تبدیلی کا خواب: عوام کی مایوسی بڑھنے لگی

March 19, 2020

تبدیلی کا گیت ترانہ تو نہ بن سکا البتہ اس کے تخلیق کار اور پیرو اس سے بیگانہ ہوتے چلے جارہے ہیں سوشل میڈیا پر حکومتی اقدامات کے پیروکاروں اور نوجوانوں کی تعداد بڑی تیزی سے گر رہی ہے۔حکومتی سرخیلوں کو ذرہ بھر سمجھ نہیں آرہی کہ ایک کے بعدایک درپیش بحرانوں سے کیونکر نمٹا جائے۔حکومت میں شامل وزرا اور اس کے ترجمان مسلسل اپنی پانی ہانکے چلے جارہے ہیں ایک دوسرے کی تردید کرنے میں انھیں کمال ملکہ حاصل ہے۔عوامی مسائل میں کمی کے برعکس اقدامات کے طفیل عوام میںحکومتی مقبولیت مسلسل گرر ہی ہے جس کے دفاع کیلئے کسی کے پاس کو ئی بھی چارہ دستیاب نہیں ہے۔ ملک کا سیاسی بیانیہ تیزی سے کروٹ بدل رہا ہے ۔ایک طرف عوامی معاشی اور نفیساتی حالات دگرگوں ہوتے چلے جارہے ہیں تو دوسری جانب کورونا وائرس کا جن بوتل سے باہر نکلنے کو ہے ذرائع بتاتے ہیں کہ اس معاملہ میں حکومت نے بھرپور نااہلی کا مظاہرہ کیا ہے۔بظاہر پی ٹی آئی رہنمابہت خوش ہیں کہ کورونا وائرس پنجاب اور خیبر پختون خواہ میں ابھی نہیں پہنچا۔ اصل بات یہ ہے کہ دونوں صوبائی حکومتوں نے تکلیف ہی نہیں فرمائی کہ مشکوک افراد کو چیک کریں۔ جب چیک ہی نہیں کریں گے تو کرونا کیس کیسے سامنے آئیں گے۔ یہ نالائقی اور نااہلی نہیں ایک قومی جرم ہے۔

حکومتی زعما اوروزراءکے بیانات کی ارزانی کو زیر بحث لائیں یا دروغ گوئی کے چلن کو عام کرنے والے ماہریوٹرن کے معمولات کا ذکر کریں وہ میدان میں صفر بٹا صفر ہی ثابت ہوئے ہیں۔تبدیلی کے نام لیوا ئوں کا تو اور کچھ نہ ہوسکا البتہ غیر عوامی پالیسیوں کو اپنانے کی وجہ سے ان کا سفر عوامی سیاست کی شاہراہ پر موقف ہوا چاہتا ہے۔ڈیڑھ سال مکمل ہونے کو ہے مخصوص عزائم کی تکمیل کرنے کیلئے افراد غیر سیاسی افراد پر مشتمل جتھہ کرپشن کرپشن کا ڈھول پیٹ پیٹ کر ایوان اقتدار میں گھسا تھا ۔ اپنی شعلہ بیانیوں سے برپا کئے جانے والے بے لاگ احتساب کا حکومتی نعرہ کب کافشوں ہوچکا ہے ۔اقتدار پسندوں کے مجوزہ بیانیہ کے برعکس گورنر ہائوس سے لیکر وزیر اعظم ہائوس تک کہیں ایک بھی یونیورسٹی تونہ بن سکی جس پر انکی مبینہ دیانت عوام پر عیاں ہوچکی ہے ۔

حکومتی سیاسی انتقام پر مبنی بیانیہ سے حکومتی بھرم عوام پر کھل چکا ہے۔ کوئی کسی غلط فہمی نہ رہے کہ عوام کو پتہ نہیں ہے کہ حکومت نے کس مقصد کے حصول کیلئے عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے کہ فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ روکا جائے،پرویز خٹک پرمالم جبہ کیس نہ کھولا جائے، علیمہ خان سے حساب نہ مانگا جائے، وزیر اعظم ہیلی کاپٹر کیس بند کیا جائے،پشاور بی آر ٹی کا نہ پوچھا جائے، حکومتی وزرا کو نہ پوچھا جائے، پی ٹی وی حملہ کیس ختم کیا جائے ، پشاور کے عوام چیخ چیخ کر سوال کر رہے ہیں کہ سات ارب سے ایک اٹھائیس ارب پر پہنچ کر بھی نا مکمل پشاور میٹرو بس منصوبہ میں ناقص مٹیریل اور پرانا سریا استعمال کرنے کی وجہ سے استعمال سے پہلے ہی سیمنٹ اور بجری گرنا شروع ہو چکا ہے اس پر بھی نیب کیوں خاموش ہے؟ عوام سوال کرتے ہیں کہ بلین ٹری منصوبے میں بڑی کرپشن پر ابھی تک کیوں کچھ نہیں ہوا،خسرو بختیار کی آمدن سےزائد اثاثوں کاکیس کیوں کھولا نہیں جارہا ہے، عوام جان چکے ہیں کہ دیگر حکومتی عہدیداران کےمقدموں پر کیوں کارروائی نہیں ہورہی ہے ۔کیوں صرف سندھ اور پنجاب کے سیاستدانوں کو ہدف بنایا گیا ؟ اور کیوں کے پی کے کی کرپشن دیکھتے ہی وہ اندھے ہو گئے ہیں ؟ سیاسی حالات میں حد درجےبے یقینی پھیلنے کے نتیجہ میں ملکی سیاست دگرگوں ہوچکی ہے۔

عوام شدید ترین بے چینی میں مبتلا ہوچکے ہیں وہ یہ جان چکے ہیں کہ ملکی سیاست کے سرخیل ہمیشہ کی طرح ایک ہی موقف پر عمل پیرا ہیں ۔ اس بار بھی انھوں نے پیش قدمی کرتے ہوئے وہی فیصلہ کیا جو اس ایوان سے اکثر صادر کیا جاتا رہا ہے یعنی گرائو مارو اور منہ بند کردو۔حکومتی اہداف کو پورا کرنے کیلئے اپوزیشن کو ہدف بنانے کے بعد اس بار اس میڈیا کوہدف بنایا گیا جو گرفتاریوں پر حکومت اور نیب کےکردار پر سوال اٹھا تا تھا۔ جس کی تازہ ترین مثال پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا ہائوس جنگ گروپ اور جیو ٹی وی کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری ہے۔ ماضی کی حکومتوں نے ہمیشہ سوال اٹھانے پر جنگ اور جیو پر معاشی پابندیاں عائد کیں جیو کو بند بھی کیا گیا جنگ اور جیو کے اشتہارات بھی بند کئے گئے تاہم اس بار 34 سال پہلے خریدی گئی جائیداد کی منتقلی بارے ثبوت مانگ کر اور میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری کرکے اس ادارہ اور حکومت نے اپنے تابوت میں آکری کیل ٹھونک لیا ہے۔

میر شکیل کی گرفتاری کی گرفتاری کی خبر دنیا بھر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔بین الاقوامی سیاست میں بھی یہ خبر ٹاک آف ٹائون بن گئی۔ ملکی مذہبی اور سیاسی جماعتوں سے لیکر عالمی تنظیموں نے انکی گرفتاری کی شدید مذمت کی ہے۔نیب نے حسب روایت اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے انھیں نہ وکیل سے ملنے دیا، گھر کا کھانا نہ لانے دیا ،کتابیں اور اخبارات کی سہولت فراہم نہ کی اور تو اورفیملی ڈاکٹر تک بھی رسائی نہ دی جس کیلئے انکی اہلیہ کو لاہور ہائی کورٹ کے دو رکنی بنچ سے رجوع کرنا پڑا اور دو رکنی بنچ نے نیب کو یہ سب فراہم کرنے کا حکم دیا۔دو رکنی بنچ نےنیب سے انکوائری کی سٹیج پر میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری کا جواز مانگا اور پوچھا کہ کیا آپ نے حکومت کے خلاف تنقید کرنے پر پاکستان کے سب بڑے میڈیا ہائوس کے مالک کو پابند سلاسل کیا ؟ تو نیب جواب نہ دے سکی ۔