پاکستانی اشرافیہ...تماشائے اہل کرم

March 25, 2013

چند سال پہلے تک ہم لوگ غربت، بدحالی، انارکی اور خانہ جنگی جیسی صورتحال کو بیان کرنے کیلئے افریقہ کے ممالک روانڈا اور ایتھوپیا کی مثال دیا کرتے تھے، لیکن اب مجھے خدشہ ہے کہ روانڈا اور ایتھوپیا کے لوگ مندرجہ بالا مسائل کو بیان کرنے کیلئے پاکستان کی مثال دیتے ہوں گے۔وہ تمام پاکستانی جنہیں حال ہی میں پاکستان سے باہر جانے کا اتفاق ہوا ہو، بخوبی جانتے ہیں کہ اس وقت دنیا بھرکے ممالک کی نظر میں پاکستان کا تاثر کتنا خراب ہو چکا ہے۔مجھے پہلی دفعہ اس بات کا احساس کوئی پانچ سال پہلے اس وقت ہوا جب میں ایک سرکاری ٹریننگ کے سلسلے میں یورپ گیا۔ پاکستا ن کا نام سنتے ہی یورپ کے عام شہریوں کے چہرے پر ناگواری کے تاثرات نمایاں ہوجاتے اور وہ مروت ، جو ان لوگوں کا خاصا ہے، کے مارے فوراً ان تاثرات کو ایک مسکراہٹ سے زائل کرنے کی کوشش کرتے اور پھر تجسس سے بغور ہمارا جائزہ لیتے کہ ہمارے تمام اعضاء پورے ہیں، اورحیران ہوتے کہ ہم دھیمے لہجے میں انکے ساتھ ایک پوربی زبان میں بات کر رہے ہیں۔ جب کسی کے ساتھ بات چیت کا موقع ملتا تو وہ پوچھتاکہ کیا آپ کو پاکستان یاد آتا ہے( اسکا مطلب یہ ہوتا کہ شائد جواب ملے گا کہ نہیں !!شکر ہے کہ ہم زندہ سلامت یہاں پہنچ چکے ہیں)۔ ایک آدھ دفعہ میں نے کسی سے کہا کہ مجھے گھر بہت یاد آ رہا ہے اور میرا دل چاہتا ہے کہ میں فوراً واپس چلا جاؤں تو میرا مخاطب شخص عجیب سی ہنسی ہنسنے لگا جیسے میں کوئی جھوٹ بول رہاہوں۔اسی طرح چین میں جتنا وقت گزرا بم دھماکوں کی صفائیاں ہی دینا پڑیں، ہمیں اندھیرے میں بالکل نہیں رہنا چاہئے ، چین میں بھی پاکستان کا تاثر انتہائی منفی ہے، اتنا منفی کہ پی آئی اے کی پرواز سے اترنے والے پاکستانیوں کی نگرانی ،ظاہری طور پر بھی اور خفیہ طور پر بھی، باقی تمام پروازوں سے کہیں زیادہ کڑی ہوتی ہے(منشیات کی اسمگلنگ اور اسلامی انتہا پسندوں کی چین میں کی جانے والی مبینہ سر گرمیوں کی وجہ سے)۔بہرحال ملک کے اندر حالات اتنے بُرے نہیں ہیں، جتنے باہر سے نظر آتے ہیں۔ لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ درست ہے کہ حالات تیزی سے پست ترین سطح کی طرف جا رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں ہر چیز تباہی کی راہ پر گامزن ہے ، جس پہلو کا بھی جائزہ لیں، مایوسی کے اندھیروں کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا باوا آدم ہی نرالا ہے۔
کسی بھی ملک کی ترقی یا تنزلی میں اسکی اشرافیہ کا کردار فیصلہ کن ہوتا ہے۔اشرافیہ معاشرے کے بالائی طبقات پر مشتمل ہوتی ہے اور معاشرے کے بالائی طبقات ہمیشہ استحصالی رجحانات کے مالک ہوتے ہیں۔ان رجحانات کو ایک قابلِ قبول حدکے اندر رکھنے کیلئے مذہب ، فلسفہ ، تعلیم،آفاقی اخلاقیات، بغاوت کا خوف، انسان کے اندر پنہاں جبلی اچھائی جیسے کئی عوامل کارفرما رہتے ہیں۔ایک خاص وقت پر دنیا میں ہر طرح کے ممالک یا ریاستیں موجود ہوتی ہیں کچھ طاقتیں ترقی کی راہ پر گامزن ہوتی ہیں جیسے اس دور میں چین، بھارت، برازیل وغیرہ؛ کچھ ریاستیں عروج سے زوال کی طرف رواں دواں ہوتی ہیں جیسے روس اور امریکہ،کچھ ریاستیں اپنی ترقی کو ایک پسندیدہ حد تک لے جا کر قائم رکھے ہوئے ہوتی ہیں، جیسے یورپ، کینیڈا، آسٹریلیا، جاپان اور دیگرمشرقِ بعید و مشرقِ وسطی کے ممالک ، اور کچھ ریاستیں زوال سے مزید زوال کے راستے طے کررہی ہوتی ہیں، جیسے( نہایت افسوس کے ساتھ) پاکستان، افغانستان اور افریقہ کے کچھ ممالک۔کسی ریاست یا قوم کی حالت اسکی اشرافیہ کی کارکردگی کا براہ راست عکس ہوتی ہے۔اگر آج پاکستان زوال سے مزید زوال کی راہ پر گامزن ہے تو اسکا سارا الزام اسکی اشرافیہ کے سر پر ہے۔ پاکستان کی بربادی کے ذمہ داران میں ریاست کے سارے ستونوں کے بالا دست افراد، مذہبی رہنما ، سول سوسائٹی کی با اثر شخصیات،کاروباری اور صنعتی دنیا کے سربراہان، علمی اور فنونِ لطیفہ کے شعبوں کے نامور لوگ، سب کے سب شامل ہیں۔
آپ دوسرے ممالک میں جائیں تو جگہ جگہ آپ کو اشرافیہ کے ان افراد کے مجسمے نظر آئیں گے جنہوں نے کسی نہ کسی شعبے میں اپنے ملک کیلئے کوئی کارنامہ انجام دیا ہو، کوئی انہونا کام کیا ہو، کوئی بڑی ایجاد یا دریافت کی ہو ۔ اگر مجسمے نہ بھی ہوں تو آپ کو انکی تعمیرات ، انکی موسیقی، انکی فلموں، انکی کتابوں، انکی تخلیقات ، انکی معاشرتی اقدارمیں انکی اشرافیہ کی کارکردگی کی جھلک نظر آئے گی۔لیکن ہمارے ہاں!! ہماری اشرافیہ نے پینسٹھ سالوں میں ان میں سے کون سا کارنامہ انجام دیا ہے؟؟ کوئی بھی نہیں۔ اس نے صر ف لوٹ مار کی ہے ، استحصال کیا ہے اور بس!!
اشرافیہ کی کارکردگی کا دارومدار بڑی حد تک اسکی علمیت و قابلیت کے ساتھ ساتھ اسکی اخلاقی حالت اورایک طرف اپنے اوردوسری طرف معاشرے کے مفادات میں ایک توازن قائم رکھنے کی صلاحیت پرہوتا ہے۔جہاں تک ہماری اشرافیہ کا تعلق ہے تو یہ پہلی شرط تو کسی حد تک پوری کرتی ہے لیکن دوسری شرط کے معاملے میں بالکل تہی داماں نظر آتی ہے۔اخلاقی اقدار اور توازن کے بندھن میں لپٹی علمیت و قابلیت جس قدر معاشرے اور خود اشرافیہ کے لئے سود مند ہوتی ہے ، اس سے محروم علمیت و قابلیت معاشرے اور اشرافیہ دونوں کے لئے اتنی ہی مہلک ہوتی ہے۔میری نظر میں پاکستان کے بدقسمتی کے پیچھے اسی ثانی الذکر صورتحال کا ہاتھ ہے۔ہماری اشرافیہ کا اخلاقی معیار بہت پست ہے۔ ذاتی اور گروہی مفادات کے علاوہ کوئی خاص جذبہ اس میں نظر نہیں آتا۔آپ کسی بھی شعبے کی بالا دست شخصیات کی ذہنیت کا تجزیہ کر کے دیکھ لیں ، آپکو ایک ہی رجحان نظر آئے گا کہ ہر کوئی اپنے ادارے یا گروہ کے مفادات کا تحفظ کر رہا ہے ۔ ادارے اور گروہ کے مفادات کا تحفظ دراصل اپنے ذاتی مفادات کو تحفظ دینے کیلئے ہوتا ہے۔ پھر یہی ذہنیت آپ کو ادارے یا گروہوں کے اندر چھوٹے گروہوں اور بالآخر ذاتی سطح کے مفادات کے تحفظ کی کوششوں کی شکل میں نظر آئے گی۔
ہماری اشرافیہ کا دوسرا سب سے بڑا مسئلہ مرعوبیت ہے۔ کیونکہ اسکی بالا دست شخصیات کا ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ ایک مسلسل اور متحرک رشتہ موجود ہے ، وہ زیادہ تر انہی ممالک سے تعلیم یافتہ ہیں اور وہاں نوکریاں اور کاروبار بھی کرتے ہیں، انکی زبان، لباس ، ثقافت کو بر تر تسلیم کرتے ہیں، ہر بات میں انکی نقالی کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں ۔۔۔ لیکن ایکمظہر یہ ترقی یافتہ ممالک سے نہیں سیکھتے جو دراصل سیکھنے کی چیز ہے اور جس کی وجہ سے ترقی یافتہ ممالک ترقی یافتہ ہیں۔ وہ ہے تخلیق کی صلاحیت۔ہماری اشرافیہ ہمیں قومی اور مقامی زبانوں کو نظر انداز کرنے کا سبق دے گی، اپنے لباس ، اپنی ثقافت، اپنے مذہب سے بیزار نظر آئے گی۔ دراصل ہماری اشرافیہ خود بھی ترقی یافتہ ممالک جیسا بننا چاہتی ہے اور ہمیں بھی ان جیسا بنانے کی کوشش میں لگی رہتی ہے لیکن یہ بات اسکی سمجھ میں نہیں آتی کہ ترقی یافتہ قوم اور ملک بننے کا طریقہ مرعوبیت یا نقالی نہیں بلکہ تخلیقی صلاحیتوں کی ترویج ہے۔
پاکستانی اشرافیہ کا تیسرا مسئلہ حب الوطنی اورنیشنلزم یعنی قوم پسندی کے جذبے کا فقدان ہے۔ اس میں پاکستانیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایک عام پاکستانی کو اپنے ملک اور قوم سے اشرافیہ سے کہیں زیادہ محبت ہے۔اسکی بڑی وجہ یہ ہے کہ اسکا جینا مرنا پاکستان نہیں ہے۔اکثر صورتوں میں اسکی دولت، جائداد،مفادات دوسرے ممالک کے ساتھ وابستہ ہیں اور بہت سوں کے پاس تو دوسرے ممالک کی شہریت بھی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ حب الوطنی اور قوم پسندی کے جذبات کے بغیر کسی بھی ملک کی اشرافیہ نتائج نہیں دے سکتی۔ میں نے چین ، بھارت ، جاپان جیسے ملکوں کی اشرافیہ میں اس جذبے کو اپنے پورے جوبن پر دیکھا ہے۔ جہاں انکے ملک یا قوم پر آنچ آ نے کا خدشہ ہو، ان ممالک کی اشرافیہ کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہو جاتی ہے۔لیکن ہمارے ہاں کیا ہوتا ہے، آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔
مجھے مستقبل قریب میں پاکستانی اشرافیہ میں ایک تبدیلی کی لہر ابھرتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ اس تبدیلی کے نتیجے میں نچلے طبقات سے ایک بہت بڑا ریلا اشرافیہ کا حصہ بن سکتا ہے ، جو مندرجہ بالا خامیوں سے کافی حد تک پاک ہو گا۔ اگر ایسا ہو گیا ، تو پاکستان ترقی، خوداعتماد ی اور خود مختاری کی شاہراہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔