سفید کوے (قسط نمبر3)

May 24, 2020

البتہ اُس کے چانسلر بننے کے بعد ان کی بہتری پرخاصا کام کیا گیا، سو یہ بات غلط طور پر اُس سے منسوب ہوگئی۔ اسی طرح بیسویں صدی ہی میں ایک بات غلط طور پر معروف ہوگئی کہ ایک عام انسان اپنے دماغ کا اوسطاً دس فی صد حصّہ استعمال کرتا ہے۔ اس تاثر کو عام کرنے میں، ڈیل کارنیگی کی کتاب ’’دوست کس طرح بنائے جائیں اور لوگوں پر اثر انداز کیسے ہوا جائے؟‘‘ میں، ٹامس لاول کے لکھے دیباچے کابھی اہم کردارتھا۔ اُس نے پروفیسر ولیم جیمز کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا’’ ایک عام انسان اپنے دماغ کی فقط دس فی صد صلاحیت کو بروئے کار لاتا ہے۔‘‘ تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ کسی بھی فکر یا فعل میں پورا انسانی دماغ استعمال میں آتا ہے۔

انسان میں صرف شعور بیدار کرنے کے بنیادی کام کے لیے تمام دماغی اجزا باہمی ربط و ضبط سے کام لیتے ہیں۔ اگر یہاں بات ذہانت کی ہو تو بھی مختلف دماغی ورزشوں اورمشقوں سے اُس میں فکری ذہانت میں اضافہ اور ارتکاز تو کیا جاسکتا ہے اور بہترنتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں مگر طبّی معنوں میں اس کی عصبیاتی صلاحیت میں خاطر خواہ اضافہ ممکن نہیں۔ اگراس سے مراد کسی شعبے یا مضمون پر دست رَس ہے تو یہ کام محنت سے کیا جاسکتا ہے۔ یقینا خداداد ذہانت کا بہترین متبادل اَن تھک محنت ہی ہے۔ دل چسپ معاملہ تو یہ ہے کہ اس بات کو غلط طور پر آئن سٹائن جیسے شان دار سائنس دان سے بھی منسوب کردیا جاتا ہے۔

آئن سٹائن کے حوالے سے تو یہ بھی مشہور ہے کہ وہ ریاضی میں کم زور تھا اور اسکول کے ریاضی کے پرچے میں ناکام ہوگیا تھا۔ جب کہ اُس نے ٹائم میگزین کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں خود کہا تھا ’’ مَیں پندرہ برس کی عُمرتک احصائے تفرقی (ریاضیاتی کیلکولس) پر مہارت حاصل کرچکا تھا۔‘‘ دماغ کے حوالے سے اس بات کو بھی ایک معلوم حقیقت کے طور پر سمجھا جاتا رہا ہے کہ دماغی استعمال کے حوالے سے دنیا میں دو طرح کے لوگ ہیں۔ دماغ کا بایاں حصّہ استعمال کرنے والے لوگ تجزیاتی، سائنسی اور کم جذباتی ہوتے ہیں، جب کہ اس کا دایاں حصّہ استعمال کرنے والے فنونِ لطیفہ، ادب اور تخلیقی صلاحیتوں کےحامل ہوتے ہیں۔

عصبیاتی تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ بے شک الفاظ اور گفت گو کا ماخذ، دایاں ہاتھ استعمال کرنے والے لوگوں کے دماغوں کے بائیں جانب اور بالعکس ہوتا ہے اور انسانی دماغ کے مختلف حصّے مخصوص کاموں کے لیےمخصوص ہیں مگر بالعموم ایک شخص اوسطاً اپنے دماغ کے دونوں حصّوں کو استعمال میں لے کر آتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ایک شخص جب دماغ کے ایک حصّے کو استعمال میں لاکر کوئی تخلیقی کام کر رہا ہو تو دوسرا حصّہ استعمال میں نہ ہو۔ بلکہ وہ بھی مکمل طور پر استعمال میں ہوتا ہے۔ دماغ اور جسم کے مختلف حصّوں کے حوالے سے ایک اورتذکرہ بھی بے جا نہ ہوگا۔

یہ ایک بات عام ہے کہ اونٹ اپنے کوہان میں پانی ذخیرہ رکھتا ہے، جس کے سبب وہ بغیر پانی کے صحرا میں ایک ہفتے تک بھی سفر کر سکتا ہے۔ بلکہ بعض روایات اور داستانوں میں تو یہ بھی آتا ہے کہ ضرورت پڑنے پر پیاسے مسافر اونٹ کو ذبح کرکے اس سے پانی حاصل کر لیا کرتے تھے۔ جس پانی کا حوالہ دیا جاتا ہے، وہ اس کی جسامت اور مخصوص ساخت کی وجہ سے اس کے جسم کے مختلف حصّوں میں ذخیرہ ہوتا ہے۔ کوہان فقط چربی کا ڈھیر ہے اور ایسا نہیںکہ اونٹ اپنے ساتھ پانی کی چھوٹی سی ٹینکی لیے چلتا ہو، جس سےوہ بالضرورت مستفیض ہوتا ہو۔

چربی تو انسانی صحت کے لیے برُی سمجھی جاتی رہی ہے۔ دہائیوں سے دنیا بھر کی کتابیں، پروگرام اورڈاکٹربتاتے رہے ہیں کہ ہر طرح کی چربی کا استعمال انسانی صحت کے لیے مضر ہے۔ جدید تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ چربی کی اقسام یعنی صحت مند اور خطرناک چربی میں سے اول قسم نہ صرف اچھی ہے بلکہ ضروری بھی ہے۔ اس کا حصول زیتون، مونگ پھلی، بادام، اخروٹ، مچھلی اور دیگر کئی ذرایع سے ہوتا ہے۔ خطرناک چربی تلے ہوئے کھانوں، سُرخ گوشت، مکھن اور آئس کریم وغیرہمیں پائی جاتی ہے۔ اسی طرح انکشاف ہوا ہے کہ ہر طرح کا خوردنی کولیسٹرول بھی صحت کے لیے بُرا نہیں ہوتا۔ برسوں لوگ اسی باعث انڈوں سے پرہیز کرتے رہے ہیں۔

درحقیقت مخصوص کولیسٹرول سے لیس چند چیزیں خون میں اس کی سطح بڑھا کر خطرناک صُورت اختیار کرتی ہیں۔ روزانہ دوانڈے کھانے سے صحت مند افراد کو دل کی بیماری یا کولیسٹرول سے متعلق دیگر بیماریاں ہونے کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ اسی طرح ہر طرح کی شکر برُی نہیں ہوتی بلکہ بدن کو اس کی ضرورت رہتی ہے، جیسا کہ آڑو، مالٹے، گریپ فروٹ اور دیگر پھلوں سے حاصل ہونے والی شکر۔ پھلوں کے حوالے سے ایک معاملہ کیلے کا بھی ہے۔ تصوّر کیا جاتا ہے کہ کیلے درختوں پر اُگتے ہیں اور کیلے کے درخت پاکستان میں بالعموم اور صوبۂ سندھ میں بالخصوص بےشمار پائے جاتے ہیں۔

جسے کیلے کا درخت سمجھا جاتا ہے اور وہ پچیس فٹ تک بلند ہوسکتاہے وہ دنیا کی سب سے بڑی بارہ ماہی جڑی بوٹی ہے۔ اگر اس کا غور سے معائنہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آجاتی ہے کہ اس میں لکڑی کے ریشے نہیں ہوتے اور نہ ہی باقاعدہ تنا اورشاخیں۔ یہ ایک ڈنٹھل ڈالی کی طرح ہوتا ہے، جس پر شاخیں ہوتی ہیں اور پھل آتا ہے۔ کیلا بھی اسٹرابیری، بلیوبیری، رسپ بیری کی طرح بیری کی قسم ہے، جو پختہ اور مکمل بیج لیے نہیں ہوتا۔

سائنس کا حُسن ہے کہ یہ جامدنہیں۔ عین ممکن ہے کہ سائنس کے بہت سے تسلیم شدہ حقائق اگلے چند برسوں میں غلط ثابت ہوجائیں۔ سو سب سے معقول بات یہ ہے کہ انسان سب کچھ کھائے، پر اعتدال سے۔ قدرت کی ہرشے میں بے شمار فوائد ہیں تو کچھ نقصانات بھی۔ بے سبب، شایدکچھ بھی نہیں۔ غلط تو دہائیوں سے درسی کتب میں لکھی یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ پلوٹو نام کا ننّھا مُنا خلا میں تیرتا جسم یا جرمِ فلکی، سیارہ ہے۔ 1930میں دریافت ہونے والا جرمِ فلکی جس کا نام پلوٹو ایک گیارہ سالہ برطانوی بچّی نے رکھا تھا کُل2376 کلومیٹر قطر کاحامل ہے۔ اس کے سیارہ ہونے پر1992 میں سوالات اُٹھے تھے، جب نیپٹیون سیارہ کے پرے خلائی ہالے میں اس جسامت کے کئی اجرامِ فلکی دریافت ہوئے۔

خاصی تحقیق کے بعد2006 میں اسے بونا سیارہ قرار دے کر سیاروں کی فہرست سے خارج کردیا گیا۔ یوں اب اسے سیارہ تسلیم نہیں کیا جاتا۔ تسلیم تو ماؤنٹ ایورسٹ کو دنیا کا سب سے بلند ترین پہاڑکیا جاتا ہے، جب کہ بیش تر دنیا یہ نہیں جانتی کہ چوٹی سے بنیاد تک دنیا کا سب سے بلند پہاڑ ہوائی میں واقع 33476فٹ اونچا ماؤنا کِیا ہے۔ ماؤنٹ ایورسٹ کی بلندی 29035 فٹ ہے۔ یہاں سوال یہ اُٹھتاہے کہ اس کے باوجود ایورسٹ کو بلند ترین کیوں تسلیم کیا جاتا ہے۔ یہ معمّا پیچیدہ نہیں۔ پہاڑوں کی بلندی ان کی زمین کی سطح سے نہیں ناپی جاتی بلکہ سطح سمندر سے ماپی جاتی ہے۔ جب ایک کوہ پیما ماؤنٹ ایورسٹ سَر کرنے اُس کے بیس کیمپ پہنچتا ہے، تو وہ نیپال کی جانب سے باقاعدہ کوہ پیمائی سے پہلے ہی سطح سمندر سے 17600 فٹ کی بلندی پر پہنچ چُکا ہوتا ہے اور اُسے مزید 11435 فٹ (3485.4میٹر) کی بلندی چڑھناہوتی ہے۔

البتہ ماؤناکِیا اپنی جَڑ سے سَر تک بےشک بلند ترین پہاڑ ہے، مگر اس کے 13796 فٹ سطح ِسمندر سے بلند ہیں، بقیہ جسم پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔ اگر زمین سے چوٹی تک ناپا جائےتو الاسکا کا ماؤنٹ مک کِنلے(المعروف ماؤنٹ ڈینالی)اپنی 20320 فٹ کی اونچائی کے ساتھ سطحِ زمین سےسَرتک بلند ترین پہاڑ ہے۔ فطرت کے عناصر کا تذکرہ چاند کے ذکر کے بغیر ادھورا ہے۔ گو پورے چاند کے، سمندر کی لہروں کے مدوجزر پر اثرات مرتب ہوتے ہیں اور دیگر عناصر قدرت بھی اس سے متاثر ہوتے ہیں، مگر اس کے انسانی فطرت ، نفسیات یا جسم پر اثرات اب تک ثابت نہیں ہوسکے۔ یہ ایک عمومی تصوّر ہے کہ پورے چاند یعنی پونم کی راتوں میں جرائم، خودکشیاں اور پاگل پن کے دورے بڑھ جاتے ہیں۔

اعداد و شمار اس تصوّر سے مطابقت نہیں رکھتے۔ ماہرین سمجھتے ہیں کہ چوں کہ انسانوں میں یہ تصوّر چلا آرہا ہے اس لیے وہ پونم کی راتوں میں ہر شے اور حرکت کو غور سے دیکھتے ہیں۔ یوں عام راتوں میں نظر انداز کیے جانے والے امور بھی اُنھیں ایسی راتوں میں خاص نظر آنے لگتے ہیں۔ اگر نفسیاتی مغالطوں کا تذکرہ کیا جائے تو چند دل چسپ حقائق پیشِ نظر رہنے چاہییں۔ مگر اس سے پہلے انسانی نفسیات کی بوالعجبیوں پر دو واقعات اور ایک آزمودہ طریقۂ کار۔ واقعات جیل کے رکھوالوں اور کِٹی کیلی کے قتل کے اور طریقۂ کار شہرئہ آفاق امریکی دانش ور، بنجمن فرینکلن کا ہے۔ جیل کے رکھوالوں کا تجربہ اسٹین فورڈ قید خانے کا تجربہ بھی کہلاتا ہے۔

1971میں ہونے والا یہ تجربہ اتنا مشہور ہوا کہ اس پر ہالی ووڈ نے فلم بھی بنائی۔ نفسیات کے پروفیسر، فلپ زمبارگو نے اسٹین فورڈ یونی ورسٹی کے طلبہ کو لے کر ایک تصوّراتی قید خانے کی نقل کی۔ اس تجربے کا مقصد تصوّراتی قوّت و اختیار کا نفسیاتی تجزیہ کرنا تھا۔ تجربے کے دوران ان طلبہ کی خدمات حاصل کی گئیں، جو رضا کارانہ طور پر اس میں حصّہ لینے کو تیار تھے۔

چند طلبہ کو جیل کے گارڈز کا کردار دیا گیا اور دیگرکو قیدی بنایا گیا۔ ان عارضی کرداروں کا بھی کچھ ایسا اثر ہوا کہ وہ طلبہ جنھیں گارڈ کا کردار دیا گیا تھا، چند روز میں اپنے آپ کو حقیقی محافظ یا رکھوالے سمجھنے لگے اور ان کا برتاؤ بھی ویسا ہی ہوگیا۔ انہوں نے تحکمانہ رویہ اختیار کرلیا اور بےجا سختی کرنے لگے۔ ان میں سے چند محافظ تو اپنے ’’قیدیوں‘‘ کو نفسیاتی تشدّد کا بھی نشانہ بنانے لگے۔ حیران کُن طور پر کچھ ’’قیدی‘‘ نہ صرف زیادتی برداشت کرنے لگے بلکہ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار کے مصداق دیگر حریف قیدیوں کے خلاف گارڈز کی مددکرنے لگے ۔

جن حریف قیدیوں نے نفسیاتی تشدّد پر احتجاج کیا، انھیں اُن ہی کے ساتھی قیدی ڈرا دھمکا کر ’’راہ راست‘‘ پرلانے لگے اور گارڈز کی معاونت کرنے لگے۔ یعنی گارڈ طلبہ اپنے آپ کو ’’گارڈ‘‘ ہی سمجھ ہی رہے تھے اور قیدی طلبہ بھی اپنے آپ کو ’’قیدی‘‘ سمجھنے لگے اور روایتی طور پر خوشامدی اورمزاحمتی خانوں میں بٹ گئے۔ چند ہی دِنوں میں حالات اس درجہ خراب ہوگئے کہ پہلے تو چند ’’قیدی طلبہ‘‘ تجربے سے نکل گئے اور پھر ایک ہفتے بعد ہی اس تجربے کو روک دیناپڑا۔ اس تجربے سے پروفیسر فلپ نے ثابت کیا کہ نہ صرف انسان تفویض کردہ کردار کے مطابق اپنے آپ کو غیر شعوری طور پر ڈھال لیتا ہے، بلکہ بیش تر انسان طاقت اور اختیار کے سامنے سَرجُھکا دیتے ہیں۔

طاقت سے مرعوب ہونا انسانی سرشت میں شامل ہے۔ فلپ نے قیدیوں کا تشخّص ختم کرنے کے لیے گارڈز کو یہ بھی ہدایت دی تھی کہ وہ قیدیوں کو ناموں کے بجائے نمبروں سے بلائیں۔ یوں اپنی شناخت ختم ہوجانے کے بعد قیدی نہ صرف گارڈز سے تعاون کرنے لگے بلکہ اُن کے بے جا سخت رویے کے سامنے بھی سرجُھکا دیا۔ یہاں یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ جب کوئی ہجوم کا حصّہ بن کر اپنی شناخت کھودے، تو وہ ویسا ہی طرز عمل اختیار کرتا ہے، جیسا ہجوم کا ہوتا ہے۔ یعنی وقتی طور پر اپنے تشخّص اور آزاد مرضی کا تصوّر ایک مغالطہ بن کر رہ جاتا ہے۔ اگر حقیقی طور پر دیکھا جائے تو کئی مرتبہ جب کسی شخص سے ایک جرم سرزد ہوجاتا ہے تو وہ اپنا سر پکڑ کر کہتا ہے ’’یہ میں نے کیا کِیا؟‘‘یعنی ایک کم زور لمحے میں انسان ایسا بھی کچھ کرگزرتا ہے، جو اس کی شخصیت کی درست عکاسی نہیں کرتا بلکہ لمحاتی عمل یا ردعمل ہوتا ہے، جو اس کی شخصیت کا فقط ایک حصّہ سرانجام دیتا ہے۔

البتہ سزا پورے انسان کو ایک خاص طویل یا مختصر مدّت کے لیے ملتی ہے۔ ایسا جرم مجرم کو بھی حیرت میں مبتلا کردیتا ہے، جو خود بھی اپنے آپ سے اس حرکت کی توقع نہیں کر رہا ہوتا۔ اکثر اوقات ایسے حالات میں انسان کے شعور پر اس کا تحت الشعور یا لاشعور حاوی ہوجاتا ہے۔ بہ قول مظفر رزمی ؎ لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی۔ بہرحال، دوسرے واقعے کی جانب آتے ہوئے یہ ذکر ضروری ہے کہ نیویارک میں کِٹی جینو ویزکے قتل کاکیس علمِ نفسیات کے کلاسیکی کیسوں میں شمار ہوتا ہے۔ 1964 میں وہ اپنی ملازمت کے بعد گھر جارہی تھی، جب ونسٹن موسلے اس پر حملہ آور ہوا اور اُسے قتل کردیا۔ ایسے قتل تو ہوتے رہتے ہیں، اس میں بظاہر کوئی خاص بات نہ تھی۔

دراصل اس نے نفسیات دانوں کو اپنی جانب متوجّہ کیا اور ’’عمل تماشائی‘‘ کی ترکیب وجود میں آئی۔ روایت کے مطابق کِٹی کے قتل کے وقت38 لوگ وہاں موجود تھے، مگر اُسے بچانے کے لیے کسی نے بھی کچھ نہ کیا۔ یہ ’’عملِ تماشائی‘‘ کی (اگر اسے چشمِ تماشائی کا سا ادبی نام دیا جائے تو غلط نہ ہوگا)ایک خوف ناک مثال تھی۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ 13مئی 1964 کو وہ رات گئے اپنے کام سے واپس آئی اور اپنے فلیٹ سے قریباً ایک سو فٹ کے فاصلے پر واقع پارکنگ لاٹ میں گاڑی کھڑی کر کے اپارٹمنٹ کمپلیکس کی جانب پیدل چل دی۔ ونسٹن اپنی گاڑی میں اس کا منتظر تھا۔ وہ اپنی کار سے خنجر لیے اُترا اور کٹی کا پیچھا کیا۔ خطرہ بھانپتے ہی کِٹی عمارت کی جانب لپکی۔ ونسٹن اُس کے سر پر پہنچ گیا اور اُس کی کمر پر خنجر کے دو وار کیے۔ وہ چیخی ’’اوہ خدا!اس نے مجھے خنجر سے زخمی کیا ہے، میری مدد کرو۔‘‘ یہ سُن کر ایک ہمسایہ رابرٹ موزر للکارا ’’اس لڑکی کو اکیلا چھوڑدو۔‘‘ آواز سُن کر ونسٹن وہاں سے بھاگ نکلا۔

کٹی لڑکھڑاتی ہوئی، عمارت کے پچھلے دروازے کی جانب چل دی۔ عینی شاہدین کے مطابق ونسٹن اپنی گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہوگیا۔ دس منٹ بعد وہ لوٹ آیا۔ اب اُس نے چہرے کو چُھپانے کے لیے ایک بھاری ہیٹ سَر پر پہن رکھا تھا۔ اس نے کِٹی کو تلاش کرنا شروع کیا۔ اُس نے بالترتیب پارکنگ لاٹ، ٹرین اسٹیشن اور اپارٹمنٹ کمپلیکس میں اُسے تلاش کیا اور بالآخر عمارت کی پچھلی جانب زخمی حالت میں ڈھونڈنکالا۔ وہ بند دروازے کے باعث عمارت میں جانہ پائی تھی۔ اسٹیفن نے اُس پر خنجر کے کئی وارکیے، زیادتی کا نشانہ بنایا اور اُس سے 49 ڈالر چھین کر بھاگ گیا۔ یہ ساری کارروائی آدھ گھنٹے تک جاری رہی۔

بعدازاں کِٹی کے ہاتھوں پر زخموں کے نشانات سے پتا چلا کہ اس نے اپنا دفاع کرنے کی کوشش کی تھی۔ تفتیش کے دوران سیاہ فام اسٹیفن کو ڈھونڈ نکالا گیا، اُس نے جرم کا اعتراف کرلیا، وہ کِٹی کو نہیں جانتا تھا، دو بچّوں کا باپ تھا اور اُس رات بھی بیوی کو سوتا چھوڑ کر تفریح میں جرم کرنے نکلا تھا۔ وہ اس سے پہلے بھی دو عورتوں کو قتل کرچکا تھا۔ وہ عورتوں کو آسان شکار سمجھتے ہوئے قتل کرتا تھا۔ اُسے تاحیات قید کی سزا دی گئی اور وہ اکیاسی برس کی عمر میں 52 سال قید میں گزار کر 28 مارچ 2016کو نیویارک کے قید خانے میں مرگیا۔ واقعے کی جانب لوٹتے ہوئے یہ بات اہم ہے کہ اس قتل کا کسی نے بھی خاص نوٹس نہیں لیا اور نہ ہی بعد میں لیتا، اگرنیویارک پولیس کمشنر، مائکل مرفی ’’دی نیویارک ٹائمز‘‘ کے ایڈیٹر، روز نتھل سے دورانِ لنچ یہ جملہ نہ کہتا ’’قتل کی یہ کہانی کتابوں میں رقم کیے جانے کے قابل ہے۔‘‘

ایک اچھے صحافی کی مانند اُس نے اس واقعے میں بہت کچھ دیکھ لیا اوراسے اپنے اخبار میں جگہ دینی شروع کردی۔38 کا ہندسہ پہلی مرتبہ پولیس کی جانب سے سامنے آیا۔ جب تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ کوئی بھی شخص اس واقعے میں ملوّث نہیں ہونا چاہتا تھا۔ کوئی نہیں چاہتا تھا کہ اُسے گواہ بننا پڑے یا پولیس اورعدالت کے چکر لگانے پڑیں۔ سو، وہ لوگ ایک معصوم اور نہتّی لڑکی کو قتل ہوتے دیکھتے رہے۔ جب قاتل سے پوچھا گیا کہ اُس نے اتنے لوگوں کی موجودی میں حملہ کرنے کی ہمّت کیسے کی تو اُس نے جواب دیا ’’مجھے معلوم تھا کہ وہ کچھ نہیں کریں گے، لوگ کبھی کچھ نہیں کرتے۔‘‘چند نفسیات دانوں نے لاتعلقی کے اس عمل کو ’’انتشارِ ذمّے داری‘‘ کا نام بھی دیا۔ یعنی ہرشخص دوسرے پر ذمّے داری ڈال کر خود بری الذمہ ہوجائے۔

عُمرانی نفسیات دانوں، جان ڈارلے اور بِب لاتانے کی تحقیق نے بتایا کہ کسی جرم کے وقت جتنے زیادہ لوگوں کاہجوم وہاں تماشائی ہوگا اُتنا ہی کسی کے مدد کو بڑھنے کا امکان کم ہوگا۔ اس کی وجوہ میں ہرکسی کا یہ دیکھنا کہ کوئی دوسرا مدد نہیں کررہا تو مَیں کیوں کروں؟ہرکسی کا یہ سمجھنا کہ کوئی دوسرا بہتر مدد کرسکتا ہے اور ہر کسی کی ہچکچاہٹ کہ اکیلا مدد کے لیے بڑھے گا، جب دوسرے دیکھ رہے ہوں گے، تو اُسے عجیب محسوس ہوگا اور دیگر کئی عوامل پورے مجمعے کو لاتعلق مشاہدے پرآمادہ کرتے ہیں۔

البتہ اگرتمام لوگ ایک ہی گرو ہ یا طبقے سے تعلق رکھتے ہوں تو مظلوم کی مدد میں بڑھنے والوں کی خاطر خواہ تعداد کا امکان بڑھ جاتا ہے، جیسا کہ مظلوم کوئی عورت ہو اور وہاں موجود سب ہی خواتین ہوں وغیرہ۔ اگریہ واقعہ پاکستان میں ہوتا تو غالباً بڑی تعداد میں لوگ مدد کے لیے آگے بڑھتے۔ یہاں معاشرتی سطح پر گرم جوشی لوگوں کو عمل پر آمادہ کرتی ہے اور یہاں کے سماجی رویّوں کا دیہی ثقافت سے خمیر اُٹھا ہے، جہاں مشترکہ عمل کا پسندیدہ تصور پایا جاتا ہے۔ برسبیلِ تذکرہ، ناپسندیدگی کو پسندیدگی میں بھی بدلا جاسکتا ہے۔ (جاری ہے)