100 خاندان اور قوم کی قوت برداشت

March 30, 2013

اللہ بخشے ڈاکٹر محبوب الحق مرحوم نے فیلڈ مارشل کے دور میں انکشاف کیا کہ 22 خاندان قومی وسائل پر قابض ہیں اور امیر و غریب میں فرق بڑھ رہا ہے تو ملک میں سیاسی بھونچال آگیا۔ ایوب حکومت کے عدم استحکام میں اس بیان کا گہرا عمل دخل تھا مگر اب اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسانی وسائل نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ پاکستانی سیاست صرف 100 خاندانوں کی میراث ہے اور یہی 100 قومی وسائل پر بھی قابض ہیں جبکہ تعلیم اور صحت کے شعبے میں پاکستان پسماندہ افریقی ملک کانگو سے بھی کم خرچ کرتا ہے تو سب شانت ہیں  کہیں سے شور نہیں اٹھا اور 100 خاندانوں کی غلامی پر سب راضی۔
پاکستان کی دولت 22خاندانوں میں مرکوز تھی تو مشرقی اور مغربی حصوں پر مشتمل دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست صنعتی ترقی اور معاشی خوشحالی کی منزلیں تیزی سے طے کر رہی تھی ۔ امریکی ماہرین معاشیات حیران تھے کہ اتنی تیزرفتار ترقی امریکہ اور جرمنی میں نہیں ہوئی مگر اب پاکستان معاشی زوال اور علمی و سماجی پسماندگی میں کانگوسے بھی بدتر ہے اور یہ ابتری ان سو خاندانوں کی نالائقی  نااہلی  ندیدے پن  لوٹ کھسوٹ اور قومی وسائل بیرون ملک منتقل کرنے کا نتیجہ ہے جو دولت اور سیاست پر قابض ہیں اور تبدیلی کا ہر راستہ ”جمہوریت خطرے میں ہے“ کا نعرہ لگا کر روکے ہوئے ہیں اور کسی کو احساس تک نہیں۔
ان سو خاندانوں نے ایک نیوکلیئر ریاست کو اس قدر مجبور  بے بس اور قومی اداروں کو قوت فیصلہ سے محروم کر دیا ہے کہ یہاں کوئی آئین توڑے  حلف سے روگردانی کرے  پاکستان کے خلاف ہتھیار اٹھائے  ناکام ریاست قرار دے  لال مسجد کو جلیانوالہ باغ میں تبدیل کرے  اکبربگتی کے قتل کو قابل فخر کارنامہ قرار دے اور 63ججوں کو پابند سلاسل کرکے میڈیا کی نشریات بند کردے  کوئی پوچھنے والا نہیں۔ الٹا قومی جرائم کے مرتکب شخص جنرل (ر) پرویزمشرف کو وطن واپسی پر پروٹوکول ملتا ہے۔ سربراہ حکومت کے برابر سکیورٹی فراہم کی جاتی ہے اور چند روز پہلے تک آرٹیکل 6کی دہائی دینے والے  یتیم اور معصوم بچیوں کے قاتل سے حساب لینے اور منتخب وزیراعظم سے بدسلوکی کے مرتکب کو قانون کے کٹہرے میں لانے کے دعویداروں کی زبانیں گنگ ہیں  کوئی بہ وزن بولتا بھی ہے تو محض خانہ پری کے لئے وہ جوش وجذبہ  تندی و تیزی مفقود ہے جو ان رہنمایان ملت کا طرہ ٴ امتیاز ہے۔
اگر یہ قوم  قومی وسائل پر پلنے والے ادارے  ملک میں قانون کی حکمرانی کے دعویدار سیاستدانوں اور جرنیل  فوجی مداخلت پر ضیاء الحق کو آج تک معاف نہ کرنے والے دانشور اور قلمکار اور احتساب وتطہیر کے دعویدار الیکشن کمیشن اور آزاد عدلیہ ایک قومی مجرم کو قانون کے کٹہرے میں لانے سے قاصر ہیں اور قومی وسائل اس کی حفاظت کے لئے مختص کرنے پر خاموش ہیں تو بھلا جعلی ڈگری ہولڈرز  ٹیکس چور  بینک ڈیفالٹرز اور دوسرے جرائم پیشہ افراد کو انتخابی عمل سے باہر کون کرے گا اور شفاف انتخابات کی یقین دہانیوں پر اعتماد کس کو ہوگا ؟ 3نومبر کے سنگین جرم کو فراموش کرنے والے بھلا کسی دوسرے مجرم پر ہاتھ کیوں ڈالیں گے ؟ چھوٹے موٹے قانون شکن اپنے جرم کی بنا پر نہیں محض کمزور اور بے وسیلہ ہونے کی وجہ سے البتہ ضرور چھلنی سے گزارے جائیں گے کہ ان کا کوئی طاقت ور سرپرست نہیں اور سادہ لوح عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے یہ ضروری بھی ہے۔
ظاہر ہے کہ پرویزمشرف کوڈھیل اپنے غیرملکی سرپرستوں کی وجہ سے ملی ہے۔ ہیومن ڈویلپمنٹ میں کانگو سے بھی نیچے رہ جانے والی ریاست امریکہ  برطانیہ  سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو ناراض نہیں کرسکتی جنہیں عہدہ و اقتدار تحفظ اور پناہ ان دوستوں کے طفیل ملے وہ بھلا کس منہ سے کسی کی فرمائش ٹال سکتے ہیں۔ کس میں یہ حوصلہ ہے کہ کہہ سکے ”حضور ! آپ اپنے ہاں تو ٹریفک کے اشارے کی خلاف ورزی پر معاف نہیں کرتے  دوران سروس معاشقے پر ڈیوڈ پیٹریاس جیسے طاقتور جرنیل کو گھر کی راہ دکھاتے ہیں  سعودی عرب میں تو پرویزمشرف ٹائپ لوگوں کی شبانہ سرگرمیاں افشا ہوں تو درے لگتے ہیں مگر پاکستان کو ان کے سات خون معاف کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ آخر یہ دوہرا معیار کس لئے ؟“۔ مگر منہ کھائے  آنکھ شرمائے یہ کہنے کی مجال کس کو ہے؟
صرف غیرملکی دباؤ میں نہیں پانچ سالہ منتخب جمہوری دور کی ناکامی  غریب دشمنی اور قرض چوری  ٹیکس چوری نے بھی ریاست کو کمزور کیا ہے۔ 100 خاندانوں کو مضبوط  طاقتور اور منہ زور  دیدہ دلیر بنانے میں اس جمہوری دور کا بہت بڑا حصہ ہے۔ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کا تناسب 30 فیصد سے 49 فیصد تک اسی دور میں پہنچا اور قومی مجرم کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کرنے کی صلاحیت سے عاری بھی اسی معاشی زوال اور لاقانونیت کے فروغ کا نتیجہ ہے۔
معمولی قانون شکن جیلوں میں پڑے ہیں اور ان کے خاندان غربت و افلاس  فقروفاقہ کی زندگی بسر کر رہے ہیں مگر لال مسجد میں فاسفورس بم گرانے کی وجہ سے دہشت گردی کی فصل کاشت کرنے اور اکبربگتی کے قتل کے ذریعے بلوچستان کو علیحدگی پسندوں  تخریب کاروں کی آماجگاہ بنانے والا قومی مجرم سکیورٹی حصار میں بیٹھا قوم کے سینے پر مونگ دل رہا ہے۔ سب اداروں کی قلعی کھول رہا ہے۔
ہم عجب لوگ ہیں اختلاف رائے برداشت نہیں کرتے  مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں۔ ظلم اور زیادتی ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرلیتے ہیں۔ 100 خاندان راتوں رات سیاست و حکومت کے ایوانوں اور قومی وسائل پر قابض نہیں ہوتے۔ ہمیں غلام بنانے میں کامیاب نہیں ہوتے۔ انہیں سیاست و حکومت کے دائرے سے خارج کئے بغیر ظلم و زیادتی  غربت و پسماندگی کا یہ نظام ختم نہیں ہوسکتا مگر ہم انہیں بخوشی برداشت کر رہے ہیں بلکہ انہیں ایک بار پھر اقتدار پر قبضے کا موقع فراہم کرنے کے لئے بے چین ہیں۔ یہ حوصلہ مند قوم داد کی مستحق ہے۔