درخت آدمی ہیں (قسط نمبر3)

April 19, 2020

اس پودے کو میتھوسلا کا نام دیا گیا، جنھیں ہم پیغمبرحضرت ادریس ؑ کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ حضرت نوح ؑکے دادا تھے اور انجیل کی بزرگ ترین ہستی ہیں۔ قرآن پاک میں بھی ان کا دو مرتبہ تذکرہ آیا ہے اور مالک ابن انسؓ فرماتے ہیں کہ یہ رسول پاک ﷺ کو معراج کے سفر میں چوتھے آسمان پر ملے تھے۔ مذہبی تاریخ دانوں کے مطابق اُس زمانے کی کھجور کے اِس درخت کی نسل کی کھجوریں’’بڑی، سیاہ اور شیریں‘‘ ہوتی تھیں۔ یہ رومی شہنشاہوں کے دسترخوانوں کی زینت بنتی تھیں۔ آٹھ سو برس پہلے اس تاریخی کھجور کی نسل حملہ آوروں نےختم کردی تھی۔ ماہرینِ زراعت قدیم نسل کی اس کھجور کو، جس کا تذکرہ مذہبی صحائف میں موجود ہے، ازسرِنو پیدا کر کے منتظر ہیں کہ امکانی طور پر ان کھجوروں میں بیان کردہ شفائیہ اوصاف موجود ہوں گے۔ یہ دنیا کی تاریخ کا وہ قدیم ترین بیج ہے، جسے کام یابی سے اُگایا گیا ہے۔ یوں امکان ہے کہ لوگوں کو سیکڑوں برس بعد وہی کھجوریں کھانے کو ملیں گی، جن کا تذکرہ انجیل اوردیگر مذہبی کتب میں ہے۔

دیگر مذاہب کی طرح مسیحی عقیدے کے لوگوں میں بھی درختوں سے کئی روایات وابستہ ہیں۔ برطانیہ میں گلاسٹن بری، سمرسیٹ میں پھولوں والا مقدّس ایک خاردار شہفنی درخت اُگتا ہے۔ روایت ہے کہ یہ پہلی صدی عیسوی کے دوران سینٹ جوزف کے اُس علاقے کے دورے کے دوران اُس مقام پر اُگا تھا، جہاں اُن کی لاٹھی زمین سے ٹکرائی تھی۔ ایسے عام درخت سال میں ایک مرتبہ پھول پیدا کرتے ہیں، جب کہ یہ درخت سال میں دو مرتبہ جوبن پر آکر پھول اُگاتا ہے۔ مذاہب کے علاوہ مختلف ثقافتوں کی لوک روایات میں پیڑوں کا بھرپور استعمال کیا گیا ہے۔ ایک خرد افروز اور منفرد حکایت ہے۔ بدھ مَت کے ایک عبادت کدے کے خُوب صُورت باغ کی رکھوالی کی ذمّے داری ایک مذہبی پیشوا کو دی گئی تھی۔ اُسے پھولوں، جھاڑیوں اوردرختوں سےمحبّت کی بناپر یہ ذمے داری سونپی گئی تھی۔ اس عبادت کدے کے قریب ایک اور چھوٹا سا عبادت خانہ تھا، جس میں ایک بزرگ مذہبی پیشوا رہتا تھا۔

اُسے استاد کا درجہ حاصل تھا۔ ایک مرتبہ جب پیشوا چند مہمانوں کی آمد کی توقع کر رہا تھا تو اس نے باغ کے پودوں، درختوں کی تراش خراش پر خاص توجّہ دی۔ فالتو گھاس پھونس کو اکھاڑا، جھاڑیوں کو تراشا، کائی صاف کی، درختوں پودوں کو دھویا اور بکھرے پتّوں کودل جمعی سےہٹا کراپنی دانست میں باغ کو خُوب سجاسنوار دیا۔ جب وہ یہ سب کر رہا تھا تو برابرمیں واقع عبادت خانے کا استاد پیشوا دیوار کے اوپر سے بغور دیکھ رہا تھا۔ پیشوانے کام ختم کرکے باغ کو ستایش بھری نظروں سے دیکھا اور استاد سے مخاطب ہوکر پوچھا ’’باغ کتنا خُوب صُورت لگ رہا ہے؟‘‘ استاد نے جواب دیا’’ہاں، مگر ابھی ایک کمی ہے۔ مجھے دیوار سے اٹھا کر اپنی جانب لے آؤ۔ مَیں اِسے مکمل اور بہترین کردوں گا۔‘‘ کچھ تردّد کے بعد پیشوا نے بزرگ استاد کی دیوار کے اوپر سے اُدھر آنے میں مدد کی۔ بزرگ استاد آہستہ آہستہ باغ کے وسط میں لگے درخت کے قریب پہنچا، اُس کے تنے کو تھاما اور زور زور سے ہلایا۔ اس کے اِردگرد باغ میں پتے پھیل گئے۔ اس کے بعد استاد بولا ’’یہ صحیح ہے۔ اب تم مجھے واپس پہنچا دو۔‘‘یہ حکایت اس بات کی علامت ہے کہ ہر شے اپنی قدرتی حالت ہی میں اچھی لگتی ہے۔

خوب صفائی ستھرائی سے باغ میں ایک مصنوعی پَن آگیا تھا، پتے بکھرنے سے وہ اپنی قدرتی حالت میں آگیا۔ مائکل پولن کا قابل بحث مقولہ ہے’’قدرت انسان کے تراشے باغ کو ناپسند کرتی ہے۔‘‘بدھ مَت میں درختوں کی بقا اور دیکھ بھال انسانوں کی بنیادی ذمّے داریوں میں سےاہم ذمّےداری ہے۔ یہ رحم اور مہربانی کے حق دار متصّور ہوتے ہیں۔ جین مَت میں رحم اور عدم تشدّد کے اصولوں کا عملی طور پر مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ گودرختوں، پودوں کا قتل انسانوں کے قتل کی طرح سنگین تصوّر نہیں کیا جاتا مگر اسے ایک وحشیانہ عمل ضرور سمجھا اور کہا جاتا ہے کہ یہ منفی کارما(کرم) کا باعث بنتا ہے۔ کرم مکافاتِ عمل کو کہتے ہیں۔ یعنی انسان کو اُس کے عمل کا نتیجہ کسی نہ کسی صُورت مل ہی جاتا ہے۔ ایک نظریے کے مطابق انسان اورنباتات و جمادات زندگی سے معمور ہیں، یہ سب زندہ مخلوقات ہیں سو بہ حیثیتِ مجموعی کائنات میں اجتماعی زندگی اور توازن کا حصّہ ہیں۔ یہ سب آپس میں منسلک ہیں اور جو بھی یہ توازن بگاڑتا ہے، اُسے سزا بھگتنا پڑتی ہے۔

مذہب،حکایات اوررومان سےنکل کراگر سائنسی طور پر دیکھا جائے، بین الاقوامی سطح پر درختوں سے وابستہ دل چسپ حقائق کا جائزہ لیا جائے، پاک وہند کے درختوں اور اُن سے منسلک حیران کُن مگر سچّے واقعات پر نظر ڈالی جائے اور علم و ادب میں اِن کے تذکروں پر بات کی جائے تو بہت سے ننّھے دیے روشن ہوجاتے ہیں، بالکل ایسے ہی جیسے درختوں کےگنجان سرسبز گھنے نم جنگل میں کسی جنگلی جھاڑی میں جگنو ٹمٹماتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق دنیا کو وجود میں آئے ساڑھے چار ارب برس ہوئے ہیں۔ اس مدّت کے ابتدائی نوے فی صد حصّے میں دنیا میں کوئی درخت نہیں تھا۔ قریباً بیالیس کروڑ برس پہلے پودے وجود میں آئے۔ یہ بھی رَگ دار پودے ہوتے تھے، جو ایک میٹر یا تین فٹ سے زیادہ بلند نہ ہوتے۔

درخت کو مضبوط تنے کی ضرورت تھی، جو سیدھا کھڑارہ سکےاور اپنی شاخوں اور پتّوں کو زمین سے پانی اور نمکیات کی فراہمی ممکن بنا سکے۔ پودوں کی ابتدائی شکل پھپھوندی کی تھی (حیران کُن طور پر اگر انسان کو ابتدائی شکل میں رحمِ مادر میں دیکھا جائے تو وہ بھی مائع سے چمٹنے والے مادّے اور اس سے بتدریج دیگر اشکال اختیار کرتا ہے)۔ اسی طرح اس پھپھوندی نے کروڑوں برس میں کائی اور اس سے کزف(فرن) اور پھر بونے پودوں کی شکل اختیار کی۔ دنیا کی قدیم ترین فرن کی باقیات سے معلوم ہوا کہ یہ اڑتیس کروڑ برس پرانی تھی۔ اس کی افزایش بیجوں سے نہیں ،بیضے سے ہوتی تھی۔فلموں میں دکھائےجانے والے جراسک (Jurassic) دَورمیں مخروطی شکل کےپھل پیداکرنےوالے درخت نما پودےبراعظم گونڈاوا میں پائےجاتے تھے۔ تب دنیا کے سارے براعظم اکٹھے ہوکر ایک براعظم گونڈاوا بناتےتھے۔ یہ پودا اِسی براعظم میں اُگتا تھا۔ یاد رہے کہ یہ بیس کروڑ برس پُرانی بات ہے اور یہ پودے بھی قریباً پندرہ کروڑ برس پہلے معدوم ہوگئے تھے۔ ان کی فقط ایک نسل آسٹریلیا میں زندہ موجود ہے۔ آہستہ آہستہ انھوں نے موجودہ درختوں کی شکل اختیار کی۔ موجودہ درختوں کے باعث حیوانات کی وسیع پیمانے پر افزایش اور پرورش ہوئی اور ان کی بےشمار نسلوں اور قسموں نے جنم لیا۔ یہ سارا عمل کروڑوں برس پر محیط ہے۔ اس وقت دنیا میں تین کھرب سے زائد درخت ہیں۔ ان میں سے اکثریت گرم اور مرطوب خطّوں میں پائی جاتی ہے۔ آج بھی ماہرینِ نباتات ان کی تعداد اور اقسام کے بارے میں مکمل علم نہیں رکھتے۔ ایک تحقیق کے مطابق دنیا میں ہر برس پندرہ ارب درخت کاٹےاور پانچ ارب لگائےجاتےہیں۔

درختوں کی ایک بڑی تعداد زیر زمین روابط کے پیچیدہ سلسلے سے باہم منسلک ہے۔ حقیقت جانچنے کے لیے ایک درخت میں کیمیائی یاتاب کارمادّےداخل کردیےجاتےہیں۔ بعدازاں قرب وجوارکےدرختوں میں ان کی موجودی پائی گئی۔ یوں یہ بھی کہاجاسکتا ہےکہ درخت ایک کالونی کی شکل میں رہتے ہیں۔ اس تحقیق کے دوران ایک دل چُھو لینے والی حقیقت بھی سامنے آئی۔ پرانے اور بڑے درخت اپنے قریب اُگنے والے ننّھے بچّے درختوں کو اپنی جَڑوں کے ذریعے خوراک فراہم کرتےرہتےہیں تاوقتیکہ وہ توانا اورمکمل خودمختار نہ ہوجائیں۔ بعد میں وہی بچّےدرخت، بڑے ہو کر انھی پرانے بوڑھے درختوں کو خوراک فراہم کرنا شروع کردیتے ہیں۔ اسے www ورلڈوائڈویب کی طرز پر وُوڈ وائڈ ویب کہا جاتا ہے۔ یقیناً دنیا کا نظام رحم، مہربانی اور بقائے باہم کے اصولوں ہی پر آگے بڑھ رہا ہے۔ یہاں تک دیکھا گیاہےکہ جب کوئی قدیم درخت قدرتی طور پر گرجاتا ہے تو آس پاس کے درخت اُس کے زمین میں گڑے تنے کو سیکڑوں برس تک شکر آمیزخوراک دےکرزندہ رکھتے ہیں۔ یقیناً اس میں ہم انسانوں کے لیے سبق ہے۔

دنیا کا قدیم ترین زندہ درخت4800برس پرانا ہے۔ اسے بھی میتھوسلا کا نام دیا گیا ہے اور یہ صنوبر کا درخت ہے۔ امریکا میں واقع اس درخت کے مقام کو خفیہ رکھا گیا ہے تاکہ کوئی مَن چلا یا جرائم پیشہ شخص اُسےنقصان نہ پہنچا دے۔ماہرینِ نباتات کے مطابق اس درخت کی طویل عُمر کے پیچھے دو راز ہیں۔ پہلایہ کہ اس کی چھال حد درجے سخت ہے، جس کی وجہ سے دیمک یا کیڑے مکوڑے اس کے بدن میں سرایت نہیں کرپاتے۔ دوسرا یہ کہ یہ ایک دشوارپہاڑی علاقےمیں تنہاکھڑا ہے۔ جغرافیائی ماہیت کی وجہ سے اس جگہ دوسرے پودے نہیں اُگ پاتے، سو وہاں موجود زیرِزمین نمکیات اور خوراک پر اس اکیلے کا تصرّف ہے اور ان کے حصول کے لیے اُسے دیگر پودوں، درختوں سےمقابلہ نہیں کرنا پڑتا۔ اس وقت دنیا میں ساٹھ ہزار اقسام کے درخت ہیں۔

اِن میں سے آدھی سےزیادہ اقسام کسی ایک مُلک میں پائی جاتی ہیں۔ برازیل، کولمبیا اور انڈونیشیا میں ایسے درختوں کی سب سے زیادہ اقسام پائی جاتی ہیں، جو صرف وہیں وجود رکھتے ہیں اور دیگر کسی مُلک میں نہیں پائے جاتے۔ مڈگاسکر اور پاپا ؤنیوگنی اور دیگرچند جزائر بھی ایسے ہی بے شمار اقسام کے درختوں کے ذخیرے رکھتے ہیں۔ ایک شاہ بلوط دن میں ایک سوگیلن پانی استعمال میں لاسکتا ہے اور قوی الجثہ امریکی دیو دار درخت ایک روز میں پانچ سو گیلن پانی بھی تصرّف میں لاسکتا ہے۔ بعد ازاں، درخت یہ پانی پتّوں وغیرہ کے ذریعے بخارات کی شکل میں فضا کو لوٹا دیتے ہیں۔ زیتون کے درخت خشک سالی، بیماری اور یہاں تک کہ کچھ حد تک آگ کا بھی مقابلہ کرلیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ زیتون کےدرختوں کےکئی جُھنڈ سیکڑوں ہزاروں برس پرانے ہوتے ہیں۔ بعض درخت ہرن کی رال کو حیران کُن خوبی سے پہچان لیتے ہیں۔ چناں چہ جب ہرن ان پر دانت مارتے ہیں تو وہ اپنے متاثرہ حصّوں میں ایسی تیزابیت پیدا کرلیتے ہیں، جس سے ہرن کو کھٹے اورکڑوے پن کا احساس ہوتا ہے اور وہ اِنھیں چھوڑدیتا ہے۔ جس طرح بعض انسان بھورے پن یا برص کا شکار ہوتے ہیں، اِسی طرح امریکی تاڑ کےدرخت بھی بھورے پن کے شکار ہوتے ہیں۔ ان میں کلوروفل(سبزہ نباتی)نہیں ہوتا۔ چناں چہ یہ اپنی جَڑیں تاڑ کے صحت مند درختوں کی جَڑوں میں پیوست کر کے اُن سے خوراک حاصل کر لیتے ہیں۔

یعنی انھیں طفیلی (Parasite) درخت بھی کہاجاسکتا ہے۔ ساحلی جنگلات (Mangroves) کے پودوں اور درختوں میں ایک متاثر کُن خوبی ہوتی ہے۔ یہ سمندر کے کھارے اور نمکین پانیوں پر زندہ رہتےہیں۔درحقیقت یہ قدرت کی کرشمہ سازی ہے کہ اِن کی جَڑیں قدرتی نمک ربائی کی( پانی سے نمک صاف کر کے اُسے قابلِ استعمال بنالینا) صلاحیت رکھتی ہیں اور یہ کھارے پانی کا ننانوے فی صد نمک صاف کر لیتی ہیں۔ قدرت نے انھیں پانی صاف کرنے کی یہ خوبی تحفتاً دے رکھی ہے، جس پرانسان بے تحاشا سرمایہ خرچ کرتا ہے۔

تمام درخت رات کو معصوم بچّوں کی طرح سو جاتے ہیں۔ ایسے میں اُن کی شاخیں ذرا ڈھلک جاتی ہیں اور ڈالیاں آرام اور سُکون سے لٹک سی جاتی ہیں۔ صبح تڑکے یہ تازہ دَم ہوکرپھر سے اکڑاؤ کی کیفیت میں آجاتے ہیں۔ دیوقامت تاڑ کا درخت اتنا اونچا ہوتا ہے کہ بجائے جڑوں سے پانی لے کر اوپری نوک تک پہنچانے کے یہ بلندی کی دھند سے نمی چوس لیتا ہے۔ جاپان میں چھوٹے چھوٹے درخت اُگائے جاتے ہیں، جنھیں گملوں میں بھی اگایا جاسکتا ہے،انھیں بونسائی کہا جاتا ہے۔ مالٹے کا بھی بونسائی درخت اگایا جاسکتا ہے، جو ننّھے ننّھے مالٹے پیدا کرتا ہے۔ پولونیاکےدرخت کو ’’درختوں کی شہزادی‘‘ بھی کہاجاتا ہے۔ ایک دَور میں روایت تھی کہ جس گھرانے میں بچّی پیدا ہوتی تھی وہاں پولونیا کا درخت لگادیا جاتا تھا۔ جب بچّی جوان ہوتی اور اس کی شادی کا موقع آتا تو درخت بھی بڑا ہوچکاہوتا،سو دُلہن کو اُسی درخت کی لکڑی سے سنگھار میز بناکر دی جاتی تھی۔ درختوں کے کام آنے کی بات ہے تو یہ امر قابل توجہ ہے کہ زیتون کا ایک درخت سالانہ چار لیٹر تیل سیکڑوں برس تک انسانوں کو ان کی ضرورت کے لیے فراہم کرسکتا ہے۔فوائد میں تو سہانجنا کادرخت بھی کسی سے کم نہیں۔ اس کے پتّوں میں ساگ پالک سے زیادہ آہنی اجزا، دودھ سے زیادہ کیلشیم اور گاجر سے زیادہ وٹامن اے پایا جاتا ہے اور اس کے بیج پانی کو صاف کرنے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتے ہیں۔

چند انسان بھی خرابی کی غیر معمولی صلاحیت رکھتےہیں۔صحاراکےریگستان میں ایک غیر معمولی اور بے مثال درخت تھا۔ سارے بنجرعلاقے میں وہ واحد درخت انگشتِ شہادت کی طرح کھڑا تھا اور قدرت کی شان کامظہرتھا۔ اس کی جڑیں 110فٹ کی گہرائی تک چلی گئی تھیں۔ نشے میں دُھت ایک کار ڈرائیور کو پورے ریگستان میں غالباً وہی درخت نظر آیا اوراس نے دیگر سارے رستے چھوڑکر اپنی گاڑی اسی درخت میں دے ماری اور اُس کا قصّہ تمام کر دیا۔ اسی طرح کا ایک اور درخت بحرین میں موجود ہے۔ اُسے ’’زندگی کا درخت‘‘ کہا جاتا ہے۔ وہ چار سو برس کی عُمر رکھتا ہے اور صحرا کے بیچ میں اُگاہوا ہے۔ اس کے گرد ونواح میں درخت تو دُور کی بات، سبزے کابھی نام ونشان نہیں۔ غالباً نشے میں دُھت کسی ڈرائیورکی ابھی تک اُس پر نظرنہیں پڑی۔ انسانی نظر بھی عجب معاملہ رکھتی ہے، جو نظر دیکھتی ہے، وہ دل تک جاپہنچتا ہے۔ یہی وجہ ہےکہ جدید تحقیق کے مطابق وہ شاپنگ سینٹر، جن کےآس پاس سبزہ اور درخت ہوتے ہیں، وہاں خریداری کےدیگر مراکز کی بہ نسبت 12فی صد زیادہ خریداری ہوتی ہے۔ یہ امرلوگوں کے سبزے کی جانب فطری رجحان کی عکّاسی کرتا ہے۔ اسی طرح وہ اقامتی علاقے یا ہاؤسنگ اسکیمز جہاں سڑکوں کے ساتھ دورویہ سرسبزدرخت ہوں، وہاں جائداد کی قیمتیں زیادہ ہوتی ہیں۔ ہاؤسنگ اسکیمز میں خُوب درخت لگا دیے جائیں یا سبزہ کردیا جائے تو پلاٹوں کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔

اِدھر ہم سرمایہ داروں کو درخت لگا کر سرمائے میں اضافے کی ترغیب دے رہے ہیں، اُدھر جاپان میں زمانہ چال قیامت کی چل گیا ہے۔ جاپانی’’شِن رِن یوکو‘‘ نامی عمل کے ذریعے شفایابی اورسکون پاتے ہیں۔ اس میں وہ جنگل کی فضا میں سما جاتے ہیں اور اس ماحول کو اپنے اندر جذب کرلیتے ہیں۔ اسے Forest Bathing یا ’’جنگل میں غسل‘‘ کانام دیا گیا ہے اور باقاعدہ طبّی طور پراس عمل سے فیض یاب ہواجاتاہے۔ اس عمل میں لوگ جنگل کی تنہائی میں جاکر درختوں کے بیچ خاموشی سے مراقبے کی صورت بیٹھ جاتےہیں۔اس سےبلڈپریشر، کولیسٹرول، ڈیپریشن، السر، ذہنی تناؤ اور دیگر عوارض میں کمی واقع ہوتی ہے۔ درختوں سے ایک کیمیائی مادے کا اخراج ہوتا ہے، جسے فائٹون سائڈ کہا جاتا ہے۔ یہ خاصا شفا بخش ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ باقاعدہ تحقیق کےبعد اسےجاپانی حکومت نے مُلکی پالیسی برائے صحت کا رسمی حصّہ بنالیا ہے۔ (جاری ہے)