مِن جانب ’’کورونا‘‘

May 17, 2020

قیصرعباس صابر

جب رات گئے سنّاٹا چیختے ہوئے آہ و زاری کرتا تھا ، شہر بھر کی بتیاں بھی بُجھ گئی تھیں ۔ ہم خود سے نظریں چُراتے ،اپنی کم ہمّتی چھپاتے ، آسمان پر ٹمٹماتے ستاروں کو گھورتےتھے، جو روزِ اوّل سے انسان کے خدا بننے کی ناکام کوشش کے سفر کی جیتی جاگتی گواہی تھے۔وہ فرعون،نمرود،شمر،ہلاکو خان اور ہٹلر کا انجام دیکھ چُکے ہیں۔ ہم ان ستاروں کی غیر مبہم چکا چوند میں گم تھے کہ اس سے پہلے کبھی ایسے چمک دار ستارے نہیں دیکھے تھے وہ ہمیشہ انسان کی پیدا شدہ آلودگی میں دھندلائے رہتے تھے۔

جب رات کا سنّاٹا قہقہے لگاتا، عین اُسی وقت ہمارے سامنے ایک بے شکل سے سائے کی صُورت نمودارہوتا محسوس ہوا، تو ہم تو پہلے ہی ڈرے تھے ، اُسے دیکھ کر مزید سہم گئےبمشکل اتنا ہی پوچھ سکے کہ’’کون ہو تم؟‘‘’’ مَیں ایک وائرس ہوں، جسے میری مرضی کے برخلاف ’’کورونا‘‘ کا نام دیا گیاہے۔‘‘دل کی دھڑکنیں مزیدتیز ہوگئیں۔ ’’ڈرو نہیں، اگر تم خود میرے قریب نہیں آؤ گے، تو میں بھی تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکوں گا۔‘‘ہمیںاس کی بات پر یقین سا آنے لگا، تو دُور ہی سے چند سوال داغ دئیے۔

اس نے کہا ’’ خیال رکھنا کوئی جاہلانہ سوال نہ ہو کہ مَیں جدید دور کے تمام ترعلوم سے واقف ہوں اور تمہاری ایجادات کو ٹھوکر مارتا قطب شمال سے قطب جنوب تک پہنچا ہوں۔‘‘ ہم تو جیسے اس قدر عالم فاضل وائرس کی باتوں کے رعب تلے دب سے گئےتھے۔’’ تم ایک وائرس ہو، جیتا جاگتا وائرس، تمہارا مقصد کیا ہے ؟تم نے انسان کے قدموں میں وہ زنجیر ڈال دی ،جو مطلق العنان بادشاہ اور انسانی کھوپڑیوں کے میناروں پر بیٹھ کروقت کی تقدیر لکھنے والے حکمران نہ کر سکے۔تم تو بلا مقابلہ اپنے حریفوں کو چِت کرتے جارہے ہو؟ ‘‘’’سنو! جب انسانی تکبّر کا غبارہ بہت اونچا اُڑنے لگتا ہے تو اسے حقیقت سے رُوشناس کروانے کےلیےاللہ پاک ہم جیسے انتہائی معمولی وائرس سے بھی کام لے لیتا ہے۔تاکہ انسان کو اس کی اوقات یاد دلائی جاسکے۔‘‘

کورونا کی باتوں نے ہمارے اوپر چڑھی خوف کی چادر اُتار پھینکی…وہ بولتا چلا گیا ’’مجھے بھی انسانی جانیں لینے اور آباد شہروں کو ویران کرنے کا دُکھ ہے، مگر مَیںنظامِ عدل ، معیشت، شہریت، طِب،سائنس اور انسانیت کی بنیاد ڈالے بغیر نہیں جاؤں گا۔‘‘ اس نے ہمیں کچھ بولنے کا موقع ہی نہیں دیا۔ ’’تمہارے اہداف کیا ہیں؟ ‘‘ ہم نے بے خطر پوچھا۔’’دیکھو اے خبطی انسان!میرے لیے سب انسان برابر ہیں، سرحدوں کی بھی کوئی قید نہیں،میرے سامنے جو کچھ ہوتا رہا، مَیں دیکھتا رہا اور اپنے منصوبے ترتیب دیتا رہا ،مَیںنے تم جیسے بے بس آدمی کو خود کو خدا بننے کی ناکام کوشش کرتے دیکھا،بارود سے اپنے ہم نسلوں کو ختم کرنے کے سارے فتنے میرے سامنے ایجاد ہوئے۔ فرعون کی حنوط شدہ لاش بھی تمہیں سبق نہ دے سکی،نمرود کی ناک میں گھسنے والا مچھر بھی تمہارے لیے صرف ایک کہانی کا کردار ہے۔

دنیا کے طاقت وَر ترین ممالک نے ترقّی پذیر قوموں کو جومفادات کا ایندھن بنا ئےرکھا، اسرائیل نے فلسطین میں ،بھارت نے کشمیر میں ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے، خون کی ہولی کھیلی ، وہ سب کیسے فراموش کیا جا سکتا ہے؟؟شامی بچّوں کے خون آلود معصوم چہرے سونے نہیں دیتے تھے، فلسطین کی عورتوں کی بے بسی حوصلہ دیتی تھی کہ مَیں ایک دن اللہ کے حکم سےسائنس اور ٹیکنالوجی کا سارا غرور خاک میں ملا دوںگا،ہر وہ شئے نیست و نابود کر دوں گا، جو انسان کو خدا ہونے کا احساس دلاتی ہے۔‘‘اور تم… تم تو امن و سلامتی کے دین پر چلنے والے ہو ، تم بتاؤ کہ تم لوگوں نے کیا کچھ نہیں کیا، حد تو یہ ہے کہ مجھے بھی فرقوں میںبانٹ رہے ہو؟کوئی مجھے زائرین سے منسوب کر رہاہے ، توکوئی تبلیغی جماعت سے۔

واہ رے مسلمان! تمہارے کیا کہنے۔میرے نام پر لوٹ مار اور ذخیرہ اندوزی کررہے ہو،پھر بے وقت اذانیں دے کر سمجھتے ہو کہ میری صُورت آنے والا عذاب تم سے ٹل جائے گا… ارے،تم لوگوں نے تو اسلام کے نام پر اسکول میں پڑھتے بچّوں کو نہیں بخشا،پھر کس منہ سے وائرس سے بچنے کےلیے اذانیں دیتے ہو؟سنو!’’گھبرانا نہیں‘‘،مَیں صرف آلودگی کے خاتمے اور دولت کی مساوی تقسیم کےلیے کوشاں ہوں کہ نئے سرے سے طرز ِمعاشرت رکھی جائے۔

مَیں تو بہت بُرا ہوں، مہلک ہوں، میری کیا اوقات ایک معمولی کا ذرّہ ہوں، لیکن تم تو اشرف المخلوقات ہو، مسلمان بھی ہو،تو تم کیسے نا انصافیوں پر خاموش رہتے ہو؟کیوں ظلم سہتے ہو؟ باطل کے خلاف آواز بلند کیوں نہیں کرتے؟ابھی کل ہی کی تو بات ہے، جب بے گناہ والدین کو ان کے معصوم بچّوں کے سامنے گولیوں سے بھون ڈالا گیااور پھر قاتل باعزّت بری بھی ہوگئے۔

تمہارے شہروں میں نہ جانے کتنی زینب درندگی کا نشانہ بنتی رہتی ہیں اور تم لوگ بس خاموش تماشائی بنے رہتے ہو۔ ارے جاؤ!تم سے بڑا منافق کوئی نہیں کہ جو معصوم کو بے گناہ اور گناہ گار کو گناہ گار کہنے کہ بھی جرأت نہیں رکھتے۔تمہارے جیسے بے عمل انسان مجھے کیاشکست دیں، تم لوگ تو خود ایک مہلک وائرس ہو، بس تمہارا نام ’’کورونا‘‘ نہیں، انسان ہے۔‘‘

کورونا کی باتوں نے ہماری طرح آپ کی بھی روح تو ضرور جھنجھوڑ ی ہو گی؟واقعی صدقِ دل سے سوچیں تو کتنی صداقت ہے ناں،ان تمام باتوں میں۔ غور کریں، تو معلوم ہوگا کہ انسان کا سب سے بڑا دشمن توخود انسان ہی ہے، جو کچھ کورونا کی وجہ سے آج ہورہا ہے، وہی کچھ تو کئی برسوں سے نہ جانے کتنے مظلوموں کے ساتھ ہوتا چلا آرہا ہے، بس فرق اتنا ہے کہ اب لوگ وائرس کی وجہ سے مر رہے ہیں اور تب گولہ بارود، ہتھیاراور بھوک و افلاس سے مرتے تھے۔ اس صورتِ حال کا ذمّے دار تو چلو کووڈ 19 ٹھہرا، اُن معصوم جانوں کے زیاں کا ذمّے دار کون…؟؟