قومی سیاسی جماعتیں بھی لاک ڈاؤن ہیں؟

May 03, 2020

آج اتوار ہے۔ میری خانۂ محصوری کا 45واں دن۔

میں اتوار بچوں کے ساتھ گزارنے کا کہا کرتا تھا۔ اب تو ہر دن ہی اتوار ہے۔ آپ ساتوں دن بچوں کے ساتھ گزارتے ہیں۔ عالمگیر وبا نے دن رات، اتوار، ویک اینڈ سب کا فرق مٹا دیا ہے۔ اس کے خوف میں یا اس سے نبرد آزمائی میں ہم اپنے بچوں کی معمول کی ویکسی نیشن بھول گئے ہیں۔ آپ بھی بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں والے ہیں۔ ذرا دیکھ لیں کہ خسرے اور دوسری بیماریوں کے جو ٹیکے لگنے ہیں وہ لگوا لیے ہیں یا نہیں۔ ہمارے ڈاکٹرز بھی سب مصروف ہیں۔ اگلے محاذ پر لڑ رہے ہیں۔ یہ سطریں پڑھتے ہی بیٹوں بیٹیوں سے پوچھ لیں۔ ہو سکے تو پڑوس میں بھی جائزہ لے لیں۔

پاکستان میں اگرچہ ایک بڑی لہر کا خدشہ ہے مگر یورپ میں جہاں بچھڑنے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہے وہاں بہار کے کچھ امکاں پیدا ہوئے ہیں۔ بنی نوع انسان نے صدیوں کی ریاضت اور فکر کے بعد جمہوریت میں اپنے درد کا درماں تلاش کیا۔ جمہوریت کا سب سے بڑا ستون قومی سیاسی جماعتیں ہوتی ہیں۔ جو ہر چار پانچ سال بعد آپ کے گھروں میں اپنے کارکنوں کے ذریعے پرچیاں بھیجتی ہیں کہ آپ کا ووٹ نمبر کیا ہے۔ اور پولنگ اسٹیشن کہاں ہے۔ انتخابی دنوں میں آپ کے در پر دستکیں ہوتی ہیں۔ امیدوار آپ سے ملنے بھی آتے ہیں۔ اب جب ہم سب گھروں میں بند ہیں۔ کورونا کے متاثرین کی بڑھتی ہوئی تعداد سے خوف زدہ ہیں۔ ایک بڑی اکثریت بےروزگار ہو چکی ہے۔ روزانہ اجرت پر گھر چلانے والے گھروں میں پریشان بیٹھے ہیں۔ جمہوریت کا تقاضا تو یہ تھا کہ ہماری قیادت کی دعویدار سیاسی جماعتیں اور سیاسی رہنما ہمارا درد بانٹنے آتے۔ چاہے چھ فٹ کے فاصلے پر کھڑے ہوتے یا آن لائن رابطہ کرتے۔ واٹس ایپ گروپ میں شامل ہو جاتے۔ ٹی وی چینلوں پر اپنے کارکنوں کے لیے ان کی ہدایات سننے میں آتیں۔ وہ اپنا نیٹ ورک تشکیل دیتے۔ مجھے تو ان 45دنوں میں نہ اپنے انتخابی حلقے میں کوئی ایم این اے، ایم پی اے نظر آیا، نہ کسی نے آن لائن میرا درد بانٹا۔ ساری قومی سیاسی پارٹیوں کی شاخیں ہیں، دفاتر ہیں، سیکرٹریٹ ہیں، میں نے تو کوئی اعلان پڑھا نہ سنا کہ لاک ڈائون کے دنوں میں کسی پارٹی کے سیکرٹریٹ یا دفاتر کب کھلیں گے، کب بند ہوں گے۔

میں تو پورے خلوص سے سمجھتا ہوں کہ خطرناک مہلک عالمی وبا کے دن ہی ہیں جن میں جمہوریت کو باقی رکھنے کیلئے قومی سیاسی جماعتوں کی فعالیت سب سے زیادہ ضروری ہے۔ یہ ملک گیر موقع ہے نوکر شاہی اور غیرسیاسی قوتوں کی سیاسی امور میں مداخلت ہمیشہ کیلئے روکنے کا۔ سیاسی رہنما، قومی سیاسی جماعتیں اپنے لوگوں کے دل جیت سکتی تھیں اور اب بھی موقع ہے۔

عجیب ستم ظریفی ہے کہ ایک سیاسی مذہبی جماعت ہر مشکل وقت کی طرح اب بھی سرگرم عمل ہے، وہ ہے جماعت اسلامی۔ اس کے عہدیدار کارکن خود بھی فعال ہیں اور جماعت بھی۔ کراچی کے ایک ایم پی اے اور اِن کے اہلِ خانہ کورونا سے متاثر بھی ہو گئے ہیں۔ جماعت اسلامی اب تک کروڑوں روپے کی امداد اور راشن بانٹ چکی ہے۔ مگر جب ووٹ دینے کا موسم آتا ہے تو خدمت کام نہیں آتی۔ غلبہ، مافیا، روابط کام آتے ہیں۔ اب کہا جارہا ہے کہ کورونا کے بعد جینے کے انداز بدل جائیں گے۔ سماجی تبدیلیاں آرہی ہیں۔ تو کیا یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ ہمارے معزز ووٹر ووٹ دیتے وقت خدمت کو پیش نظر رکھیں گے۔

ہمارے زیادہ تر ایم این اے، ایم پی اے، سینیٹر صاحبِ ثروت ہیں۔ اپنا موروثی بھی بہت کچھ ہے۔ ہر الیکشن کے بعد حکومت میں آنے سے بھی اثاثے بڑھ جاتے ہیں۔ وہ چاہیں تو اپنے اپنے حلقوں میں خود غریبوں، بےروزگاروں کو راشن اور امداد فراہم کر سکتے ہیں۔ وفاق، پنجاب اور کے پی میں حکمراں پارٹی بھی کہیں بطور پارٹی متحرک نظر نہیں آرہی ہے۔ حکومت ایکشن میں ہے۔ ساری مدد سرکاری خزانے سے کی جا رہی ہے۔ بڑے بڑے سرمایہ داروں، جاگیرداروں کی طرف سے ایسی کسی مہم کی خبر نہیں آرہی ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی 50سال سے زیادہ عمر کی ہے۔ پورے ملک میں اس کی جڑیں ہیں۔ حکومت اگرچہ صرف سندھ میں ہے۔ یہاں بھی وہ حکومت کی حیثیت سے نظر آرہی ہے۔ پارٹی کے سیکرٹریٹوں، دفاتر سے عوام سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔ برطانیہ سے تعلیم یافتہ، جواں سال، تازہ دم بلاول بھٹو زرداری، صرف ردّعمل کی سیاست کرتے ہیں۔ کوئی بڑی تجویز یا نیا آئیڈیا اس میڈیکل بحران میں ان کی طرف سے سامنے نہیں آیا۔ آصف علی زرداری سابق صدر مملکت ہیں۔ ان کی طرف سے کوئی بیان یا ذاتی طور پر کوئی عطیہ نہیں دیا گیا۔ پارٹی کارکنوں کے لیے کوئی ہدایت نہیں آئی۔ پاکستان مسلم لیگ(ن) کے صدر آخری پرواز سے واپس وطن آئے تو امید تھی کہ (ن)لیگ اس وبا کا مقابلہ کرتے اپنے ووٹر کی دامے، درمے، سخنے مدد کرے گی۔ پارٹی سطح سے کوئی امدادی سلسلے اپنے انتخابی حلقوں میں راشن، امداد کی کوششیں، پارٹی کے سپریم لیڈر میاں نواز شریف کی طرف سے ایک بیان بھی جاری نہیں کیا گیا۔ جمعیت علمائے اسلام کے بھی اپنے حلقے ہیں، اپنی مساجد ہیں، مدارس ہیں، دھرنے کے دنوں میں ان کی فورس بھی نظر آئی تھی، اب یہ سب کہاں ہیں۔ بلوچستان میں نوزائیدہ باپ (بلوچستان عوامی پارٹی) کی شفقت سے بلوچ پشتون محروم ہیں۔ سرداروں کے پاس بھی بےحساب وسائل ہیں۔ کچھ ان میں سے خرچ کریں۔ عوامی نیشنل پارٹی کی سرخ پوشی کی روایات ان علاقوں کے لوگوں کو یاد ہیں۔ اب کچھ ہورہا ہے تو معلوم نہیں۔ ایم کیو ایم کسی زمانے میں بہت سرگرم ہوتی تھی مگر اب اندرونی ٹوٹ پھوٹ میں مبتلا ہے۔ پھر بھی خدمتِ خلق فائونڈیشن سے کچھ سرگرمی نظر آئی مگر وہ پہلے والی بات نہیں۔

فلاحی تنظیمیں بہت سرگرم ہیں۔ ایدھی، چھیپا، سیلانی، اخوت، عالمگیر اور بہت سی۔ انہوں نے بہت سہارا دیا ہے۔ پوری دنیا کا سماجی ڈھانچہ، ملکوں کے باہمی تعلقات، مذہبی عقائد اقتصادی رشتے بدلنے والے ہیں۔ مرکزیت کو غلبہ حاصل ہوگا۔ صوبائی خود مختاری کمزور پڑنے والی ہے۔ قومی سیاسی جماعتوں کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ اپنی اپنی جماعت کی تنظیم مکمل کریں۔ نوشتۂ دیوار پڑھیں ورنہ، تمہاری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔