افسردہ ہیں افلاک و زمیں، عید مبارک ... رنجیدہ و دل گیر و حزیں، عید مبارک

May 24, 2020

تحریر : نرجس ملک

مہمان: مریم رانا، مایا زہرا، عرفانہ جٹ، ردا اشرف، محمد علی، محمد ہادی، اظہر، محمد رافع، قصہ نقوی

ملبوسات: عابد بیگ

آرایش: ماہ روز بیوٹی پارلر

اہتمام: سلیک بائے عینی

عکّاسی : ایم کاشف

لے آؤٹ: نوید رشید

واصف علی واصف نے تو پتا نہیں کس کیفیت میں لکھا ؎ ’’افسردہ ہیں افلاک و زمیں، عیدمبارک… آزردہ مکان اور مکیں عید مبارک…یہ صبح مسّرت ہے کہ ہے شامِ غریباں…رنجیدہ و دل گیر و حزیں عیدمبارک…کہنا ہے بصد عجز یہ اربابِ وطن سے… کب آئے گا وہ دور حسیں، عید مبارک… محبوس جوانوں کے عزیزوں سے یہ کہنا …مولا ہے نگہباں و اَمیں، عید مبارک…یہ بات قلندر کی، قلندر ہی کہےگا…گو بات یہ کہنے کی نہیں، عید مبارک …مومن کبھی مایوس نہیںرحمتِ حق سے… مومن کا ہے دل عرشِ بریں، عید مبارک۔‘‘ مگر اس بار عید کچھ ایسے ماحول اور حالات میںآئی ہے کہ دل ہی رنجیدہ و غم زدہ نہیں، افلاک و زمیں تک ملول و فسردہ ہیں۔ نہ رمضان المبارک ہی کے وہ شب و روز، لیل و نہار تھے، جو ہوش سنبھالتے سے دیکھتے آئے، نہ ہی عید کے وہ رنگ و آہنگ، زمزمے ہیں۔ ’’عیدین‘‘ تو اللہ کے مومن بندوں کے لیے اُس کا خاص تحفہ، انعام ہیں۔ ’’عید الفطر‘‘ روزے داروں کی مہینے بھر کی محنت و ریاضت کی مزدوری، اجر تو ’’عید الاضحیٰ‘‘ ہمارے باپ حضرت ابراہیم ؑاور اُن کے اطاعت گزار فرزند حضرت اسماعیل ؑ کی لازوال قربانی و ایثار کا ثمر۔

مگر… اس بار تو یہ انعام، تحفہ بھی ایسے ملا ہے، جیسے اجر و ثواب، جزا میں مخفی کوئی سبق، درس یا سزا۔ اور اللہ کرے کہ ہم اس درسِ عبرت ہی سے کوئی عبرت پکڑ لیں۔ گرچہ بظاہر ایسا کہیں نظر نہیں آرہا۔ لاک ڈائون میں عارضی نرمی کے بعد بازاروں میں جو کچھ دیکھا گیا، قطعاً محسوس نہیں ہوا کہ لمبی قیدِ تنہائی، نظر بندی سے بھی ہم نے کسی قسم کا کوئی سبق حاصل کیا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ بحیثیت قوم ہم اچھے خاصے بے حِس اور مُردہ ضمیر ہوچکے ہیں۔

ہاں، چند ایک نیک روحیں ضرور ہیں اور اُن ہی کے طفیل سب ہی کے لیے بخشش و عافیت کے دروازے تاحال وا ہیں۔ ہنوز توبہ کا دَر کُھلا ہے، وگرنہ مالکِ کون و مکاں کے لیے کیا مشکل ہے کہ جیسے پہلے راتوں رات بستیوں کی بستیاں اُلٹ دی گئیں، اِک پَل میں سب کچھ نیست و نابود کرکے رکھ دے۔ لیکن نہیں، ابھی شاید اُسے ہمارے پلٹنے کی اُمید ہی نہیں، چاہ بھی ہے۔ وہ حضرت حسن بصری ؒ سے ایک روایت ہے ناں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت دائود علیہ السلام سے فرمایا: ’’اے دائود ؑ !ایک تیری چاہت ہے اور ایک میری چاہت ہے۔ ہوگا تو وہی، جو میری چاہت ہے۔ پس، اگر تم اپنی چاہت کو میری چاہت کے تابع کردو، تو مَیں تمہاری چاہت کے لیے بھی کافی ہوجائوں گا (یعنی تمہاری چاہت بھی پوری کردوںگا) اور بہرحال ہوگا تو وہی، جو مَیں چاہوںگا۔ اور اگر تمہاری چاہت میری مرضی کے خلاف ہو تو میں تمہیں تمہاری چاہت میںتھکادوںگا (یعنی پوری کوششکے باوجود تمہاری چاہت پوری نہیں ہوگی) اور ہوگا تو پھر وہی، جو میری چاہت ہے‘‘ (نوادرالاصول،للحکیم الترمذی)۔ تو اگر ہم نے بہت تھک ٹُوٹ کر، گھائل، نڈھال ہوکر بالآخر اُس کی چاہت ہی کی طرف لوٹنا ہے، تو ابھی کیوں نہیں۔

یہ عید، ماضی کی سب عیدوں سے یک سر مختلف عید ہے۔ مُمکن ہے، نسلِ انسانی نے اس سے بدتر عیدیں بھی دیکھی ہوں، لیکن کم از کم موجودہ نسل نے ایسی کسی عید کا کبھی تصوّر بھی نہیں کیا تھا۔ عربی کا ایک عارفانہ کلام ہے ؎ لَیْسَ الْعِیْدُ لِمَنْ لَبِسَ الْجَدِیْدِ…اِنَّمَا الْعِیْدُ لِمَنْ خَافَ بِالْوَعِیْدِ (عید اُن کی نہیں، جنہوں نے عُمدہ لباس زیب تن کرلیا بلکہ عید تو ان کی ہے، جو الله کے خوف اور پکڑ سے ڈر گئے)۔ لَیْسَ الْعِیْدُ لِمَنْ تَبَخَّرَ بِالْعُوْدِ… اِنَّمَا الْعِیْدُ لِمَنْ تَابَ وَلَا یَعُوْدُ (عید اُن کی نہیں، جنہوں نےعُمدہ خوشبوؤں کا استعمال کیا بلکہ عید تو اُن کی ہے، جنہوں نے اپنے گناہوں سے توبہ کی اور پھراُس پر قائم رہے)۔ لَیْسَ الْعِیْدُ لِمَنْ نَصَبَ الْقُدُوْرَ…اِنَّمَا الْعِیْدُ لِمَنْ سَعَدَ بِالْمَقْدُوْرِ (عید اُن کی نہیں، جنہوں نے عُمدہ کھانے پکائے بلکہ عید تو اُن کی ہے، جنہوں نے حتی الامکان سعادت حاصل کر کے نیک بننے کی کوشش کی)۔ لَیْسَ الْعِیْدُ لِمَنْ تَزَیَّنَ بِزِیْنَۃِ الدُّنْیَا…اِنَّمَا الْعِیْدُ لِمَنْ تَزَوَّدَ بِزَادِ التَّقْویٰ (عید اُن کی نہیں، جنہوں نے دنیاوی زیب و زینت اختیار کی بلکہ عید تو اُن کی ہے، جنہوں نے تقویٰ اختیار کیا اور اسے اپنا توشہ بنایا)۔ لَیْسَ الْعِیْدُ لِمَنْ رَکِبَ الْمَطَایَا…اِنَّمَا الْعِیْدُ لِمَنْ تَرَکَ الْخَطَایَا (عید اُن کی نہیں، جنہوں نے عُمدہ سواریوں اور گاڑیوں پر سواری کی بلکہ عید تو اُن کی ہے، جنہوں نے گناہوں کو چھوڑ دیا)۔

تو اگر برس ہا برس سے ہم ’’عیدین‘‘ قطعاً روایتی انداز سے مناتے بھی چلے آرہے ہیں، تو کیا ایک عالم گیر وبا کے تناظر میںکہ جس کے بعد حقیقی معنوں میںپوری دنیا ایک صفحے پر ہے، امسال عید اس عربی کلام کی روشنی میں نہیں منائی جاسکتی کہ جس کا عنوان ہی ’’حقیقی عید‘‘ ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہ کا قول ہے کہ ’’مومن کے لیے ہر وہ دن، عید کا دن ہے کہ جس دن وہ کوئی گناہ نہ کرے‘‘ تو اس عید پر نہ صرف یہ کہ گناہوں سے حتی الامکان بچنے کی کوشش کردیکھیں، بلکہ جس حد تک ممکن ہو، ثواب کمانے کی بھی سعی کرلی جائے۔ یوں بھی ’’عید‘‘ ذاتی، انفرادی خوشی محض اپنی اور اہلِ خانہ کی زیب زینت، طعام و اہتمام کا نام نہیں۔ یہ تو اجتماعی، روحانی و اخلاقی تربیت کا ایک تہوار ہے۔

سالوں سے ہم ’’لیلتہ الجائزہ‘‘ بازاروں، ریسٹورنٹس میں گزار رہے ہیں، تو ایّامِ عید سوکر یا مختلف اسکرینز کے سامنے، تو اگر اس بار باہمی رواداری و اخلاص، ہم دردی و غم خواری کو حرزِجاں بنا کر خود تو سادگی سے عید منائیں ہی، دوسروں کی بھی ذہنی و قلبی راحت و سکون کا کچھ سامان کردیں، تو کیا ہی اچھا ہو۔ کیوں کہ اپنائیت و یگانگت، قرابت و عزیز داری کے احساسات کی جس قدر ضرورت آج ہے، پہلے کبھی نہ تھی۔ وہ جن کے پیارے اچانک ہی اس اندوہ ناک وبا کی زد میںآکر ساتھ چھوڑ گئے۔ وہ جو دوسروں کی جانیں بچاتے بچاتے، اپنی زندگیاں ہار گئے۔ جو ابھی موت و زیست کی کشمکش میںہیں۔ اور وہ، جو بیماری سے تو نہیں، مگر غربت و افلاس، تنگ دستی و ناداری سے مسلسل برسرِ پیکار، نبرد آزما ہیں، یہ سب لوگ ہماری دلی ہم دردی، غم خواری و خیر خواہی کے بجا طور پر مستحق ہیں، لہٰذا جہاں اتنی بے شمار عیدیں اپنے اور اہلِ خانہ کے نام کی ہیں۔ یہ ’’عید الفطر‘‘ اگر ان سب کے نام ہو جائے، تو کیا بُرا ہے۔

رسمِ دنیا، آپ کی خوشی کی خاطر یہ ایک بزم تو ہم نے ضرور سجادی ہے، مگر بخدا دل بہت رنجور، مغموم، افسردہ و ملول ہے۔ سو، آج عید الفطر کی مبارک باد بھی ان ہی اشعار کے ساتھ ؎ افسردہ ہیں افلاک و زمیں، عید مبارک..... آزردہ مکان اور مکیں، عید مبارک..... یہ صبحِ مسّرت ہے کہ شامِ غریباں..... رنجیدہ و دل گیر و حَزیں عید مبارک۔