استغفار کیوں؟ ایک ضروری وضاحت

April 21, 2020

ایک بات طے ہے اور بنیادی اصول کی حیثیت رکھتی ہے کہ استغفار قبولیتِ دعا اور انعاماتِ ربی کے حصول کا بہترین ذریعہ اور طہارتِ قلب کا مجرب نسخہ ہے۔ نہ صرف ہمارے نبی کریمﷺ معصوم ہونے کے باوجود دن میں ستر بار استغفار کرتے تھے بلکہ آلِ محمدﷺ بھی کثرت سے استغفار کرتی تھی۔ میں نے گزشتہ کالم میں اس حوالے سے حضرت علیؓ کے ایک واقعہ کا ذکر کیا تھا جو قرآن مجید کی سورئہ نوح کی عملی تعبیر اور تشریح ہے۔ محترم رضی الدین سید نے بتایا کہ مولانا مودودیؒ مرحوم و مغفور نے تفہیم القرآن کی چھٹی جلد میں سورئہ نوح کی تفسیر بیان کرتے ہوئے اسی قسم کے واقعے کا ذکر کیا ہے جو حضرت حسن بصریؒ سے متعلق ہے۔ ایک اور محترم عالم و فاضل شخصیت نے کہا اسی طرح کا واقعہ میں نے حضرت ابوزر غفاریؓ کے حوالے سے پڑھا ہے۔ علامہ طالب جوہری نے اس واقعہ کو مولا علیؓ سے منسوب کیا ہے۔ سند یہ ہے ابن عباس اس کے راوی ہیں۔ مولانا مودودیؒ نے حضرت حسن بصری کے حوالے سے یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے (کشاف) کی سند دی ہے۔ محترم ڈاکٹر ملک غلام مرتضیٰ مرحوم نے انوار القرآن کی دوسری جلد کے صفحہ نمبر 829پر اس واقعہ کو بیان کیا ہے۔ اُن کا بیان مولانا مودودیؒ سے ملتا جلتا ہے۔ انہوں نے سورئہ نوح کی تفسیر بیان کرتے ہوئے لکھا ہے ’’ان آیات کی تشریح میں سیدنا حسن بصریؒ کا ایک واقعہ بہت ہی لطیف نکات کا حامل ہے۔ روایت ہے کہ حسن بصری مجلس میں تشریف فرما تھے۔ جذب کا عالم تھا اور دعا و مناجات کا ذکر ہو رہا تھا۔ ایک صاحب آئے اور عرض کیا کہ جس علاقہ سے میرا تعلق ہے وہ اور اس کا ملحقہ علاقہ بارانی ہے۔ اگر بارش نہ ہو تو سال بھر قحط کی حالت رہے گی۔ آپ دعا فرمائیے اور وظیفہ ارشاد فرمائیے۔ انہوں نے فرمایا کہ کثرت سے استغفار کرو۔ ایک اور سائل نے عرض کی حضرت غربت و تنگدستی اور قرض نے میرے گھر میں ڈیرہ ڈال رکھا ہے۔ حضرت حسن بصریؒ نے فرمایا کثرت سے استغفار کرو۔ اسی نشست میں ایک صاحب نے بےاولاد ہونے کی شکایت اور اولادِ نرینہ کی خواہش کی تو اُسے بھی فرمایا کہ کثرت سے استغفار کرو۔ ایک اور شخص آیا کہ میرے باغات اجڑ گئے ہیں۔ اُسے بھی تلقین کی کہ کثرت سے استغفار کرو۔ ایک اور شخص آیا اور دکھڑا بیان کیا کہ ہمارا نہری نظام برباد ہو چکا ہے، جواب ملا کثرت سے استغفار کرو۔ حاضرین کے چہروں سے تعجب اور حیرانی عیاں ہو چکی تھی۔ حضرت امام حسن بصریؒ نے اُن کو خطاب فرمایا اور پریشانی کا سبب پوچھا سب نے عرض کیا کہ اتنے سارے مسائل اور ایک ہی جواب اُنہوں نے جواباً متذکرہ آیت کی تلاوت فرمائی۔ یہ آیات سورئہ نوح کی آیت نمبر 10تا12ہیں جن میں اللہ پاک نے وعدہ فرمایا ہے کہ ’’استغفار کرو۔ بیشک وہ بڑا معاف کرنے والا ہے۔ وہ تم پر آسمان سے بارشیں برسائے گا، تمہیں مال اور اولاد سے نوازے گا، تمہارے لئے باغ پیدا کرے گا اور تمہارے لئے نہریں جاری کر دے گا۔ تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ اللہ کے لئے تم کسی وقار کی توقع نہیں رکھتے‘‘۔ لبِ لباب یہ ہے کہ یہ نبی کریمﷺ کے وصال کے بعد کا دور ہے جسے صحابہ کرامؓ اور تابعینِ کرامؒ کا دور کہا جاتا ہے۔ اُس دور میں مسلمان خلوصِ نیت سے دنیاوی اور دنیوی مسائل کے لئے قرآن مجید سے رہنمائی لیتے تھے اور عام طور پر دنیاوی مسائل وہی ہوتے تھے جن کا ذکر اوپر ہو چکا ہے۔ آج کے دور میں تو مسائل کا انبار لگ چکا اور مسلمانوں نے قرآن حکیم سے رہنمائی لینے کی عادت بھی ترک کر دی۔ بلکہ میں تو روشن خیالوں کو اس پر طنز کرتے اور لفظی تمسخر اُڑاتے دیکھتا ہوں کیونکہ شاید اُنہیں اللہ پاک کے وعدے پر بھروسہ نہیں اور قرآن مجید کے الفاظ میں ’’وہ اللہ تعالیٰ سے کسی وقار کی توقع نہیں رکھتے‘‘۔ اسی لئے تو قرآن مجید نے استغفار پہ زور دیا ہے۔ خلوصِ نیت اور مکمل بھروسہ مکمل اعتماد اور کامل یقین بنیادی شرط ہے، اللہ پاک کی نعمتوں سے سرفراز ہونے کے لئے۔ بہرحال ایک بات واضح ہے کہ اُس دور میں جس شخص نے بھی ان مسائل اور مشکلات کے سلسلے میں کسی صحابیؓ یا تابعیؒ سے رہنمائی لینا ہوتی تھی اُسے سورہ نوح میں بیان کردہ وظیفہ ہی بتایا جاتا تھا۔ اس لئے حضرت علیؓ ہوں یا حضرت حسن بصریؒ جواب ایک ہی ہوتا تھا۔

حضرت علی بن عثمان ہجویریؒ المعروف داتا گنج بخش نے ’’کشف المحجوب‘‘ میں لکھا ہے ’’حضرات تابعین رحم اللہ تعالیٰ علہیم میں تیسرے بزرگ جو اہلِ طریقت کے امام اور پیشوا ہیں وہ حضرت ابو علی حسن بصریؒ ہیں۔ اہلِ طریقت میں آپ کی قدر و منزلت بہت زیادہ ہے۔ حضرت حسن بصریؒ نیک صحبت اختیار کرنے اور بُرے لوگوں کی صحبت سے اجتناب پر بہت زور دیتے تھے اور فرماتے تھے کہ اگر انسان خود نیکی کا طلب گار ہو تو وہ نیکوں کی صحبت ضرور پا لے گا۔ ایک اعرابی کے پوچھنے پہ فرمایا صبر کی دو قسمیں ہیں۔ مصیبتوں اور آزمائشوں میں حق پہ ثابت قدم رہنا اور دوسرے جن باتوں سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے اُن سے باز رہنا۔ کالم کا دامن محدود ہے اس لئے مزید لکھنے سے عاری ہوں۔ اپنے اردگرد معاشرے پہ نگاہ ڈالیے، بُری صحبت کا ہر سُو پیدا کردہ فساد حضرت حسن بصریؒ کی نصیحت یاد دلائے گا۔