موت کی پلاننگ

March 31, 2013

اللہ بخشے چوہدری صاحب نے زندگی میں بڑی دیر سے ترقی کی۔شروع کے کئی سال وہ بس یونہی دھکے کھاتے رہے ،کبھی کریانہ کی دکان کھولی تو کبھی ٹھیکیداری شروع کر دی، کبھی گاڑیوں کے شو روم میں بیٹھے توکبھی کوئی چھوٹا موٹا ریستوران چلا لیا ،قسمت نے مگر یاوری نہ کی ۔آخر کئی برس مختلف تجربات حاصل کرنے کے بعد انہوں نے سادہ قسم کی ”ٹریڈنگ“ شروع کی اور با لآخر کامیاب رہے ۔ایک جگہ سے مال خرید کر دوسری جگہ بیچنے سے زیادہ آسان کام شاید دنیا میں اور کوئی نہیں ، صبر سے کام لیا اور اسی لئے میٹھا پھل بھی کھانے کو ملا۔شادی بھی اسی زمانے میں ایک نیک بخت سے کی اور ماشااللہ چار لڑکیاں اورایک لڑکا پیدا کرنے میں کامیاب رہے۔ بیوی سادہ لوح سی تھی، کاروباری معاملات سے واقف نہیں تھی ،چوہدری صاحب اسے مہینے کا خرچہ تھما دیتے جسے وہ نہایت خوش اسلوبی سے چلاتی ۔اسے بس اتنا پتہ تھا کہ اس کے خاوند پر خدا کا فضل ہے اور روپے پیسے کی کوئی تنگی نہیں ہے ۔لڑکا ابھی چھوٹا تھا جبکہ لڑکیا ں پڑھ لکھ رہی تھیں ،محلے میں عزت تھی ،چوہدری صاحب کے” وسیع “کاروبار اور لگن کی لوگ مثالیں دیتے تھے ۔پھر ایک دن خدا کا کرنا یہ ہوا کہ چوہدری صاحب فوت ہو گئے۔ساہیوال کی ایک پارٹی سے رقم کی وصولی کرکے لاہور واپس آرہے تھے کہ راستے میں گاڑی کا حادثہ ہو گیا ،موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے ،لوگوں نے بڑی مشکل سے ان کا شناختی کارڈ وغیرہ دیکھ کر گھر اطلاع کی ،آن کی آن میں وہاں صف ماتم بچھ گئی ۔ان کا بچہ باہر گلی میں کھیل رہا تھا جب اسے لوگوں نے بتایا کہ بیٹا تمہارا باپ مر چکا ہے… چوہدری صاحب کا جنازہ بعد میں پڑھتے ہیں ،پہلے ذرا ایک اور صاحب کی خبر لے لیں ۔بھٹی صاحب ۔آپ ایک پرائیویٹ فرم میں منیجر کے عہدے پر فائز تھے ،عمر پچاس کے لگ بھگ ،بظاہر چاق و چوبند ،ایک عدد بیوی اور دو بیٹیاں ،تنخواہ معقول، زندگی ٹھیک ٹھاک ۔لڑکیاں کالج میں پڑھ رہی تھیں، بیوی گھر کا کام دیکھتی تھی ،سال میں ایک آدھ مرتبہ یہ لوگ کاغان نارا ن کی سیربھی کر آتے ، بچیاں جو معقول فرمائش کرتیں وہ پوری ہوتی،بیوی کو بھی کوئی تنگی نہ تھی، ایک مڈل کلاس فیملی،ایک ہنستا بستا خاندان۔پھر ایک دن اچانک بھٹی صاحب کو دل کا دورہ پڑ گیا،آپ کو ہسپتال لے جایا گیا مگر جانبر نہ ہو سکے ۔مر گئے ۔بیوی سکتے میں آ گئی اور بچیوں کی رو رو کر آنکھیں سوج گئیں۔بھٹی صاحب کا جنازہ بھی بعد میں پڑھتے ہیں، صرف ایک صاحب کا بیان اور ہو جائے ۔
ملک صاحب نے خاصی رنگین زندگی گذاری۔ ایک شادی خاندان کی مرضی سے کی اور دوسری چھپ کر اپنی مرضی سے ۔باپ کے ترکے سے انہیں ایک آبائی مکان ملا تھا جو شہر کے بیچوں بیچ واقع تھا ،اسے بیچ کر انہیں نے شہر کے مختلف علاقوں میں چھوٹے چھوٹے مکان خریدے اور انہیں کرائے پر چڑھا دیا۔ مہینے بھر میں اتنا کرایہ اکٹھا ہو جاتا کہ انہیں کبھی کچھ اور کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔جو کرایہ بچ جاتا اس کے سیونگ سرٹیفیکیٹس خرید لیتے اور ہر سال بعد ان کی مالیت بڑھتی دیکھ کر خوش ہوتے رہتے ۔دونوں بیویوں کو البتہ یہی بتایا کہ شہر میں صرف ان کے دو مکان ہیں جن کی کرائے کی آمدن ہے ،باقی مکانوں اور سرٹیفیکیٹس کی تفصیل سے دونوں کو لا علم رکھا۔پہلی بیوی میں سے کوئی اولاد نہیں ہوئی جبکہ دوسری سے ایک بیٹا اور ایک بیٹی پیدا ہوئے ۔ایک دن سیونگ سرٹیفیکیٹس کا منافع وصول کر کے بنک سے نکل رہے تھے کہ اچانک دو موٹر سائیکل سواروں نے راستے میں پستول کے زورپر روک لیا اور پیسے چھین لئے ،آپ نے مزاحمت کی کوشش کی جس کے جواب میں دو گولیاں ان کے سینے میں اتر گئیں ۔ڈاکوفرار ہو گئے اور ملک صاحب فوت ہوگئے۔اس سارے واقعے میں زیادہ سے زیادہ ایک منٹ لگا۔دونوں بیویوں کے گھر باری باری اطلاع دے دی گئی۔حسب توفیق دونوں جگہ ماتم ہوا۔
یہ تینوں اموات ایک ہی دن میں ہوئیں۔ تینوں کے جنازے ایک ہی وقت میں اٹھائے گئے اور پھر جیسا کہ ہوتاہے ، مرنے والے کے لواحقین دفنانے سے قبل لوگوں سے پوچھتے ہیں کہ صاحب اگر ہمارے عزیز نے مرنے سے پہلے کسی کے پیسے دینے تھے تو بتا دے ،ہم دین دار ہیں۔ جواب میں اس موقع پر تو خاموشی ہی رہتی ہے البتہ بعد میں کون کون شخص اپنا بہی کھاتہ لے کر مرحوم کے بچوں کے پاس پہنچتا ہے ۔ان تینوں کیسز میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔چوہدری صاحب ،بھٹی صاحب اور ملک صاحب کے پسماندگان کو علم ہی نہیں تھا کہ مرنے والے نے کس سے پیسے لینے تھے اور کس کے دینے تھے ،ان کے بنک اکاؤنٹس کہاں کہاں تھے، انہوں نے کون سے سرمایہ کاری کر رکھی تھی ،پلاٹ کے کاغذ کس کے پاس رکھے تھے یا پھر کچھ تھا بھی یا نہیں ؟بیویوں کو بس ہوائی باتیں معلوم تھیں کہ ان کے خاوند نے فلاں دوست کے ساتھ مل کر کوئی سرمایہ کاری کر رکھی ہے یا فلاں شخص کے ساتھ کاروبار ی رفاقت ہے یا زیادہ سے زیادہ یہ کہ فلاں بزنس میں ہمارے اتنے پیسے لگے ہیں، بس اس سے زیادہ اور کچھ نہیں ۔کوئی لکھت پڑھت اور نہ کوئی بہی کھاتہ جو شوہر نے بیوی کے ساتھ شیئر کیا ہو، بچوں کی تو بات ہی جانے دیں ۔ایسی صورت میں لوگ یہ تو کہتے کہ مرنے والے نے ہمارے اتنے پیسے دینے تھے جو ہم نے خدا کی راہ میں چھوڑ دئیے مگر یہ کوئی نہیں مانتا کہ اس نے مرحوم کی کتنی رقم چکانی تھی!وہ تما م دوست احباب جن کے ساتھ کاروبار ہوتا ہے ،سرمایہ کاری کی جاتی ہے ،جینے مرنے کی قسمیں کھائی جاتی ہیں ،دوسرے کے بچوں کو اپنے بچوں سے بڑھ کر پیار کیا جاتا ہے ،ایک لمحے کے اندر اس سفاک دنیا کی خود غرضی کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں ۔وہ بیٹیاں جو پہلے لاڈ دکھا کر باپ سے فرمائش کرتی تھیں اب تین ہزار روپے ماہانہ پر ایک ایسے اسکول میں پڑھانے پر مجبور ہیں جہاں ایک دن چھٹی کرنے پر سو روپیہ تنخواہ سے کاٹ لیا جاتا ہے ۔اس سارے المیے میں بے رحم معاشرہ تو قصور وار ہے ہی پر مرنے والا کا بھی قصور کم نہیں ۔ہمارے ہاں موت کی پلاننگ کا کوئی تصور نہیں ۔کوئی بھی شخص کم از کم ناگہانی موت نہیں مرنا چاہتا اور شاید اسی لئے وہ کبھی ضرورت محسوس نہیں کرتا کہ وہ اپنی موت کی کوئی پلاننگ کر رکھے ۔جن لوگوں کی زندگیاں کسی ایک شخص کے ساتھ جڑی ہوتی ہیں اگر وہ شخص ہی دنیا میں نہ رہے تو پھرزندگی کو جنت سے جہنم بنتے ایک سیکنڈ لگتا ہے۔ سو،اگر کسی کو اپنے بچوں سے پیار ہو تو اسے چاہئے کہ وہ زندگی کی ہی نہیں بلکہ موت کی پلاننگ بھی کر رکھے ۔ہر مرنے والا لکھ پتی یا کروڑ پتی نہیں ہوتا لیکن ”پتی“ ضرور ہوتا ہے لہٰذا ایک ذمہ دار شوہر کی حیثیت سے اس کا فرض ہے کہ اپنے تھوڑے بہت جو بھی اثاثے ہوں، ان کی تفصیل اپنے بیوی بچوں کے ساتھ شیئر کرے تاکہ مرنے کے بعد وہ دوسروں کا منہ تکتے نہ پھریں اوربھٹی صاحب جیسے لوگ، جن کی آمدن ان کی زندگی میں تو معقو ل ہوتی ہے لیکن مرنے کے بعد کمپنی سب سے پہلے ان کی گاڑی واپس لیتی ہے ،انہیں چاہئے کہ اس معقول آمدن میں سے کوئی ایسی انویسٹمنٹ کر جائیں کہ مرنے کے بعد ان کی معصوم بچیوں ایک باعزت زندگی گذارنے کے قابل ہو سکیں نہ کہ مردوں کے اس معاشرے کے رحم و کرم پر رہیں!