اُردو اور انگریزی کی دو عظیم لغات کا تذکرہ

May 06, 2020

سیمویل جانسن کی مرتبہ ’’اے ڈکشنری اوف دی انگلش لینگویج ‘‘کو انگریزی زبان کی اہم لغات میں شمار کیا جاتا ہے۔ انھوں نے تن ِ تنہا نو برسوں کی محنت ِ شاقہ کے بعد دو جلدوں پر مبنی یہ لغت مرتب کی۔ اس کا پہلا ایڈیشن ۱۷۵۵ء میں شائع ہوا ۔ اس میں انھوں نے الفاظ کی تشریح کرتے ہوئے کہیں کہیں اپنی حسِ مزاح کا بھرپور مظاہر ہ کیاہے ۔ مثلاً اپنی لغت میں ’’لغت نویس ‘‘کی تشریح کچھ یوں کی: ’’لغت لکھنے والا، بھاڑے کا ایک بے ضرر ٹٹُّو‘‘۔

ظاہر ہے کہ وہ خود اپنی حالت ِ زار پر تبصرہ کررہے تھے کہ مشکل وقت میں کسی نے اُن کا ساتھ نہیں دیا لیکن جب لغت تیار ہوگئی تو بہت سے لوگ اُن کا ’’سرپرست‘‘ بننے کوتیار ہوگئے۔ انھوں نے اپنی لغت میں لفظ ’’سرپرست‘‘ کی بھی دل چسپ تشریح کی ہے جو یہ ہے :’’ایک گھٹیا آدمی جو خوشامد کا معاوضہ بدتمیزی کی شکل میں دیتا ہے‘‘۔بظاہر تو لگتا ہے کہ سیمویل جانسن ایک دل جلا تھا لیکن یہ تشریحات بہرحال کچھ نہ کچھ سچائی لیے ہوئے ضرور ہیں۔

اوکسفرڈ کی بڑی لغت کی اشاعت سے پہلے سیمویل جانسن کی لغت کو انگریزی زبان میں مستند ترین لغت کہا جاتا تھا کیونکہ اس میں الفاظ کے استعمال کی سند بھی مثالیہ اقتباسات سے دی گئی ہے۔اوکسفرڈ کی بڑی لغت کا پورا نام ’’اوکسفرڈ انگلش ڈکشنری ‘‘ ہے اور بیس جِلدوں پر مشتمل اس لغت کو انگریزی زبان کی ضخیم ترین لغت ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔یہ دنیاے لغت نویسی میں ایک عظیم کارنامہ سمجھی جاتی ہے۔ پہلے ایڈیشن کی دس جلدیں تھیں جن کی تجلید بارہ جلدں میں کی گئی ۔ اس کی اشاعت کا آغاز ۱۸۸۴ء میں ہوا اور یہ کام ۱۹۲۸ء میں مکمل ہوا ۔گویا اس میں بظاہر چوالیس سال لگے ۔ لیکن درحقیقت اوکسفرڈ کی اس بڑی لغت پر کام کا آغاز ۱۸۶۰ء میں ہوگیا تھا جب اس لغت کی تیاری کے اصول اور رہ نما خطوط مرتب کیے گئے۔طے کیا گیا تھا کہ اس میں انگریزی زبان کا ہر لفظ ہوگااور ہر لفظ کی سند انگریزی کے بڑے ادیبوں اور شاعروں کی تحریروں سے دی جائے گی۔نیزاس میں ہر لفظ کے مختلف زمانوں میں بدلتے ہوئے مفاہیم کی بھی وضاحت اسناد کی مدد سے کی جائے گی۔ یہ مشکل ترین کام ہوتو گیا لیکن اس میں اڑسٹھ برس لگ گئے۔ اڑسٹھ برس کہنا تو بڑا آسان ہے لیکن کوئی کرکے دیکھے کہ اڑسٹھ برس تک مسلسل کسی کام میں لگے رہنا ، جس کی فوری تکمیل کے کوئی آثار بھی نہ ہوں، کتنا مشکل ہے۔ سائمن ونچسٹر نے اس لغت کی دل چسپ تاریخ پر پوری ایک کتاب لکھی ہے ۔ اس کے مطابق اوکسفرڈ کی اس عظیم لغت کا دوسرا اضافہ شدہ ایڈیشن ۱۹۸۹ء میں شائع ہوا جس کی بیس جلدیں ہیں ۔ اس کے کُل صفحات کی تعداد اکیس ہزارسات سو اٹھائیس ہے اور اس میں چھے لاکھ سولہ ہزار سے زیادہ اندراجات ہیں (درست املا ’’چھ ‘‘نہیں ’’چھے ‘‘ہے) ۔

اوکسفرڈ کی بڑی لغت جیسی بسیط و عظیم لغات دنیا کی کم زبانوں میں ہیں۔اطالوی ، جرمن اور فرانسیسی زبانوں میں ایسی ضخیم اور کثیر جِلدی لغات موجود ہیں۔ عربی کی معروف و مستند لغات میں صحاح، لسان العرب اور القاموس وغیرہ شامل ہیں۔ فارسی کی ضخیم اور کثیر جِلدی لغات میں فرہنگ ِ آنند راج ، دہخدا اور بعض دیگر لغات کا نام نمایاںہے۔

اوکسفرڈ کی بڑی لغت کے نمونے پر اردو میں بھی ایک ایسی بسیط لغت مرتب کرنے کے منصوبہ بنایا گیا جس میں اردو زبان کا ہر لفظ ہو۔ اس کام کا آغاز ۱۹۵۸ء میں ہوا جب اس مقصد کے لیے حکومت ِ پاکستان نے ایک ادارہ ترقی ٔ اردو بورڈ کے نام سے قائم کیا۔ بعدازاں اس کا نام اردو لغت بورڈ کردیا گیا۔ بورڈ کی لغت اردو کی ضخیم ترین اورمستند ترین لغت ہے۔ اس کی بائیس جِلدیں ہیں جن میں ادبی مآخِذ سے الفاظ کے استعمال کی سندیں بھی دی گئی ہیں۔ایک محتاط اندازہ ہے کہ بورڈ کی اردو لغت کے اندراجات کی تعداد دو لاکھ کے لگ بھگ ہوگی۔ اوکسفرڈکی بڑی لغت کے مقابلے میں جس کی تیاری میں اڑسٹھ سال لگے تھے اردو لغت کا یہ کام باون برسوںمیں مکمل ہوگیااور اس پر اردو لغت بورڈ کے عملے کی جتنی تحسین کی جائے کم ہے۔

باباے اردو مولوی عبدالحق بورڈ کی لغت کے پہلے مدیر ِ اعلیٰ تھے اور عبدالحفیظ کاردار (ہمارے مشہور کرکٹر)بورڈ کے پہلے معتمد (یعنی سکیرٹری)۔ بورڈ کے پہلے صدر ممتاز حسن تھے اور شائستہ اکرام اللہ نائب صدر۔جوش ملیح آبادی کو بورڈ میں ادبی مشیر کے طور پر مقررکیا گیا۔عِترت حسین زبیری، ڈاکٹر شہید اللہ، رازق الخیری، سید عبداللہ ، ابواللیث صدیقی، شان الحق حقی اور حسام الدین راشدی بورڈ کے ارکان تھے۔ شان الحق حقی کو ۱۹۵۹ء میں بورڈ کا معتمد مقرر کیا گیا۔ بابائے اردو اس وقت خاصے ضعیف ہوچکے تھے اور ۱۹۶۱ء میں ان کا انتقال ہوگیا۔ جس کے بعد معتمد کے علاوہ مدیر اعلیٰ کی ذمے داری بھی عملاًشان الحق حقی نے اعزازی طور پر سترہ سال تک ادا کی۔ حقی صاحب نے ارکان کے مشورے سے اس لغت کے بنیادی اصول اور رہنما خطوط بھی طے کیے جن پر ابتدائی کام بابائے اردو کرچکے تھے۔ بورڈ نے حقی صاحب کی ادارت میں ایک رسالہ ’’اردو نامہ ‘‘ جاری کیا جس میں زبان ، لغت اور لسانیات پر اہم اور مستند مضامین شائع ہوتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ اردو زبان کی تاریخ میں زبان ، لسانیات اور لغت کے موضوع پر ’’اردو نامہ ‘‘سے زیادہ وقیع اور معتبر رسالہ اور کوئی شائع نہیں ہوا۔اس کے چون(۵۴) شمارے شائع ہوئے۔

’’اُردو نامہ‘‘ میں بورڈ کی لغت کے نمونے کے صفحات شائع ہوتے تھے جن پر پاکستان اور ہندوستان کے چوٹی کے اہلِ قلم اور اہلِ علم اپنی رائے دیتے تھے اور ان آرا کی روشنی میں لغت کو بہتر بنانے کے لیے اس میں ترمیم واضافہ کیا جاتا تھا۔ حقی صاحب کا خیال تھا کہ پہلے لغت کی تمام جلدیں مکمل ہوجائیں پھر اس کی طباعت کا آغاز کیا جائے۔ لیکن اس کام میں ظاہر ہے کہ بہت وقت لگ رہا تھا۔ جب انگلستان جیسے ملک میں ایسی بسیط لغت کی مکمل تیاری میں اڑسٹھ برس لگ گئے تو ہمارے ملک کے کم وسائل کے پیشِ نظر یقینی طور پر زیادہ وقت لگتا ۔لیکن شائقین کا اشتیاق اور حکومت کی بے صبری بڑھتی گئی کیونکہ ہر سال بورڈ کے لیے رقومات کی فراہمی حکومت کی ذمے داری تھی اور کسی عملی نتیجے (یعنی کسی جِلد کی اشاعت )کے بغیر رقم کی فراہمی جاری رکھنا سرکاری نظام میں مشکل ہوتا ہے ۔آخر ِ کار طے ہوا کہ پہلی جلد کی طباعت کا آغاز کردیا جائے۔ حقی صاحب نے پہلی جلد کا حتمی مسودہ تیار کرلیا تھا ۔آگے کی جلدوں کا بھی خاصاحصہ تیار تھا ۔لیکن حقی صاحب نے اختلافات کی بنا پر ۱۹۷۶ء میں بورڈ سے استعفا دے دیا (درست املا استعفا ہے ، نا کہ استعفیٰ) ۔

شان الحق حقی کے بعد حکومت نے ڈاکٹر ابواللیث صدیقی کو اردو لغت بورڈ کا مدیر اعلیٰ مقرر کیا اور انھوں نے نہ صرف ۱۹۷۷ء میں پہلی جلد شائع کردی بلکہ اُن کی ادارت میں اگلی پانچ جلدیں بھی ۱۹۸۴ء تک منظرِ عام پر آ گئیں ۔ ان کے بعد ڈاکٹر فرمان فتح پوری مدیر اعلیٰ بنائے گئے اور انھوں نے لغت پر کام بہت تیز کردیا اور اگلے دس گیارہ برسوں میں لغت کی دس جلدیں شائع کردیں۔ اس طرح ۱۹۹۵ء تک اردو لغت بورڈ کی لغت کی سولہ جلدیں شائع ہوچکی تھیں۔ بعد میں وقفے وقفے سے اس کی جلدیں شائع ہوتی رہیں اور مختلف مدیرانِ اعلی نے اس پر کام کیا لیکن شان الحق حقی، ابواللیث صدیقی اور فرمان فتح پوری نے اس کی تدوین و اشاعت میں اہم ترین کردار ادا کیا۔اگر اسے خود ستائی پر محمول نہ کیا جائے تو یہ عرض کرنے کی جسارت کروں کہ یہ عاجز طالب علم بھی اردو لغت بورڈ کا چار سال مدیر اعلیٰ رہا اور اس کی ادارت میں تین جِلدیں شائع ہوئیں ۔

قصہ مختصر،اردو کی اس ضخیم ترین لغت کی آخری اور بائیسویں جلد ۲۰۱۰ء میں منظر ِ عام پر آئی۔اس طرح اردو لغت نویسی کا یہ عظیم کام مکمل ہوا۔ باون سال کی محنت ٹھکانے لگی ۔اردو کی ایک ضخیم اورپانچ جِلدوں پر مبنی لغت پر ہندوستان میںبھی کام شروع ہوا تھا لیکن وہ منصوبہ نامکمل رہا اور اس کی ایک بھی جلد شائع نہ ہوسکی ۔ اس طرح اردو کی ضخیم ترین لغت کی تدوین و اشاعت کا اعزاز پاکستان کو حاصل ہوا۔

لیکن اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اس لغت کا دوسرا ترمیم شدہ اور اضافہ شدہ ایڈیشن شائع کیا جائے کیونکہ لغت کا کام کبھی مکمل نہیں ہوتا۔ زبان بدلتی رہتی ہے، الفاظ معنی بدلتے ہیں، زبان میں نئے الفاظ شامل ہوتے ہیں اور اس طرح ایک نئی اور تازہ تر لغت کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے۔ کہتے ہیں کہ دس بیس برس کے بعد لغت پرانی ہوجاتی ہے اور پچاس ساٹھ سال کے بعد ازکار رفتہ۔ اسی لیے انگریزی لغات کے نئے اور اضافہ شدہ ایڈیشن آتے رہتے ہیں۔ اُمید ہے کہ حکومت ِ پاکستان اُردو کی اس عظیم لغت کے نئے ایڈیشن کی تیاری پر غور کرے گی۔