتے ہیں تو یہ برتن صراحی یا گھگھی بن جاتا ہے۔ مٹی کے برتنوں میں خصوصاً صراحی کی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ یہاں کی وہ مخصوص چکنی مٹی ہے جس سے تیار شدہ برتنوں میں پانی ٹھنڈا رہتا ہے۔ جتنی زیادہ گرمی ہوتی ہے اور لو چلتی ہے پانی ان برتنوں میں اتنا زیادہ ٹھنڈا ہوجاتا ہے۔ رات کے وقت تو صراحی کا پانی اس قدریخ ہو جاتا ہے کہ جیسے برف کا پانی ہو۔ ان خصوصیات کے باعث صحرا میں رہنے والے لوگوں کے لیے صراحی یا گھگھی،ریفریجریٹر، فریزر یا برف کا نعم البدل ہوتی ہے۔

سندھ میں سیکڑوں کاری گر مٹی کے برتن بنانے کے پیشے سے منسلک ہیں۔ صدیوں قدیم اس ہنر سے وابستہ کمہار، نسل در نسل اس ہنر سے وابستہ ہیں اور اس فن کو اپنی اولاد کو منتقل کرتے ہیں۔ اسے سیکھنے یا سکھانے کا کوئی حکومتی ادارہ نہیں ہے۔ سارا دن مٹی سے رشتہ قائم رکھنے والے کمہاروں کو اپنی محنت کا بہت کم معاوضہ ملتا ہے۔ اس کام میں ان کی خواتین بھی مدد کرتی ہیں۔کمہار سیاہ مسالا استعمال کرتے ہیں، یہ مصالحہ ’’ناب دان‘‘ بنانے میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک دوسرا مسالا ’’سہاگہ‘‘ ہوتا ہے۔ سہاگہ بھی ’’ناب دان‘‘ یا ’’بدر رو‘‘ بنانے کے کام آتا ہے، یہ مسالہ مصری کی طرح ہوتا ہے۔ مٹی کے برتنوں پر نقش و نگار یا ڈیزائن بنانے کے لیے کچھ ’’شیمپو‘‘ بھی ہوتے ہیں، جنھیں کمہار ’’مہر‘‘ کہتے ہیں۔

یہ مہر بھیگے ہوئے یا کچے برتنوں پر لگائی جاتی ہے تو ان پر نقش ابھر آتے ہیں، جو برتنوں کے پکاّ ہونے کے بعد بھی ان پر موجود رہتے ہیں۔ آخری مرحلے پر یہ برتن ایک بھٹی میں، جس کو کمہار ’’آوی‘‘ کہتے ہیں، پکا ہونے کے لیے رکھ دیے جاتے ہیں، جہاں وہ پکا ہوکر قابل ستعمال ہوتے ہیں۔ کمہار اس ’’آوی‘‘ کو دو دن قبل بھرلیتے ہیں، تیسرے دن اس کو آگ لگاتے ہیں، اسی طرح یہ برتن اس آگ میں پکتے ہیں۔

’’آوی‘‘ اینٹیں رکھ کر بنائی جاتی ہے، اس کا دہانہ تنگ ہوتا ہے جو کہ کھلا ہی رہتا ہے۔ اس میں آگ کو تیز کرنے کے لیے ایندھن ڈالتے رہتےہیں۔ پکانے کے لیے تمام برتن ترتیب سے رکھے جاتے ہیں ، جن کے اوپر مٹی بکھیر دیتے ہیں۔ برتنوں کو ایک دوسرے کے اوپر رکھنے کو کمہار ’’گھملا‘‘ کہتے ہیں۔برتن ترتیب سے رکھنے پر ان برتنوں کے درمیان جو جگہ بچتی ہے اس میں مٹی ڈالتے ہیں، مٹی کے برتن آوی یا بھٹی میں پکنے کے بعد استعمال کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔مٹی کے برتنوں کی چمک بنانے کے لیے کمہار دریا سے چمک دار ریت لے کر آتے ہیں جو برتنوں کے سانچے میں لگاتے ہیں۔ اس سے مٹی کے برتن چمک دار ہوجاتے ہیں جو دیکھنے میں خوش نما لگتے ہیں۔ اسی طرح لال مٹی کے برتن بھی خوب صورت لگتے ہیں، کمہار برتنوں کو رنگ نہیں کرتے، بل کہ ان پر مٹی کی طرح ایک چیز ہوتی ہے جسے سندھ میں ’’میٹ‘‘ کہتے ہیں، لگاتے ہیں جو کہ برتنوں کے پکے ہونے کے بعد سرخ رنگ اختیار کرلیتا ہے۔

مٹی کے برتنوں میں پودے لگانے کے لئے مختلف سائز کے گملے بنانے کے علاوہ گھروں میں تازہ پھولوں کو سجانے کے لئے گلدستہ بنانے کا رواج آج بھی ہے۔ فرق صرف یہ ہے آج کے کاریگر انتہائی نفاست سے کام کرتے ہیں۔ ان پر رنگوں اور برش کی مدد سے نقش نگاری کے ایسے نمونے بنائے جاتے ہیں جنہیں دیکھ کر سحر سا طاری ہوجاتا تھا۔ سکھر، خیرپور، شکارپور، جیکب آباد، گھوٹکی سمیت اندرون سندھ کے دیہی علاقوں میں مٹی کے برتن بنانے کی روایت آج بھی قائم ہے۔بعض دیہی علاقوں میں یہ ہنر گھریلو اور کاٹیج انڈسٹری کی شکل اختیار کرگیا ہے ۔ غیر ملکی سیاح انہیں مقامی دکانداروں سے انتہائی مہنگے داموں خریدکرسندھ کی ثقافتی سوغات یا نوادرات کے طور پر اپنے ملک لے جاتے ہیں اور اپنے احباب کو تحفتاً پیش کرتے ہیں۔

تلہار کی کمہار برادری کی سرکردہ شخصیت محمد ایوب کمہار کا کہنا ہے کہ ہم صدیوں سے اس ہنر سے وابستہ ہیں اور نسل در نسل اس پیشے کو اپنائے ہوئے ہیں لیکن اب ہماری نئی نسل دوسرےروزگار تلاش کر رہی ہے۔ ان کا مؤقف ہے کہ ان برتنوں کی تیاری میں لاگت اور محنت بہت زیادہ ہےمگر اس کے مقابلے میں آمدنی انتہائی کم ہے۔ایوب کمہارکا کہنا ہے کہ برتن بنانے کے لیے ہم پہلے مٹی گوندھتے ہیں، پھر اسے مختلف سانچوںمیں ڈال کر یا اپنی فن کارانہ مہارت کا استعمال کرتے ہوئے مختلف النوع شاہ کاروں میں ڈھالتے ہیں،ان پر رنگوں اوربرش کی مدد سے ڈیزائننگ کی جاتی ہے، ان پر پینٹنگز بنائی جاتی ہیں جو انتہائی مشقت طلب کام ہے لیکن پذیرائی نہ ملنے کے سبب اب اس کا مستقبل معدوم ہوتا جارہا ہے۔

جدید دور میں مٹی کے برتن متروک ہونے کے باوجود چھوٹے بچوں میں مٹی کے کھلونے آج بھی مقبول ہیں۔دیہی علاقوں میں چھوٹے بچے ان کھلونوں کو گڈے گڑیا کی شادی کے کھیل میں بطور جہیزمٹی کے چھوٹے چھوٹے برتن دیتے ہیں۔ مٹی کی ہنڈیا میں فرضی کھانا پکاتے ہیں جب کہ دوسرے کھلونوں سے کھیلتے ہیں۔مٹی سے بنے ہوئے بچوں کے گلک شہروں میں آج بھی دستیاب ہیں، جن میں صرف بچے ہی نہیں بڑے بھی پنا جیب خرچ جمع کرتے ہیں۔تلہار کے وارڈ نمبر 2 اور وسی عادل گوٹھ جہاں پر کمہار برادری رہائش پذیر ہے، ان علاقوں میں آج سے بیس پچیس سال قبل 60 فیصد گھروں میں مردو خواتین مٹی کے برتن بناتے تھے اور تلہار کے مختلف بازاروں میںان کی فروخت کے لیےایک درجن سے ز ائد دکانیں تھیں ۔ دکانوں کے علاوہ یہ برتن ٹھیلے ، پتھارے اور زمین پر چادریں بچھا کر بھی فروخت کیے جاتے تھے۔ آج سے 35 سال قبل وارڈ نمبر 3 کی رہائشی خاتون سونا، مٹی کے مختلف قسم کے برتن بناکر ان پر ڈیزائننگ کرتی تھیںان کے بعد ان کے بیٹے مرحوم محمد آچار کمہار بھائیوںنے اس پیشے کو اپنایا ۔ آج بھی تلہار میں 45 سالہ احمد شیرو کمہار مٹی کے برتن بنانے کا کام کرتا ہے ۔

کمہاربرادری کے افراد کا کہنا ہے کہ 'مٹی کے برتن ہماری ثقافت کا لازمی جزو ہیں لیکن ہماری نوجوان نسل ان سے دور ہوتی جا رہی ہے کیونکہ انہیں اس کام کا کوئی مستقبل نظر نہیں آ رہا۔ظروف سازی کی صنعت کےرو بہ زوال ہونے کی وجہ سےوادی مہران کی قدیم ثقافت متاثر ہونے کے ساتھ ملکی معیشت پر بھی برے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ کبھی یہ پاکستان کے دیہی علاقوں اور شہرو مضافات کی اہم گھریلو صنعت یا کاٹیج انڈسٹری میں شمار ہوتی تھی جس سے لاکھوں لوگوں کا روزگار وابستہ تھا۔

ان کے ہاتھ سے بنائی گئی مٹی کی مختلف النوع اشیاء نوادرات کی صورت میں بیرونی ممالک برآمد کی جاتی تھیں جن سے ملکی خزانے کوخطیر زرمبادلہ حاصل ہوتا تھا۔ اس قدیم صنعت کوحکومتی سطح پر نظرانداز کیے جانے کے بعدسے یہ زوال کا شکار ہے۔ ماہر کاریگر یا تو وفات پاچکے ہیں یا پھرروزگارکے دوسرے شعبوں سے وابستہ ہوگئے ہیں۔وادی سندھ کی اس قدیم ثقافت کو معدوم ہونے سے بچانے کے لیےمحکمہ آثار قدیمہ اور ثقافت کی طرف سے دوررس اقدامات کی ضرورت ہے۔