حادثے کی وجوہ پر سنگین سوالات، فنی خرابی یا پائلٹ کی غلطی، تحقیقاتی رپورٹ تین ماہ میں آئے گی

May 24, 2020

حادثے کی وجوہ پر سنگین سوالات، فنی خرابی یا پائلٹ کی غلطی، تحقیقاتی رپورٹ تین ماہ میں آئے گی

کراچی(نیوز ایجنسیاں، ٹی وی رپورٹ) کراچی میں پی آئی اے کے طیارے کو ہونے والا حادثہ غفلت تھی یا کسی غلطی کا نتیجہ، طیارہ فنی خرابی کا شکار ہوا یا پائلٹ کی غلطی تھا ، حادثے کی وجوہ پر سنگین سوالات اٹھنے لگے ، اس حوالے سے تحقیقات جاری ہیں۔

سول ایوی ایشن کے ذرائع نے طیارے کے رن وے کو چھونے کی تصدیق کردی، طیارے نے دن 2 بجکر 20 منٹ پر پہیے کھلے بغیر رن وے پر لینڈ کیا، پھر پائلٹ نے دوبارہ ٹیک آف کرلیا۔

دوبارہ ٹیک آف کا حکم کس نے دیا، اس کی تحقیقات کپتان کی کنٹرول ٹاور سے ہونے والی بات چیت کی بنیاد پر کی جارہی ہے۔ ٹی وی رپورٹ کے مطابق ایمرجنسی لینڈنگ کے انتظامات نہ ہونے پر دوبارہ ٹیک آف کیا۔

دوسری جانب پی آئی اے طیارہ حادثے نے کئی سوالات کو جنم دے دیا اور سول ایوی ایشن اتھارٹی کی رن وے انسپیکشن رپورٹ میں نئے انکشافات سامنے آگئے۔

ذرائع کے مطابق کپتان نے طیارے کو لینڈ کرانے کی دو بار کوشش کی۔ ایمرجنسی لینڈنگ کی صورت میں رن وے پر فوم بچھایا جاتا ہے، مگر کپتان کی لینڈنگ کی ایک کوشش سے دوسری کوشش کے درمیان رن وے پر فوم بھی نہیں بچھایا گیا۔

پہلی بار رن وے پر اترنے کی کوشش کے دوران طیارے کے لینڈنگ گیئرز بند تھے۔پہلی لینڈنگ کی کوشش میں طیارے کے انجن رن وے سے ٹکرائے تھے اور پہیے نہ کھلے۔

دوسری جانب ٹی وی رپورٹ کے مطابق پائلٹ نے تباہی سے 19 منٹ قبل کراچی ائیرپورٹ پر ہنگامی لینڈنگ کی کوشش کی مگر ایمرجنسی لینڈنگ کے ضروری انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے طیارے کو دوبارہ ٹیک آف کرالیا۔

ائیرپورٹ ذرائع کے مطابق پائلٹ نے لاہور سے کراچی پہنچ کر لینڈنگ کے لیے طیارے کے پہیے کھولنا چاہے مگر ناکام رہا جس پر پائلٹ نے ائیر ٹریفک کنٹرول کو صورتحال سے آگاہ کیا۔

ذرائع کے مطابق رن وے تک پہنچنے کے دوران پائلٹ مسلسل پہیے کھولنے کی کوشش کرتا رہا۔ دوپہر دو بجکر 20 منٹ پر طیارہ عین رن وے تک پہنچ گیا مگر ہنگامی لینڈنگ کے مناسب انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے کپتان نے طیارے کو واپس اڑا لیا، دوبارہ اڑان بھرتے ہی پائلٹ نے ایک چکر لگانے کے لیے طیارے کو الٹے ہاتھ کی طرف موڑا اور شاہ فیصل کالونی، ملیر اور نیشنل ہائی وے سے ہوتے ہوئے دوبارہ لینڈنگ کی کوشش کی۔

ذرائع کے مطابق جہاز کے پہیے کھولنے کے لیے کپتان نے آخری حربے کے طور پر سسٹم کو پمپ کیا تو جہاز کے پہیے کھل گئے مگر اس وقت تک جہاز کا ایک انجن فیل ہوچکا تھا ۔

پائلٹ نے ائیر ٹریفک کنٹرول کو اس دوسری ہنگامی صورتحال سے بھی آگاہ کیا اور طیارے کو ہر ممکن مہارت سے ائیرپورٹ تک لے جانے کی کوشش کی مگر اس دوران جہاز کا دوسرا انجن فیل ہوا تو طیارہ خوفناک حادثے کا شکار ہوگیا۔

عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ کریش لینڈنگ سے رن وے پر کافی چنگاریاں بھی اٹھیں، ذرائع کے مطابق ممکن ہے کہ رن وے پر لینڈنگ کی کوشش کے دوران ہی جہاز کے انجن کو نقصان پہنچا ہو۔

کپتان نے ایمرجنسی لینڈنگ کی کوشش کی، لیکن وہ اس میں ناکام ہوگئے اور رن وے سے جہاز کے انجن ٹکرانے سے چنگاریاں نکلیں۔

جہاز کے انجن رن وے سے ٹکرانے اوررگڑ کی وجہ سے چنگاریاں نکلنے پر پھر کپتان جہاز کو گو رانڈ (دوبارہ چکر)کروایا۔جہاز کے انجن پر رن وے سے ٹکرانے سے پیدا رگڑکے نشانات ہیں، اس بات کا امکان ہے کہ جہاز رن وے کو ٹچ کرتے وقت انجن میں آگ بھڑک اٹھی اور رن وے پر گھسنے کی وجہ سے انجنوں میں ممکنہ خرابی پیدا ہوئی۔

کراچی ایئرپورٹ کا رن وے 9ہزار سے 10ہزار فٹ لمبا ہے جس پر 6 ہزار سے 7 ہزار فٹ پر دونوں انجن کے نشانات ہیں۔

طیارے کے بائیں انجن نے رن وے پر 4500 فٹ آگے جاکر ٹچ کیا، پھر 5500فٹ دور جاکر دائیں انجن نے بھی زمین کو چھوا۔ذرائع کے مطابق طیارے کے بیلی نے رن وے کو ٹچ نہیں کیا جس کے باعث کپتان نے طیارے کو دوبارہ ٹیک آف کرلیا، دوبارہ طیارہ ٹیک آف ہونے کے بعد لینڈنگ کی کوشش میں گر کر آبادی تباہ ہوگیا۔

اے تھری 20 ساختہ طیارہ ایک انجن پر بھی 10فٹ تک آگے جاسکتا ہے لیکن غیرمعمولی صورتحال کی وجہ سے جہاز دو2 فٹ کی بلندی تک بھی نہ پہنچ سکا۔

کپتان نے لینڈنگ کے وقت اے ٹی سی کو ہنگامی لینڈنگ کی اطلاع نہیں دی۔