پنجاب حکومت ذخیرہ اندوزوں کے خلاف مہم چلائے گی

April 30, 2020

چین کے صوبہ ووہان سے شروع ہونے والے کورونا وائرس نے اب تقریباً کرہ ارض پر موجودہ تمام ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے پاکستان بھی دوسرے ممالک کی طرح اپنے عوام کو اس موذی مرض سے بچانے کے لئے ہر ممکن اقدامات کر رہا ہے مگر اس کے باوجود کئی اہم اپوزیشن جماعتیں رمضان المبارک کے بعد حکومت کو ٹف ٹائم دینے کے لئے نئی صف بندی اور جوڑ توڑ میں مصروف ہیں۔ چینی، آٹا اور آئی پی پیز کے بارے حکومت کے تشکیل کردہ کمیشن کی رپورٹ میں بڑے بڑے سیاسی خاندانوں، صنعتکاروں اور بیورو کریٹس کے نام منظر عام پر آنے سے ماضی میں حکومتیں بنانے اور گرانے کا ملکہ رکھنے والے با اثر گروپ سرگرم ہو گئے ہیں اور وہ حکومت اور اپوزیشن جماعتوں میں شامل کئی بااثر پارلیمنٹیرین کی درپردہ بھرپور حمایت حاصل کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں جس سے اسمبلی کے آئندہ اور بجٹ اجلاسوں کے دوران پارلیمانی ایوانوں میںبڑے بڑے سکینڈل کی بازگشت سنائی دے گی اور جواباً بڑے بڑے پردہ نشینوں کے نام ملک لوٹنے والوں کی فہرست میں شامل ہونے سے عوام دنگ رہ جائیں گے۔

وزیراعظم عمران خاں ایسے وقت میں جب کورونا وائرس کے عذاب اور لا علاج مرض نے معاشرے کو ہلا کر رکھ دیا ہے چینی آٹا اور بجلی پیدا کرنے والی پاور کمپنیوں کی کھربوں روپے کی لوٹ مار کی رپورٹیں جاری کرنا ’’آ بیل مجھے مار‘‘ کے مترادف ہے۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ کورونا وائرس نے ہماری ماضی کی حکومتوں کی نظام صحت کی ناکامیوں کی قلعی کھول دی ہے مگر حکومت کا کورونا وائرس سے اپوزیشن کے بغیر اکیلے لڑنا بھی کوئی دانشمندانہ فیصلہ نہیں ہے اس نازک دور میں ہر ملک میں حکومت اور اپوزیشن کورونا وائرس سے بچانے کے لئے اپنے سیاسی اختلافات بالائے طاق رکھ کر سرگرم عمل ہیں مگر ہمارے ملک میں صورت حال مختلف ہے اور کورونا وائرس کے موذی مرض کے خلاف متحد ہو کر لڑنے کی بجائے اس جان لیوا بیماری پر بھی سیاست چمکائی جا رہی ہے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ وفاق اور صوبوں میں بھی ایک دوسرے کی مخالف سیاسی حکومتیں ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں جس سے سندھ بالخصوص کراچی اور حیدرآباد میں کورونا وائرس کے تیزی سے پھیلنے کا خدشہ بڑھ گیا ہے اگر پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی دونوں حکمران جماعتوں کے اکابرین نے ہوش کے ناخن نہ لئے اور علما، تاجروں اور محنت کش طبقہ کو اپنے حق میں استعمال کرنے کی کوشش کی تو اس کے مستقبل میں بھیانک نتائج نکل سکتے ہیں۔ پنجاب میں شوگر اور آٹا سکینڈل کے بعد حکومت نے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف بڑے پیمانے پر سخت کارروائیاں شروع کر دی ہیں جس سے رمضان المبارک میں اشیاء کی قلت پیدا کر کے روزمرہ اور کھانے پینے کی اشیاء مہنگے داموں فروخت کرنے، ناجائز منافع کمانے والے ذخیرہ اندوزوں کی امیدوں پر پانی پھر گیا ہے۔ دوسری جانب حکومت نے جید علما کرام سے مشاورت کے بعد رمضان المبارک میں مساجد میں نماز اور تراویح کی اجازت اور لاک ڈائون سے متاثر تاجروں، کاروباری حضرات کے لئے خصوصی پیکیج اور احساس پروگرام کے تحت مستحقین اور غریب محنت کش لوگوں کو 12 ہزار روپے فی خاندان ریلیف دے کر کافی حد تک مسائل پر قابو پا لیا ہے جو حکومت کی بڑی کامیابی ہے لیکن کورونا وائرس کے پھیلائو سے لاک ڈائون میں مسلسل توسیع سے حکومتی اقدامات کے اثرات زائل بھی ہو سکتے ہیں اس لئے حکومت کو چاہئے کہ وہ کورونا وائرس کے پھیلائو کو روکنے کے لئے اپوزیشن جماعتوں کو ساتھ لے کر چلے اور ان کی قابل عمل تجاویز پر عمل کرے۔

اپوزیشن جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو کورونا وائرس کے عذاب سے نجات دلانے کے لئے سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر حکومت کے شانہ بشانہ کھڑی ہو اسی میں سب کی بھلائی ہے۔ کورونا وائرس کے باعث سیاسی جماعتوں کے سرکردہ قائدین کے حفاظتی اقدامات کے طور پر خود کو گھروں تک محدود کرنے سے براہ راست سیاسی ملاقاتوں میں کمی آئی ہے اور سیاسی ماحول ٹھنڈا ہوتا نظر آ رہا ہے لیکن حالات مختلف ہیں۔ اپوزیشن سیاسی جماعتوں کے ایک وسرے کے تحفظات کو دور کر کے ایک بار پھر گرینڈ اپوزیشن الائنس کی تشکیل کے لئے متعدد سیاسی جماعتوں کے درمیان درپردہ رابطے جاری ہیں اور ستمبر تک ملک میں سیاسی تبدیلی کے لئے میدان لگانے کی صف بندی ہو رہی ہے اس حوالے سے بڑی اپوزیشن جماعت کے سربراہ کو کہیں سے گرین سگنل کا انتظار ہے جس کے لئے بڑے بڑے جتن کئے جا رہے ہیں اس حوالے سے حکمران جماعت پی ٹی آئی اور اس کے اتحادی جماعتوں کے سرکردہ لوگ دونوں میں اعتماد بحال کرانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ پنجاب کے طاقتور ترین چیف سیکرٹری میجر (ر) اعظم سلیمان کی اچانک تبدیلی میں بھی ان بااثر شخصیات کا ہاتھ ہے۔ پنجاب اسمبلی کے آئندہ اجلاس میں صورت حال کھل کر سامنے آ جائے گی کہ کیا ہونے والا ہے۔

اپوزیشن جماعت مسلم لیگ (ن) نے پنجاب اسمبلی کا اجلاس بلانے کیلئےا سپیکر کو ریکوزیشن جمع کروا دی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ اسپیکر چودھری پرویز الٰہی اپوزیشن اراکین کی ریکوزیشن پر 14 روز کے اندر اجلاس بلاتے ہیں یا کورونا وائرس کا جواز بنا کر معاملے کو مؤخر کر دیتے ہیں اس کے علاوہ موجودہ صورت حال میں اب وزیراعظم عمران خاں پر منحصر ہے کہ وہ کورونا وائرس کے بعد ملک کی اقتصادی اور سیاسی صورت حال کا کیسے مقابلہ کرتے ہیں۔

انہوں نے چینی، بجلی اور آٹے کا بحران پیدا کر کے کھربوں روپے کا قومی سرمایہ لوٹنے والے بااثر ترین خاندانوں کے خلاف کارروائی کا چیلنج دے کر اپنے اور حکومت کے لئے مشکلات کھڑی کر لی ہیں اس سے کیسے نبردآزما ہوتے ہیں یہ وزیراعظم کے لئے کسی امتحان سے کم نہیں ہے مگر وہ ایک طریقے سے عوام کے دکھوں کا مداوا کر کے ہی ان پر قابو پا سکتے ہیں۔ گورنر پنجاب چودھری محمد سرور اور وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان خاں بزدار کورونا وائرس سے عوام کو بچاؤ کے ساتھ پنجاب کے عوام کی ترقی اور خوشحالی کے لئے دن رات کوشاں ہیں۔