ملے کسی سے نظر تو سمجھو غزل ہوئی

May 13, 2020

عمر وبن حسین

اصناف شاعری کی بات کی جائے تو غزل اصناف شاعری میں ایک حسین و جمیل نازک سی صنف سخن ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ عروس شاعری ہے جو بام عروج پر ہے ۔ یہ صنف ہر دور، ہر طبقہ، ہر تہذیب اور ہر زمانہ میں ہر عام و خاص کی مقبول ترین صنف رہی ۔ ماضی میں بھی ہر ایک کے دل کو لبھاتی رہی اور عصر حاضر میں بھی ہر کوئی اس کا دیوانہ ہے، یقیناً اس کا سحر کل بھی کم نہ ہوگا ۔ اس طرح یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ غزل اس صنف کو کہیں گے، جس میں حسن وعشق یا محب و محبوب سے متعلق مضامین شامل ہوں ۔ یعنی ہجو وصال کا تذکرہ ‘ سوز و غم کا ذکر ‘ وصل معشوق کی لذت اور ا س طرح کی دیگر کیفیات۔

ملے کسی سے نظر تو سمجھو غزل ہوئی

رہے نہ اپنی خبر تو سمجھو غزل ہوئی

اردو کی زیادہ تر کلاسیکی شاعری حسن و عشق کے مختلف واردات و کیفیات سے ہی متعلق ہے،بلکہ ان ہی کیفیات میں رچی بسی ہوئی ہے۔ اس طرح شروعات میں یہ حسین صنف سخن صرف اور صرف حسن و جمال عشق و محبت کی وارداتوں کے ارد گرد گھومتی رہی۔ جس کی ایک خاص وجہ یہ ہے کہ اردو شاعری ہمیشہ فارسی شاعری کی مقلد رہی اس تعلق سے ڈاکٹر نور الحسن ہاشمی ر قم طر از ہیں کہ ’’ شعر و شاعری کا عموماً اور ایشیائی شاعری کا خصوصاً عشق و محبت کے جذبات و احساسات سے چولی دامن کا ساتھ رہا ہے ۔ ہماری اردو شاعری سراسر فارسی شاعری کی متبع ہے اپنے ابتدائی حالات میں عشق و محبت و معشوق و دیگر لوازمات عاشقی کے وہی سانچے وہی تصورات اور وہی معیار رکھتی ہے جو ایران میں اس وقت رائج تھے ‘‘ ۔

صنف غزل کی شروعات عربی ادب میں ہوئی۔ عرب صحرا پر مشتمل ہے ،جہاں قدرتی مناظر کا فقدان ہے نہ ہی ہرے درخت ہیں اور نہ ہی خوشنما پھول پودے وغیرہ ہیں یہی وجہ ہے کہ عربی غزل میں زیادہ تر تمثیل کی بہ نسبت راست بیانی نمایاں ہے ۔ اس تعلق سے امراؤ القیس کے اشعار میں ملاحظہ کریں۔

کہتے ہیں کہ لیلیٰ عراق میں بیمار ہے

کاش ایسا ہوتا کہ میں اس کا طبیب ہوتا

تیرا جمال مری نگاہوں میں

تیری محبت مرے دل میں ہے

تیرا ذکر مرے لبوں پہ ہے ،مگر تو کہاں غائب ہے

اس کے برعکس ایران کی فضاء عرب سے مختلف تھی، جہاں پھل ‘ پھول‘ درخت ‘ پہاڑ یعنی قدرتی حسین مناظر کی فراوانی تھی، جس کا عرب میں فقدان تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ فارسی شاعری خصوصاً فارسی غزل میں علامتیں شامل ہوگئیں ۔ اس طرح گلاب کا پودہ ‘ بلبل ‘ سیپ اور موتی ایرانی شاعری میں استعارے کے طور پر شامل ہوگئے،ساتھ اردو شاعری خصوصاً غزل میں بھی لوازمات کے طور پر شامل ہوگئے جو غزل کو مزید نکھارنے ‘ منوانے اور اس کے حسن کو چار چاند لگانے میں معاون و مددگار ثابت ہوئے، اس طرح عربی غزل کے برعکس فارسی و اردو غزل میں راست اظہارکی بہ نسبت بالواسطہ اظہار کے سلسلے میں فارسی کا یہ شعر سنداً پڑھا جاتا ہے۔

گفتہ آید در حدیث گراں

اسی طرح اُردو کے اشعار دیکھئے ۔

سناتے ہیں انہیں افسانہ قیس

بہانے ہیں یہ عرض مدعا کے

(حسرت موہانی)

اظہار کے کئی طریقے ہیں جو غزل میں رائج ہیں جو اس صنف سخن کو ’’عروس سخن‘‘ دیتے ہیں۔ مثلاً تشبیہ ‘ استعارہ ‘ کنایہ‘ مجاز مرسل ‘ تجسیم‘ تشخص‘ تلمیح اور دیگر کئی صنائع معنوی شامل ہیں چند اشعار دیکھئے جو اظہار کے مختلف طریقوں پر مشتمل ہیں ۔

تشبیہ :

نازکی اس کے لب کی کیا کہئے

پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے

(میر تقی میرؔ)

کنایہ:

متاع دین و دانش لٹ گئی اللہ والوں کی

یہ کس کا فر ادا کا غمزۂ خون ریز ہے ساقی

(اقبالؔ)

تلمیح:

ہم سہل پسند کون سے فریاد تھے لیکن

اب شہر میںتیرے کوئی ہم سا بھی کہاں ہے

( فیض احمد فیض ؔ)

اپنے کعبہ کی حفاظت تمہیں خود کرنی ہے

اب ابابیلوں کا لشکر نہیں آنے والا

(معراجؔ فیض آبادی)

ہ جو کٹ جاتے تھے مٹ جاتے تھے راہ حق میں

آہ ! اب ایسے بہتّر ہی کہاں ہوتے ہیں

(اطہرؔ)

تجسیم :

میں صورتِ گل دستِ صبا کا نہیں محتاج

کرتا ہے مرا جوشِ جنوں میری قبا چاک

تشخیص :

کہا میں نے کتنا، ہے گل کاثبات

کلی نے یہ سن کر تبسم کیا

استعارہ :

اگر کج روہے انجم آسماں تیرا ہے یا میرا

مجھے فکر جہاں کیوں جہاں تیرا ہے یا میرا

مجاز مرسل :

سحر کو سمجھا میں استعارہ

قمر کو سمجھا مجاز مرسل

(طباطبائی)

ان صناعی معنوں کے علاوہ وہ شاعر اپنے لئے زمین و آسماں سے بہت سی علامتیں چن لیتا ہے، علائم سنجی کا یہ کام جس قدر بڑے پیمانے غزل میں میں ہوا ہے شاید ہی کسی صنف سخن میں ہوا ہو ۔ یہ علامتیں قدرت کے مختلف مظاہر یا نظاموں سے لی گئی ہیں۔ مثلاً صحراء ‘ آسمان ‘ سمندر ‘گلشن وغیرہ وغیرہ ۔ عموماً سمندر کی علامت وقت کےلئے نجم ‘ انجم رہنما کےلئے کام خلق کے لئے وغیرہ وغیرہ چند اشعار ملاحطہ کریں:

دام ہر موج میں ہے حلقہ صد گام نہنگ

دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک

اب اگر غزل کی فکر میں مزید نظر ڈالیں توپتہ چلتا ہے کہ بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ غزل میں بھی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔غزل کی سوچ بدل گئی ہے اب وہ وسیع القلب ہوتی جا رہی ہے کئی موضوعات سمائے جا رہے ہیں ایک طرح سے کہا جائے ’’ تو گاگر میں ساگر‘‘ کو سمویا جا رہا ہے۔